قرآن

   

اور (آسمان کے) تارے اور (زمین کے) درخت اسی کو سجدہ کناں ہیں اور آسمان اسی نے بلند کیا اور میزانِ (عدل) قائم کی ۔ (سورۂ رحمٰن:۶۔۷)
شجر اس درخت کو کہتے ہیں جس کا تنا ہو اور نجم ان جڑی بوٹیوں کو کہتے ہیں جن کا تنا نہ ہو جیسے ترکاریاں، بیلیں وغیرہ۔ سجود سے مراد اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر جھکا دینا ہے۔ یعنی فضا کے عظیم کرے جس طرح ایک ضابطہ پر سختی سے کاربند ہیں اسی طرح ہماری زمین کے درخت اور ادنیٰ جڑی بوٹیاں بھی قانونِ الٰہی کی پابند ہیں۔ اگر النجم سے مراد ستارے لیے جائیں تو یہ بھی درست ہے۔ ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔آسمان کو اللہ تعالیٰ نے ہی بلند کیا ہے۔ نہ یہ مادے میں ہیجان کے باعث خود بخود معرض وجود میں آیا ہے اور نہ کسی اور دیوی دیوتا نے اس کی تخلیق کی ہے۔ اس کی موجودہ ساخت میں بھی اللہ تعالیٰ کی شان رحمانیت جلوہ نما ہے۔علامہ آلوسی اس جملہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہی عدل کا قانون بنایا اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ۔ اسی عدل کے باعث نظامِ کائنات بایں حسن وخوبی قائم ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا ارشاد ہے بالعدل قامت السموٰت والارض ۔ اور یہاں عدل کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور اس میں آباد ہر چیز کو اس طرح پیدا کیا ہے جو اس کے مناسب تھی۔ ان کی بقا اور نشوونما کے لیے ایسے وسائل مہیا کردیے ہیں جن کی انہیں ضرورت تھی۔ مجاہد، ابن جریر طبری اور اکثر علما سے ’’وَضَعَ الْمِیْزَانَ ‘‘کا یہی مفہوم منقول ہے۔ کئی علما نے یہاں بھی میزان سے ترازو مراد لیا ہے، یعنی جس نے آسمان کو بلند بنایا اسی نے ترازو بھی بنایا ہے تاکہ لین دین میں عدل وانصاف ملحوظ رہے۔