قلم لکھے تو کیا لکھے والدِ محترم حضرت وقاؔر خلیل صاحب کی جدائی پر

   

عقیل رحمٰن وقار
والد محترم الحاج حضرت وقارؔ خلیلؒ صاحب مرحوم نے ایک نظم تحریر کی جس کا عنوان تھا’’ قلم لکھے تو کیا لکھے‘‘ اسی عنوان کے تحت میں نے مضمون لکھنے کی جرأت کی ہے۔’’غریبی اور شرافت جرم ٹہرائے گئے ہیں/اے خدا کے نیک لوگو/ بد نہادوں سے وفا کر لو/خودی کا فلسفہ بھی ریزہ ریزہ ہوچکا ہے/ہمارا عہدکیا ہے مصلحت کا اک خرابہ ہے/شریفوں کے گھروں کی عصمتیں بے چہرہ لگتی ہیں / محبت کا اور محنت کا ہُنریاں عیب ٹہرا ہے بہت کچھ سہہ رہے ہیں ہم/ بہت کچھ سہہ لیا ہم نے/ قلم لکھے تو کیا لکھے۔‘‘
میرے والدحضرت سید شاہ محمد خلیل الرحمن حسینی کوہ سوار المعروف وقارؔ خلیل کا نام دُنیائے اُردو ادب میں محتاج تعارف نہیں ہے۔ وہ29 اگسٹ 1930کو دکن کے معروف صوفی سخنور حضرت محمود بحری صاحب ’’من لگن‘‘ کے جائے مدفن گوگی شریف تعلقہ شاہ پور ضلع گلبرگہ میں پیدا ہوئے۔ جد اعلیٰ حضرت سید شاہ محمد اکبر حسینی کو’’ عہد عالمگیر‘‘ میں ’’ کوہ سوار‘‘ کا لقب عطا ہوا اور انہیں کئی اعزازات و انعامات سے بھی نوازا گیا۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت سید شاہ محمد چندا حسینیؒ نامی کوہ سوار نظامی نے زندگی کے پانچ دہے درس و تدریس میںگذارے بحیثیت استاد اُردو انہوں نے ہزاروں طلباء کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ سقوط حیدرآباد جسے عرف عام میں پولیس ایکشن کہا جاتا ہے سے دو چار برس قبل وہ حیدرآباد کو وطن ثانی بنانے پر مجبور ہوگئے۔وقارؔ خلیل نے ابتدائی تعلیم چادر گھاٹ ہائی اسکول حیدرآباد سے حاصل کی اور وہیں سے میٹرک کامیاب کیا اور بعد میں انہوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے منشی اور1947میں ویسٹرن یونیورسٹی جالندھر سے منشی فاضل کی سند حاصل کی۔

الحاج وقارؔ خلیل صاحب اُردو ادب کے بڑے معمار ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ کی دریافت اور ان کے تربیت یافتہ تھے۔ وہ۱۹۵۶ سے ادارئہ ادبیاتِ اُردو سے وابستہ تھے وہ شروع میں’’ ماہنامہ سب رس‘‘ کے ایڈیٹر رہے اور آخر وقت ادارئہ ادبیاتِ اُردو کے شعبہ امتحانات کے انچارج رہے۔ اس کے علاوہ وہ روزنامہ’’ سیاست‘‘ میں کالم نویس اور ادبی رپورٹر بھی رہے ہیں اس کے علاوہ مختلف روزناموں اور علمی و ادبی اداروں سے ربط ضبط کبھی زیادہ اور کبھی کم رہا۔والد صاحب کے تخلیقی سفر کے بارے میں صرف اتنا کہوں گا کہ ماحول اور معاشرہ کی حقیقتوں کو اسالیب کے تناظر میں رقم کرنے کی سعی کی ہے۔ زندگی کی سچائیوں‘ آرزوں‘ تمناؤں اور المیوں کو اپنی شعری تخلیقات میں نظم کرتے رہے وہ جناب سید محی الدین قادری زورؔ‘ فیض احمد فیضؔ‘ احمد ندیم قاسمی‘ مخدوم محی الدین‘ فراقؔ‘ اور خورشید احمد جامیؔ‘ سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور انہیں اپنے سخن کا حصہ بنایا۔اُردو زبان کے موقف کیلئے کی جانے والی سال ہا سال کی جدوجہد کی ناکامی سے دلبراشتہ ہو کر کہتے ہیں۔ ؎
اُردو تحفظات کے خانوں میں بٹ گئی
دانشورانِ اُردو زباں سب مزے میں ہیں
لقب اُردو کے محسن کا تجھی کو زیب دیتا ہے
ترا چرچا رہے گا انجمن در انجمن ساقی
اسی شاعر کا کلام عوام کے دلوں میں زندے رہ سکتا ہے جو لوگوں کے درد کو اپنا درد مانتا ہو ۔والد صاحب لکھتے ہیں کہ ؎
اب کے فساد میں وہ ہوا ہے کہ کیا لکھیں
کتنے ہی گھر جلے ہیں یہاں سب مزے میں ہیں
سوچتے ذہین‘ غمیں چہرے فسردہ آنکھیں
حیدرآباد میں اب ا ور بچا ہی کیا ہے
والد محترم کے تعلق سے جناب فیض احمد فیضؔ نے کیا خوب لکھا ہے۔’’ وقارؔ خلیل صاحب کو برصغیر پاک وہند کی نہایت محترم اور نامور شخصیت مخدومؔ محی الدین کی جنم بھومی سے نسبت ہے بلکہ وہ فخر سے کہتے ہیں۔’’مخدومؔ کا بھی طرزِبیان ساتھ ساتھ ہے‘‘ اس کے بعد اور کسی تعارف کی ضرورت نہیں ان کی نظموں اور غزلوں میں عصری احساس اور انسانی جذبات کی فراوانی ہے۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے کہ وقارؔ خلیل کا نام آتے ہی محنت کی پرچھائیاں اُبھرنے لگتی ہیں وہ کن کن رسالوں اور اخباروں کیلئے کام کرتے ہیں کیا‘ کیا لکھتے ہیں اور’’ سب رس‘‘ کیلئے انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا اس چکی کی مشقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے شاعری کی آگ کو بھی روشن رکھا۔
حضرت والد صاحبؒ نے اُردو ادب کی ٹھوس خدمات انجام دی اور وہ سستی شہرت سے ہمیشہ دور رہے مگر ان کے کارناموں نے انہیں شہرت و مقبولیت عطا کی۔ انہوں نے ریسرچ کیلئے کئی اسکالر کو مواد فراہم کیا وہ ایک شاعر گر بھی تھے۔ ان کی طبیعت میں سنجیدگی‘سادگی‘خودداری اور ملنساری تھی وہ اپنے سینے میں قوم کیلئے تڑپتا ہوا دل رکھتے تھے۔وقارؔ خلیل صاحب حیدرآبادی تہذیب کے’’ وقارؔ‘‘ اور ادب نوازوں کے ’’ خلیل‘‘ تھے۔ وضع داری اور بے نیازی اُن کے خاص اوصاف تھے۔وہ اجارہ داری اور گروپ ازم کے سخت مخالف تھے۔وہ لکھتے ہیں۔ ؎

اپنے بارے میں بھی کبھی تم نے کچھ سوچا ہے وقارؔ
اونچے اونچے درجے پائے ایسے ویسے لوگوں نے
والد محترم ہمیشہ تحت اللفظ میں کلام سنایا کرتے تھے وہ پڑھتے کیا تھے لب و لہجہ کا جادو جگاتے تھے۔ ان کی ہر غزل ہر نظم گویا دل کی بے ساختہ دھڑکن اور شاعری کی بھٹی میں تپا ہوا خیال ہوتی۔ اُردو ہی ان کی روزی روٹی کا ذریعہ تھی۔والد صاحب کے مضامین‘ غزلیں‘نظمیں‘فیچرز‘تبصرے بے شمار اخباروں اور رسالوں کی زینت بنیں اُنہیں دیگر سرکاری وغیر سرکاری اعزازات سے نواز بھی گیا۔آل انڈیا ریڈیو‘دور درشن ٹیلی ویژن دہلی اور حیدرآباد‘ اور جدہ ریڈیو سے بھی اُن کا کلام نشر ہوا۔
حیدرآباد کے علمی‘ ادبی‘صحافتی‘اور شعر و ادب کے ساز گار ماحول نے وقارؔ خلیل کے قلم کو جلا بخشی اور انہیںزندگی جینے کا حوصلہ بخشا۔ ترقی پسند تحریکات کے ہم قدم رہ کر ادب ‘ زندگی‘ماحول او رمعاشرہ سے انہوں نے کچھ سیکھا اور حاصل کیا‘اسے اپنے تین مشہور شعری مجموعہ’’ شاعری‘‘’’سخن‘‘ اور ’’ ورثہ ‘‘ کے اوراق پر بکھیر دیا۔ یہی ان کا متاع ِ حیات ہے۔وقارؔ خلیل کی غزلیات میں خاص بانکپن ہے ۔ روایت کی مناسب حد تک پاسداری کرتے ہوئے انہوں نے اِسے مخصوص جدید لب و لہجہ دیا ہے ۔ ان کے کلام میں عصری زندگی کی عکاسی ہے اور داخلی واردات کا اظہار بھی ملتا ہے۔ ان کا کلام اُردو کے جدید سرمایہ شاعری میں ایک اہم اضافہ ہے ۔وہ 1956 سے 1998 تک ادارہ ادبیاتِ اُردو حیدرآباد سے وابستہ رہے۔وقارؔ خلیل کی مطبوعات بہت مقبول ہوئی ہیں۔بالاآخر عظیم‘حق گو‘ خود دار و بلند پایہ شاعر وقارؔ خلیل2 نومبر 1998 کو داغ مفارقت دے کر اپنے رب حقیقی سے جاملے۔یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں۔’’ ہم نے کس طرح تمہیں چھوڑا ہے ہم جانتے ہیں۔‘‘