قوم کو پاگل پن نہیں ہوش کے ناخن لینا ہوگا

   

اونی بنسل
ہمارا ملک ہندوستان ایک عظیم ملک ہے ، ایک قدیم سرزمین ہے جو قدرتی وسائل اور قدرتی حُسن سے مالا مال ہے ۔ ہر طرف سے بہنے والی بارہ ماسی ندیوں کے پانی سے مالا ال ہے جو اپنے بہاؤ کے ساتھ عظیم الشان تہذیب کے بیج لاتی ہے ۔ ہندوستان کی تہذیب و تمدن سارے عالم میں اپنی ایک منفرد پہچان اور شناخت رکھتی ہے ، ہمارے وطن عزیز کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ صدیوں سے اس نے نہ صرف دنیا بھر کے لوگوں کا خیرمقدم کیا بلکہ اُنھیں اپنے دامن میں پناہ بھی دی اور بسایا بھی اور اُنھیں اپنے گھر میں ہونے کاا حساس دلایا ۔
حقیقت یہ ہے اور اس حقیقت و سچائی سے کوئی انکار بھی نہیں کرسکتا کہ ہمارا یہ ملک ہمارا یہ گھر ہمیشہ شمولیت اور جامعیت کیلئے کھڑا رہا ۔ ہمیشہ مشمولیاتی مقاصد کو اہمیت دی ۔ ہمارے ملک کا ہدف اعلیٰ ترین روحانی فلسفہ ہے اور اسی فلسفہ کی خوبی یہ ہے کہ وہ لوگوں کو امن کے مضبوط احساس کے ساتھ روزمرہ کی زندگی گذارنے کے قابل بناتا ہے اور ہمارا سماجی تانا بانا اسی بقائے باہم کی دین ہے ۔ باالفاظ دیگر پرامن بقائے باہم ہی ہندوستان کا اصل پیغام ہے ۔
ہمارے ملک کی بے شمار خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کا دامن ایسی بے شمار عظیم کہانیوں اور داستانوں سے بھرا پڑا ہے جو اس سرزمین کے کونے کونے میں روحانی فیض جاری کرنے والے سنتوں نے لکھا ۔ یہ وہ کہانیاں اور داستانیں ہیں جو صدیوں سے ہمیں امن و دوستی انسانیت نوازی کی تحریک دیتی رہی ہیں ۔ ہمارے ملک ہندوستان میں وہ خوبیاں ہیں جو شائد کسی اور ملک میں نہ ہوں ۔ یہ ایسی خوبصورت سرزمین ہیں جہاں مختلف مذاہب و عقائد کے ماننے والے مختلف فکری نظام کی نماندگی کرنے والے ، مختلف رسومات ادا کرنے والے اور مختلف طرز زندگی اختیار کرنے والے پوری ہم آہنگی کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں ۔ ایسے میں آج جبکہ حالات انتہائی سنگین ہوگئے ہیں مذہب کے نام پر لوگوں سے امتیاز برتا جارہا ہے ۔ اکثریت کی خوشامدانہ پالیسی پر سیاسی جماعتیں گامزن ہوگئیں ہیں ۔ سیاسی ، سماجی اور قانونی حدود سے ماوا ہوکر ایک مندر کو محور بناکر ایک مذہب کو مرکز میں رکھا گیا ہے ۔ ہمیں اپنے شاندار عظیم الشان ماضی اور اپنے نامعلوم مستقبل دونوں پر بڑے پرسکون انداز میں دوبارہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج ملک کے جو کچھ حالات ہیں ایسے میں یہ سوال ضرور ہمارے ذہنوں میں گردش کررہا ہے کہ کیا ہمارے بچے ، ہماری نئی نسل ایسے ہندوستان میں بڑے ہوں گے جہاں مذہب ہماری ہر پہچان ، بات چیت زندگی کے اُصولوں پر محیط ہے ۔ اور یہ دوسروں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو کمتر یا دوسرے درجہ کا شہری بنادیتا ہے ۔ ان لوگوں نے ہر طریقہ سے اپنا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اُنھیں اپنی ہر کوشش میں ناکامی ملی اور آخرکار ایک روشن خیال ، فراخدل جامع اور ہمہ گیر ہندوستان کے نظریہ نے سربلندی حاصل کی ۔ اب جب ہم ایودھیا میں رام مندر کا جشن منارہے ہیں تو ہمیں خود اپنے آپ سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے ملک کے شاندار ماضی سے غداری کررہے ہیں ؟
جھوٹ پر جھوٹ اس لئے بولے جارہے ہیں کہ ملک میں نفرت کا بازار گرم کیا جائے اور مسلمانوں کو الگ تھلگ کیا جائے۔ ہم آرامدہ زندگی کیلئے نفرت اور مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی اجازت دے رہے ہیں تاکہ اپنے آپ کو اقتدارپر قابض عناصر سے خود کو بچاسکیں اور اگر ہم اسی مقصد کیلئے اپنی آنکھیں بند رکھنے کا انتخاب کرتے ہیں تو تباہی و بربادی ہمارا مقدر ہوگی ۔ یاد رکھئے جمہوریت میں عوام یعنی ہم طاقت کا سرچشمہ ہوتے ہیں اور یہ ہم ( عوام ) ہی ہیں جو اس قدیم و عظیم قوم کی تقدیر کا فیصلہ اور اس کا انتخاب کریں گے اور اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں یا حقیقت سے منہ موڑ لتے ہیں تو کوئی بھی ہمیں نہیں بچاسکتا ، ہماری تباہی و بربادی یقینی ہوجائے گی ۔ مذہب ہر فرد کا نجی معاملہ ہے ہمیں مذہب پر عمل کرنا چاہئے لیکن کسی کے مذہب کو کمتر نہیں سمجھنا چاہئے ، ہمیں کسی بھیڑ کی طرح برتاؤ نہیں کرنا چاہئے ۔ دوسری طرف حکومت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ کسی ایک مذہب کی سرپرستی کرنے کی بجائے تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہوگا ۔ اسے یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی سیاست بدترین سیاست ہے جس سے کسی کا فائدہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس سے صرف ملک و قوم کا نقصان ہی ہوتا ہے ۔ حکومت کویہ بھی جان لینا چاہئے کہ ہمیں ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو جانبداری ، عدم مساوات اور تعصب سے پاک ہو جو صرف اور صرف تعلیم ، صحت اور بہتر حکمرانی کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھے ۔ ہم سب کو ایک ایسے ہندوستان کی ضرورت ہے جہاں کوئی بھوکا نہ رہے، جہاں کوئی فکر میں مبتلا رہ کر اپنی نیند محروم نہ رہے ، یہی ہمارا آئیڈیل ہونا چاہئے اور خاص طورپر سیاستدانوں کو اسی آئیڈیل کیلئے کام کرنا ہوگا ۔
ہمیں مذہبی جنون و پاگل پن کی بجائے فہم و ادراک کی راہ اختیار کرنی چاہئے اور سب کے لئے پیار و محبت ہمارا نغمہ ہو ۔ جو لوگ ایسا کریں گے تاریخ کے اوراق میں وہ زندہ رہیں گے اگرچہ وہ اقلیت میں ہی کیوں نہ ہوں ۔ اُنھیں آگے بڑھنا ہوگا، ملک کو فرقہ پرستی ، تعصب و جانبداری اور امتیازی سلوک کی بیماری سے بچانا ہوگا ۔ انھیں یہ بات اچھی طرح اپنے ذہنوں میں بٹھانی ہوگی کہ ہرچیز ایک اُمید سے شروع ہوتی ہے اور اُمید کا دامن ہم کبھی نہیں چھوڑ سکتے ، نہ ہی کبھی چھوڑنا چاہئے ۔ اُمید ہی کامیابی و امن و خوشحالی کی شمعیں روشن کرتی ہے ۔