قیاس آرائیاں

   

جہانگیر قیاس
ہماری زندگی ایک تصورات کا جنگل ہے ‘ خوش فہمیوں کا باغ ‘ ارمانوں کا گلستان‘ تفکرات کا صحرا ہے اور خوف کی گھاٹی ہے۔ انسان اپنی تمام زندگی امید آرزو خوف و گمان اور بعض اوقات اعتماد کے ساتھ استقلال کی زندگی بسر کرتا ہے ۔ ہم نے جب سے دنیا میں آنکھ کھولی ہے چیزوں کا مشاہدہ کیا ہے اور امید اور خوف کے ساتھ ان چیزوں کو برتنا سیکھا ہے‘ کبھی نقصان تو کبھی فائدہ ‘ انسانی دماغ ہمیشہ سے ایک تخیل کی اڑان میں رہتاہے وہ ہمیشہ سوچتا رہتا ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جانا ہے؟ اس کا تشفی بخش جواب اسلام میں ملتاہے مگر دنیاوی زندگی میں فکر اور خوف عدم تحفظ کا شکار ہوجانا یہ ایک انسانی فطرت کی بات ہے۔ ہم بہت کم علم رکھنے کے باوجود اکثر ہم میں سے ایسے لوگ مل جائیں گے جو قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں حالانکہ جس چیز کے بارے میں وہ بیان کررہے ہیں اس سے وہ بھی ناواقف ہوتے ہیں مگر فطرت انسانی ہے کہ کچھ نہ کچھ قیاس کرتاہے اور اپنے قیاس کو دوسروں کے سامنے پیش کرکے اپنے آپ کو علم والا سمجھ کر خوش فہمی میں گم رہتاہے‘ کر بھی کیا سکتا ہے اس کے سوا جو لوگ علم و فن میں مصروف ہیں وہ لوگ مطمئن اور شادماں ہیں۔ اور جنہیں علم و فن کی دولت نہیں ملی وہ لوگ بھی کچھ نہ کچھ قیاس آرائیاں کرنے کو اپنی حماقت تصور کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی آدمی سے کسی بھی چیز کے بارے میں پوچھو وہ لاعلمی ظاہر نہیں کرے گا‘ کچھ نہ کچھ قیاس و فہم کے مطابق آپ کو بتائے گا چاہے وہ سہی ہو یا غلط کیونکہ سماج میں اس کو اپنی پوزیشن برقرار رکھنا ہوتاہے۔
اصل میں ان چیزوں سے ہم بچپن سے ہی واقف ہیں۔ جب ہم چھوٹے تھے نانی دادی کہا کرتی تھیں کہ ا پکاررہا ہے گھر کو مہمان ضرور آئے گا اور جب رات ہوتی تو چاند کو بتاکر کہا جاتا چاند کے اطراف ایک دائرہ نما روشنی ہوتی تھی اس کو ’’کھلّا‘‘ کہا جاتا تھا اور دادی کہا کرتی تھی ایسا ہونے سے اناج سستا ہوجائے گا اور رات ،بڑی ہوجاتی تو کتے روتے تھے تو نانی کہا کرتی تھی محلے میں کوئی نہ کوئی انتقال کرجائے گا ۔ یہ علامتیں یہ قیاس آرائیاں ان چیزوں کے ہم بچپن سے عادی ہیں اور کہا جاتا ہے ہنستے ہوئے مرد اور روتی ہوئی عورت پر بھروسہ نہ کریں اور کہا جاتا ہے کتی گردن یعنی چھوٹی گردن اور تنگ پیشانی مکاری کی نشانی بلی کے دیدے اور طوطے کی ناک بے بھروسہ اب اس کو قیافہ شناسی کہیں یا قیاس آرائی گھر میں بیر کا جھاڑ نہ لگائیں حالانکہ اسلام میں نحوست کسی میں بھی نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا اگر نحوست ہوتی تو 3چیزوں میں ایک گھر ،گھوڑا اور عورت۔ وہ اس طرح کہ ایسا گھر جس میں روشنی ہوا نہ آتی ہو‘ گھوڑا پالے مگر جہاد کے کام نہ آیا یا سفر کے کام میں نہ آیا ہو‘ عورت جو اسلامی تعلیمات سے دور اور آپ کی ہم خیال نہ ہو۔
جب ہم کالج جایا کرتے تھے اس زمانے میں پرائمری اسکول کے بچے جب ہم سے باتیں کرتے تھے تو ان کی باتیں بھولی بھالی قیاس آرائیاں لگتی تھیں لیکن آج ہم کو بعض لوگوں کی باتیں جو عمر میں تو بڑے ہوگئے دولت اور شہرت خدا نے عطا کردی مگر شعور و فہم کی دولت سے ابھی ناآشنائی نے ان کو بھی قیاس آرائیاں کرنے پر مجبور کردیا کیونکہ بعض چیزوں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کی بنا پر بھولی بھائی قیاس آرائیاں کرتے چلے جاتے ہیں خود میرے محکمے کے بارے میں جس میں میں نے 40سال گزاردئے اس کے اسرار و رموز اور نشیب و فراز اور باریک باتوں پر اس طرح قیاس آرائیاں کرتے ہیں تو مجھے وہ پرائمری اسکول کے بچے یاد آجاتے ہیں اور میں مسکراکر سوچتا ہوں کہ انسان کی فطرت میں قیاس آرائیاں کرنے کا مادہ موجود ہے اور اس کو بیان کرکے تشفی حاصل ہوتی ہے۔آپ اور ہم اکثر دیکھتے ہیں اشتہاروں پر لکھا ہوتاہے روشن مستقبل (Bright future)۔ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ ایڈوکیٹ‘ چارٹر اکائونٹنٹ کیا سماج میں ان پیشوں کے علاوہ دوسرے پیشے روشن مستقل کی ضمانت نہیں ہے۔ مگر لوگوں کے ذہن میں اس طرح کی قیاس آرائیاں سنتے سنتے اس پر ہی جم گئے ہیں اصل میں انسانی ذہن جو چیز بار بارسنتا ہے اسی کو قبول کرلیتاہے اور اس پر متفق ہوجاتاہے اس کے برخلاف سننا پسند نہیں کرتا۔ اسی کو نظریاتی رجحان کہتے ہیں۔
نپولین جس کی تمام زندگی قتل و غارت گری میں گزری او رتاریخ میں ہزاروں کتابیں مختلف زبانوں میں شائع ہوچکی ہیں وہ جب اپنی محبوبہ جوزفین کو خط لکھتاہے تو وہ ایک عام آدمی کی طرح محبت کرنے والا نظر آتاہے جوزفین کو نپولین نے خطوط اس زمانے میں لکھے تھے جب وہ ایک کمانڈر کی حیثیت سے انسانی خون کی ہولی کھیل رہا تھا۔ نپولین جیسے ظالم انسان کے اندر کا انسان بھی ہمارے جیسا عام آدمی تھا مگر حالات نے شاید ایسا کروایا ہوگا مگر دنیا کی قیاس آرائیاں اور تاریخ اور حقیقت میں کافی فرق ہوتاہے۔
اسی طرح واجد علی شاہ اور ان کی بیگمات کے بعض خطوط کے بارے میں بھی سماج میں قیاس آرائیاں ہوتی ہیں۔ شبلی‘ صفیہ اختر اور سجاد ظہیر وغیرہ کے محبت نامے قابل ذکر ہیں۔انسان اپنے شعور اور وجدان‘ داخلیت اور خارجیت مقصدیت اور جمالیاتی کیفیت ابہام اور ترسیلی قوت ایک دوسرے میں تحلیل ہوکر ایک تخلیقی اکائی پر قیاس آرائیاں شروع ہوجاتی ہیں کچھ تو سچ ہوتی ہیں اور بعض ناقص ہوکر رد کردی جاتی ہیں۔
اب آپ کسی آدمی سے کسی چیز کے بارے میں بھی دریافت کریں فوراً آپ کو اس کے بارے میں جواب دے گا اور قیاس آرائیاں شروع کردے گا وہ اس کو اچھی طرح سے جانتا ہو یا سرسری معلومات ہو اس پر ایک طویل گفتگو کرتا چلا جائے گا چاہے آپ مذہبی‘ سیاسی‘ علمی‘ ادبی موضوعات پر یا پھر قومی و بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے واقعات و سانحات پر دیر تک باتیں کیا کرتے ہیں ان میں زیادہ تر قیاس آرائیاں ہوتی ہیں اس کو ہم جھوٹ نہیں کہہ سکتے۔ یہ تخیل کی اڑان ہی ہوتی ہے‘ ان میں کچھ تجربات مشاہدات تاثرات سے گزرکر جمالیاتی تہذیب کے ایسا امتزاج سے فکر و فن اور علمی استعداد کی حقیقتیں سامنے آتی ہیں یہ انسانی زندگی کے لئے ضروری بھی ہے مشاہدات مشورے انسانی زندگی کو پروان چڑھاتے ہیں اور جو لوگ مباحثے اور مشورہ کو تجربات و تاثرات کو حقیر سمجھتے ہیں وہی لوگ زندگی میں کافی دھوکے کھاتے ہیں۔
ہم نے دیکھا ہے فن و ہنر میں ایسے لوگ کمال کو پہنچتے ہیں جن کو اپنے خاندان کی پشت پناہی اور رہنمائی ہو۔ یا پھر مخلص اساتذہ میسر آجائیں ورنہ بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں فن و ہنر سیکھنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ نظر آتاہے۔
لوگ اکثر کہا کرتے ہیں آپ نے بھی سنا ہوگا مگر بہت کم لوگ ان الفاظ پر غور کرتے ہیں‘ کہتے ہیں ’’لوگ خاندانی ہیں‘‘ اس کا مطلب ہر کسی کو بھی خاندان ہے مگر بکھرے بکھرے ہوتے ہیں بعض خاندانوں میں بڑوں کے مشوروں پر کام ہوتا ہے جس میں برکت اور رہنمائی ہے۔ اس قسم کے لوگ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوتے یں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشورہ کرو مشورہ میں برکت ہے۔ مگر آج کے حالات میں لوگ مشورہ کرنے کو بے وقوفی یا پھر شرمندگی محسوس کررہے ہیں اور وہ اپنے اندر یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر میں فلاں سے مشورہ کروں تو وہ مجھے کم عقل اور کم فہم مان لے گا۔ لہٰذا اپنے دماغ سے کام کرو۔ یہاں پر انانیت آگئی اور جہاں انانیت آتی ہے وہ راستہ نقصان کی طرف جاتاہے۔ اب اس قسم کے لوگوں سے آپ مشورہ کریں تو وہ بھی معلومات نہ ہونے پر بھی ان چیزوں پر قیاس آرائیاںکرتے چلے جاتے ہیں اگر نہ کریں تو لوگ کم فہم سمجھیں گے اور انسان کی فطرت ہے اپنے آپ کو کم تر سمجھنا اور کم تر پیش کرنا بالکل بھی پسند نہیں ہے مگر وہ سیکھنا بھی نہیں چاہتے اور اہل علم اور اہل فن سے روابط استوار کرنا بھی مشکل سمجھتا ہے۔ میرے ماما جو ایک فوجی بھی تھے اور بعد میں پولیس آفیسر بھی رہے ہیں میں ان کے زیادہ قریب رہا ہوں کیونکہ مجھے شکار کا شوق تھا اس لئے میں نے فائرنگ کرنے کے تمام اسرار و رموز اور تمام نکات اور تمام باریکیاں میں نے ماما سے سیکھے ہیں اور ایک اچھا فائر کرنے والا سمجھا جاتا ہوں جب کہ میں بچپن میں10 پتھر مار کر بھی ایک کیری گرا نہیں سکتا تھا یہ سیکھنے والے سے زیادہ سکھانے والے کی اپنائیت کا معاملہ ہے ‘ سرسری لوگ سکھاتے ہیں اور سرسری لوگ سیکھ لیتے ہیں یہ الگ بات ہے۔
فائرنگ میں Obserسے Objectبہت سارے چیزوں کو غور کرنا ہوتاہے وہ میرے ماما میرے دماغ میں Inject کردیتے تھے مجھے اپنا سمجھ کر اور انہیں بھی میں بہت ٹوٹ کر چاہتا تھا اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے مگر میرے شعور میں اب بھی کسی کونے میں میری رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں میں جب بھی ہتھیار دیکھتا ہوں اور جب بھی ہتھیار میرے ساتھ ہوتاہے ان کا وجود برابر میرے آس پاس ہوتاہے اور میرے ماں باپ بھی ہر خوشی اور غم میں میرے ساتھ ہوتے ہیں انہیں میں اپنے آس پاس ہی محسوس کرتا ہوں اور میرے وجود کو جلا ملتی ہے اور میری روح خوش ہوجاتی ہے‘ خیر یہ تو جذباتی باتیں تھیں۔
اب میرے سامنے کوئی ہتھیار یا فائرنگ کے بارے میں با ت کرتا ہے تو بغیر معلومات کے تو وہ مجھے قیاس آرائیاں لگنے لگتی ہیں مگر لوگ قیاس آرائیاں کرتے تھکتے نہیں یہ ایک انسانی فطرت ہے۔ میں ان کی باتیں سن کر خوش ہوتا ہوں مگر حقیقت اس لئے نہیں بتا تا ہوں تاکہ ان کو اپنی کی ہوئی بات پر شرمندگی محسوس نہ ہو ہاں اگر کوئی سیکھنے کی غرض سے پوچھے تو بتادیتاہوں مگر ایسے لوگ بہت کم ہیں۔
اصل میں قیاس آرائیاں کرنے کے مجاز وہ لوگ ہیں جو علم و ہنر میں اپنی معراج کو پہنچ چکے ہیں اور وہ بھی صدفیصد درست نہیں ہوتی۔ رب جو چاہتا ہے وہ ہوتاہے۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ بزرگوں کا عمل بھی رہا ہے منہ میں کیا جارہا ہے اور منہ سے کیا نکل رہا ہے اس پر توجہ ضروری ہے۔ اگر ناجائز چیزیں کھائو گے تو خود خراب ہوجائو گے اگر ناجائز باتیں کرو گے تو سننے والا سماج خراب ہوجائے گا اور اس کا اثر آپ کی شخصیت پر بھی پڑے گا ۔ احتیاط ضروری ہے اور بعض لوگ اپنی ضرورت کی حد تک جدوجہد کرکے اپنی زندگی کے لحاف میں سمٹ جاتے ہیں انہیں معاشرے ، سماج اور حالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا صرف اپنی زندگی میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں اگر آپ جذبات سے بھرے واقعات بھی سنائیں گے وہ اس طرح سنتے ہیں جیسے ماحول کی فضا میں کوے چڑیوں کی بولیاں جس کا جواب دینا ہمارا کام نہیں ہے ۔ یہ ایک الگ مخلوق ہے اور بعض لوگ اتنی گفتگو کرتے ہیں جو نہ علمی ہوتی ہے اور نہ رہنمائی کی ہوتی ہے بس کہے چلے جاتے ہیں سامنے والے پر کیا گزررہی ہے اس کا اندازہ نہیں کرتے یہ ایک فطری بات ہے کیا کریں لیکن احتیاط ضروری ہے۔ کئی ایسے بھی لوگ ہیں جو دوسروں پر نظریات کا لیبل لگادیتے ہیں کہ فلاں شخص ایسا ہے اور فلاں شخص ایسا ہے وغیرہ وغیرہ جب کہ اس شخص کی جانکاری انہیں نہیں ہوتی ایک دو ملاقاتوں سے کسی کی بھی اصلی حالت سامنے نہیں آتی بس قیاس آرائیاں کرتے ہیں حقیقت سے دور۔
وہم و قیاس کے سوا حاصل ہوش کچھ نہیں
فہم کی ابتداء ہے وہم‘ عقل کی حد قیاس ہے