لاک ڈاؤن ۔ 5 کیوں ؟

   

ہرسانس لگ رہی ہے ہمیں آخری یہاں…
جی بھی کہاں رہے ہیں اگر مر نہیں رہے !!!
لاک ڈاؤن ۔ 5 کیوں ؟
ہندوستان میں کورونا وائرس کے کیسوں میں مسلسل اضافہ اور بعض ریاستوں میں کیسوں کی تعداد کا تشویشناک حد تک بڑھنا غور طلب امر ہے ۔ لاک ڈاؤن کے باوجود اگر کورونا مریضوں میں اضافہ ہورہا ہے تو اس کی برخاستگی یا نرمی کے بعد کیسوں کی تعداد کس حد تک بڑھے گی ۔ اس پر اندیشے ظاہر کئے جارہے ہیں ۔ لاک ڈاؤن 5 کی ضرورت ہے یا لاک ڈاؤن کو ختم کردیا جائے یہ سوال حکومتوں کے لیے اضطرابی کیفیت پیدا کررہا ہے ۔ اگر لاک ڈاؤن میں توسیع کی جاتی ہے تو ملک کی معیشت پر مزید اثر پڑے گا ۔ اگر نرمی یا لاک ڈاؤن مکمل ختم کردیا جاتا ہے تو کورونا وائرس کا پھیلاؤ ہوگا ۔ ہر دو صورتوں میں حکومت اور عوام الناس دونوں کے لیے خطرہ ہے ۔ اس سلسلہ میں بھی دو رائے پیدا ہورہی ہے ۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر لاک ڈاؤن ختم ہوتا ہے تو معیشت کو دوبارہ بحال کرنے میں مدد ملے گی ۔ لاک ڈاؤن ختم کرنے کے بعد یہاں عوام کو زیادہ سے زیادہ طور پر احتیاط برتنے کی ضرورت ہوگی ۔ محکمہ صحت کے رہنمایانہ خطوط کے مطابق عوام کو اپنی روزمرہ زندگی میں احتیاط سے کام لینا ہوگا ۔ روزانہ سماجی دوری کو برقرار رکھنا ۔ چہروں پر ماسک لگانا ، ہاتھوں کو بار بار دھونا اور دیگر حفاظتی تدابیر پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ لیکن 130 کروڑ آبادی والے اس ملک میں عوام الناس کو اب تمام باتوں پر عمل کرنے یا کرانے کی کوشش بھی ایک وقتی مساعی ہوسکتی ہے ، اس پر مسلسل قائم رہنے کی عوام کوشش نہیں کرپائیں گے ، ایسے میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ یقینی ہوگا جو آگے چل کر کئی نئے مسائل پیدا کرے گا ۔ اگر حکومتوں کی جانب سے بعض ریاستوں اور شہروں میں لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کیا جائے تو پھر ملک کی معیشت اور عوام کی روزمرہ کی زندگی ٹھپ ہو کر رہ جائے گی ۔ بیروزگاری بڑھے گی ۔ گذشتہ 60 دنوں سے ہندوستان کا ہر شہری لاک ڈاؤن کی مشکلات کا شکار ہورہا ہے ۔ اب مزید لاک ڈاؤن کی صورت میں بیروزگاری کی شرحوں میں اضافہ ہوگا ۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران ہر پانچ ہندوستانیوں میں سے ایک ہندوستانی بیروزگار ہوا ہے ۔ ہندوستان میں اس وباء کورونا کی وجہ سے لاگو کیا گیا لاک ڈاؤن ساری دنیا میں سب سے طویل مدت کا لاک ڈاؤن ہے ۔ بیروزگاری اپنی انتہا کو پہونچ چکی ہے ۔ صرف اپریل میں ہی زائد 2 کروڑ افراد بیروزگار ہوئے ہیں ۔ طبی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کورونا وائرس کا اثر ایک سال تک رہے گا ۔ اس میں روزانہ کے حساب سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد اس موذی مرض کا شکار ہو کر مفلوج ہوجائیں گے اس کے علاوہ موت کے منہ میں بھی جاسکتے ہیں ۔ اس وبا کی زد میں ڈاکٹرس ، نرس ، ٹکنیشنز ، کام کاج کرنے والے صفائی کرنے والے آئیں گے ۔ کورونا وائرس کی جنگ میں فرنٹ لائن پر محدود وسائل کے ساتھ ڈٹے ہوئے طبی عملہ کے ارکان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے تو حکومت اور محکمہ صحت کی ذمہ داریوں پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہ حکومت اس وباء پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ اس کے پاس تدابیر ہونے کے دعوے ہیں ۔ انتظامات کے کھوکھلے دعوے ہیں ۔ لیکن عوام کو دن بہ دن مشکلات سے ہو کر گذرنا پڑرہا ہے ۔ اس حکومت کا رویہ عوام کے لیے حد درجہ تکلیف دہ ہوتا جارہا ہے ۔ اس خوفناک جنگ میں حکومت نے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اب تک ریاستی چیف منسٹروں کے ساتھ کئی کانفرنسیں کی ہیں ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی دو دن قبل چیف منسٹروں سے کانفرنس کی اور نتیجہ معلق ہی رہا ہے ۔ لاک ڈاؤن میں توسیع یا نرمی کا معاملہ ہر دو مرکز اور ریاستوں کے لیے غیر عملی اور غیر ارادی طور پر مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ یہ انجان بیماری بے حد خطرناک ہے ۔ اس سے عوام کو ہی فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر عوام اس بیماری سے لڑنے اور اس کو شکست دینے کے لیے خود کو تیار کرلیتے ہیں تو اس بیماری کے خاتمہ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ لاک ڈاؤن رہے یا نہ رہے لاک ڈاؤن کے علاوہ احتیاطی تدابیر پر کار بند رہنا اور مجمع ، ہجوم سے مکمل اجتناب ناگزیر ہے ۔ عوام کو اپنی جانوں کی خود حفاظت کرنی ہے ۔ حکومت اور عوام دونوں مل کر غیر معمولی سنجیدگی یکسوئی اور اعلیٰ درجہ کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے دور بینی سے کام لیتے ہیں تو مہلوک وباء سے چھٹکارا پایا جاسکے گا ۔ کورونا وائرس کے تعلق سے ساری دنیا کی یونیورسٹیوں ، سائنسی لیبارٹریوں میں جو تحقیق ہورہی ہے یہ تو جاری رہے گی ۔ اس کی دوا تیار ہونے تک عوام کو ہی اپنے اندر مدافعتی قوت کو بڑھانے اور وائرس پر قابو پانے کا عزم کرتے ہوئے روزمرہ زندگی گذارنے کی عادت ڈالنی ہوگی ۔ اگر عوام اپنی مدد آپ کرنے لگیں تو لاک ڈاؤن 5 یا اس کے بعد کی سختیوں کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔۔
چین کے خلاف امریکی تحدیدات !
صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک طرف چین کے خلاف اپنے موقف کو سخت کردیا ۔ دوسری طرف عالمی تنظیم صحت WHO سے امریکہ کے روابط منقطع کرنے کا اعلان کیا ۔ ساری دنیا میں کورونا وائرس کی وباء کو لے کر کئی مغربی ممالک نے چین کو مورد الزام ٹہرایا ہے ۔ صدر ٹرمپ نے چین کے خلاف کارروائی کو ضروری قرار دیا کیوں کہ چین اس وباء کے تعلق سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرسکا اور ہانگ کانگ میں چین کی مداخلت بیجا پر بھی صدر امریکہ نے ناراضگی ظاہر کی ۔ ٹرمپ نے اب امریکہ میں زیر تعلیم چینی طلبہ پر بھی پابندی لگائی ہے ۔ چین کے تحقیق کاروں کو امریکہ کی اہم سیکوریٹی کے لیے خطرہ سمجھا ہے ۔ صدر ٹرمپ کا ماننا ہے کہ امریکہ کے سابق صدور نے چین کو سر پر بیٹھا رکھا تھا ۔ ان سابق صدور کی غلطی کی وجہ سے ہی آج چین نے امریکہ کو صحت اور تجارت کے معاملہ میں نقصان پہونچایا ہے ۔ کورونا وائرس کو ایک عالمی خطرہ بنا کر چین نے صورتحال بگاڑ دی ہے ۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی یہ رائے سخت ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا وائرس نے دنیا کے سماجی ، معاشی اور اقتصادی نظام کو تباہ کر کے رکھدیا ہے لیکن یہ وقت ایک ملک کا دوسرے ملک پر الزامات لگانے کا نہیں بلکہ باہمی طور پر اس وباء پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کرنے کا ہے ۔ تمام مالیاتی اداروں اور عالمی صحت تنظیم کو مل کر اس مہلک وبا پر قابو پانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب تک دنیا کی بڑی طاقتوں نے اپنے اپنے ملکوں میں کورونا وائرس سے نمٹنے کی جدوجہد کی ہے ۔ اب انہیں آپس میں مل کر اپنے اپنے حصہ کی کوشش کرتے ہوئے مالی اقدامات ، راحت کی فراہمی اور طبی سہولیات کی بہم رسائی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔ چین کے خلاف امریکی تحدیدات کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا لیکن اس اقدام سے دو ملکوں کے درمیان تلخیوں میں اضافہ ہوگا اور آج کا یہ وقت کسی بھی ملک کو ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے کی اجازت نہیں دیتا ۔ لہذا تمام ملکوں کو موجودہ صورتحال سے سبق لیتے ہوئے باہم طور پر وائرس سے نمٹنے کی تیاری کرنی چاہئے۔۔