لوک سبھا الیکشن:مسلم ووٹنگ فیصد میں اضافہ وقت کی اہم ترین ضرورت

,

   

مسلم ووٹنگ 60 فیصدہو تو فرقہ پرستی کو روکنا ممکن ، تلنگانہ کے 10 اضلاع میں قابل لحاظ آبادی، لاپرواہی کی صورت میں پچھتاوا
حیدرآباد۔/17 اپریل، ( سیاست نیوز) انتخابات چاہے لوک سبھا کے ہوں یا اسمبلی کے رائے دہندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دستوری حق سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی پسند کے نمائندہ کو منتخب کریں۔ مرکز اور ریاست میں حکومتوں کی تشکیل میں رائے دہندوں کی حصہ داری کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حالیہ برسوں میں عوام کی رائے دہی سے عدم دلچسپی میں اضافہ کی صورتحال کے نتیجہ میں سیاسی پارٹیوں کو دھاندلیوں اور طاقت کے استعمال کے ذریعہ کامیابی کا موقع فراہم ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن نے لوک سبھا چناؤ میں رائے دہندوں کی شراکت میں اضافہ اور ووٹنگ تناسب بڑھانے کے مقصد سے قومی سطح پر شعور بیداری مہم شروع کی ہے۔ رائے دہی سے عوام کی عدم دلچسپی پر حالیہ عرصہ میں بعض سروے رپورٹس منظرعام پر آئیں جن میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ کمزور طبقات اور اقلیتوں کا انتخابی نظام پر سے اعتماد متزلزل ہوچکا ہے۔ ملک میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی رائے دہی میں اضافہ پر آج تک کوئی منظم مساعی نہیں کی گئی جس کے نتیجہ میں سیاسی پارٹیوں کے نزدیک مسلم رائے دہندوں کی اہمیت محض ووٹ بینک کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جب کبھی الیکشن آتا ہے بعض غیرسرکاری تنظیمیں عوام میں مہم کا آغاز کرتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ رائے دہندے جمہوری عمل کا حصہ بن سکیں۔ گذشتہ 10 برسوں میں زعفرانی تنظیموں نے ہندوستان میں جس طرح سر اُبھارنے کی کوشش کی ہے ایسے میں اقلیتوں اور سیکولر طاقتوں کیلئے ووٹ ایسا واحد ہتھیار ہے جس کے ذریعہ فرقہ پرستی کے زہر کا اکسیر تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اگر کمزور طبقات اور اقلیتیں ملک میں انتخابی جمہوری عمل میں خودکو بڑھ چڑھ کر شامل کریں تو وہ دن دور نہیں جب بی جے پی کو بھی مذکورہ طبقات کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔ سروے کے مطابق ملک بھر میں مسلم اقلیت کی رائے دہی مجموعی طور پر 30 تا 35 فیصد درج کی گئی۔ اتر پردیش، بہار، راجستھان، گجرات ، مدھیہ پردیش، کرناٹک اور تلنگانہ میں مسلم اقلیت کی رائے دہی 40 تا 45 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ قومی اور ریاستوں کی سطح پر ووٹنگ تناسب میں فرق کی بنیادی وجہ مسلمانوں میں ووٹ کے استعمال کے بارے میں شعور کی کمی ہے۔ مسلم سیاسی پارٹیوں کے علاوہ مذہبی اور سماجی تنظیموں نے ووٹ کی اہمیت سے واقف کرانے کیلئے مستقل طور پر کوئی مہم نہیں چلائی۔ جب کبھی انتخابات آتے ہیں تو وقتی طور پر مسلمانوں کو باشعور بنانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن لمحہ آخر کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔ مسلمانوں کا عام طور پر یہ احساس ہے کہ ووٹ کے استعمال سے ان کے حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ ووٹ چاہے کسی پارٹی کو دیں مسلمانوں کی پسماندگی کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ سیاسی پارٹیوں سے مایوسی کے جذبہ نے مسلمانوں کو اہم جمہوری عمل سے دور کردیا ہے۔ جب کبھی ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کے مظالم میں اضافہ ہوتا ہے تو مسلمان الیکشن کا انتظار کرنے لگتے ہیں تاکہ فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دی جائے۔ الیکشن آتے ہی مخالفت کا یہ جذبہ سرد پڑ جاتا ہے اور ہمیشہ کی طرح 30 تا 35 فیصد رائے دہی تک مسلمان محدود ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف اکثریتی طبقہ میں اعلیٰ ذاتوں میں ووٹ کے استعمال کے بارے میں غیر معمولی شعور پایا جاتا ہے۔ قومی اور ریاستوں کی سطح پر زیادہ تر اعلیٰ طبقات حکمرانی میں دکھائی دیتے ہیں اور یہ طبقات حکمرانی کا اپنا حق کھونا نہیں چاہتے لہذا اعلیٰ طبقات کی رائے دہی 60 تا 70 فیصد درج کی گئی ہے۔ ناخواندگی اور سماجی و معاشی پسماندگی کے احساس نے کمزور طبقات اور اقلیتوں کو ہمیشہ محکوموں کے زمرہ میں رکھ دیا ہے۔ مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ووٹ کا استعمال حقیقی معنوں میں بادشاہ گر کا موقف عطا کرسکتا ہے۔ اب جبکہ تلنگانہ میں 17 لوک سبھا حلقہ جات کیلئے 13 مئی کو رائے دہی ہوگی مسلمانوں کی رائے دہی پر اہم سیاسی پارٹیوں کی نظریں ہیں۔ کانگریس اور بی آر ایس مسلمانوں کی تائید سے کم از کم 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ بی جے پی مسلم قابل لحاظ آبادی والے حلقہ جات میں مسلم ووٹنگ فیصد میں کمی کی سازش کررہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق گذشتہ اسمبلی انتخابات میں شہری علاقوں میں مسلمانوں کی رائے دہی 35 فیصد درج کی گئی جبکہ دیہی علاقوں میں مسلمانوں کی رائے دہی کا تناسب 30 فیصد تک بھی نہیں پہنچ سکا۔ سوائے امیدواروں اور پارٹیوں کے کسی کو مسلمانوں کے ووٹ کی فکر نہیں ہے۔ ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی اور مظالم کی شکایت تو کی جاتی ہے لیکن ہمیں یہ احساس نہیں ہے کہ اگر ہم رائے دہی کے جمہوری عمل میں سرگرمی سے شامل ہوجائیں تو ملک بھر میں سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کی طاقت کا اندازہ ہوگا اور مظالم اور ناانصافی ازخود ختم ہوجائے گی۔ تلنگانہ کے حالیہ اسمبلی چناؤ میں مسلم آبادی والے 8 حلقہ جات میں سیکولر پارٹیوں میں ووٹ کی تقسیم کا بی جے پی کو راست فائدہ ہوا۔ بی جے پی نے جن اسمبلی حلقہ جات میں کامیابی حاصل کی ان میں بیشتر حلقہ جات میں اگر مسلمانوں کے ووٹ متحدہ طور پر استعمال کئے جاتے تو بی جے پی کو کامیابی سے روکا جاسکتا تھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ تلنگانہ میں جس وقت 10 اضلاع تھے اسوقت مسلمان ووٹ کے اعتبار سے بادشاہ گر کے موقف میں تھے۔ 10 اضلاع کی تقسیم اور 33 اضلاع کی تشکیل کے نتیجہ میں مسلمانوں کی طاقت منقسم ہوچکی ہے۔ اضلاع کی تقسیم کا عمل اگرچہ نظم و نسق میں آسانی پیدا کرنے کے نام پر کیا گیا لیکن حقیقت میں اس سے مسلم رائے دہندوں کو نقصان ہوا ہے۔ تلنگانہ میں مجموعی طور پر مسلمانوں کی آبادی 13 فیصد ہے اور 47 اسمبلی حلقہ جات میں قابل لحاظ موقف رکھتے ہیں۔ (سلسلہ صفحہ 2 پر)
لوک کے 17 میں 8 حلقہ جات میں مسلمان متحدہ رائے دہی کے ذریعہ کسی ایک امیدوار کو کامیاب بناسکتے ہیں۔33 اضلاع میں 10 اضلاع ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 10 فیصد سے زائد ہے۔ 6 اضلاع ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 5 فیصد سے کم ہے۔ دیگر اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی پانچ تا دس فیصد کے درمیان ہے۔ آبادی کے اعتبار سے حیدرآباد 43.45 فیصد کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ نظام آباد 18.52 فیصد کے ساتھ دوسرے اور سنگاریڈی 16.15 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ 33 اضلاع میں مسلم آبادی کے تناسب کا جائزہ لیں تو لوک سبھا انتخابات میں مسلم رائے دہی میں اضافہ ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔ تلنگانہ میں بی جے پی اور دیگر فرقہ پرست طاقتیں جس طرح اپنے قدم جمانے کی کوشش کررہی ہیں ایسے میں اگر مسلمانوں کی رائے دہی کم از کم 60 فیصد تک پہنچتی ہے تو سیکولر پارٹیوں کی کامیابی میں مدد ملے گی۔ شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں مسلمانوں کو ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کرنے کیلئے باقاعدہ منظم مہم کی ضرورت ہے جس میں سیاسی، مذہبی اور سماجی جماعتوں اور تنظیموں کو حصہ لینا چاہیئے۔ اگر جاریہ لوک سبھا الیکشن میں رائے دہی کے معاملہ میں کوتاہی کی گئی تو پھر آئندہ کئی برسوں تک پچھتانا پڑسکتا ہے۔1