مائیگرنٹ ورکرس ‘ حکومت و عدالت

   

برہم ہوں بجلیاں کہ ہوائیں خلاف ہوں
کچھ بھی اہتمامِ گلستاں کریں گے ہم
مائیگرنٹ ورکرس ‘ حکومت و عدالت
مائیگرنٹ ورکرس کا مسئلہ کورونا وائرس لاک ڈاون کے دوران انتہائی سنگین نوعیت اختیار کرچکا ہے ۔ ابتداء میںاس مسئلہ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی اور صرف لاک ڈاون کرتے ہوئے عوام کو گھروں میں رہنے کی ہدایت دینے پر اکتفاء کیا گیا ۔ کچھ رقم غریب عوام میں تقسیم کرنے کا بھی اعلان ہوا تاہم حقیقی معنوں میں کتنے کھاتوں میں کتنی رقم جمع کی گئی اس کا کوئی حساب کتاب پیش نہیں کیا گیا ۔ اسی طرح بعد میں جو 20 لاکھ کروڑ روپئے کے پیاکیج کا اعلان کیا گیا اس کی بھی کسی طرح کی تفصیلات نہیں پیش کی گئیں۔ حکومت نے دو مرتبہ ریلیف پیاکیج کا اعلان کیا لیکن ان دونوں میں سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ مائیگرنٹ ورکرس کو ہی یکسر نظر انداز کردیا گیا ۔ دھیرے دھیرے یہ مسئلہ انتہائی شدت کے ساتھ ابھر کر آگیا ہے اور کم از کم مائیگرنٹ ورکرس کے مسئلہ میں ایسا لگنے لگا ہے کہ ملک میں حکومت صرف نام کی رہ گئی ہے اور عملا وہ کوئی ایسا کام نہیں کر رہی ہے جس سے مائیگرنٹ ورکرس کو راحت مل سکے ۔ آخر میں ملک کی عدالتوں کو اس مسئلہ میں مداخلت کرنی پڑ رہی ہے ۔ مختلف گوشوں کی جانب سے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے گئے ہیں اور عدالتیں اب حکومتوں کو ہدایت دینے لگی ہیں کہ مائیگرنٹ ورکرس کا پورا خیال رکھا جائے ۔ انہیں مفت اپنے آبائی شہروں تک پہونچایا جائے ۔ ان کے کھانے پینے اور روانگی تک قیام کے انتظامات کئے جائیں۔ تلنگانہ ہائیکورٹ کی جانب سے بھی ایسی ہدایت دی گئی تھی اور اب سپریم کورٹ نے اسی طرح کی ہدایت دی ہے اور کہا کہ جس ریاست سے یہ مزدور روانہ ہو رہے ہیں اسٹیشن پر وہاں کی حکومت کی جانب سے کھانا اور پانی فراہم کیا جائے اور راستے میں ریلویز ( مرکزی حکومت ) کی جانب سے اس کے انتظامات کئے جائیں۔ عدالتوں کی ہدایت کے باوجود ابھی تک حکومتوں کی جانبسے مائیگرنٹ ورکرس کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات ہوتے دکھائے نہیں دئے ۔ ابتداء میں کچھ اقدامات ہوئے ضرور لیکن ان کو جاری اور برقرار نہیں رکھا گیا ۔ یہی وجہ رہی کہ آج سپریم کورٹ کو بھی اس معاملے میں ہدایات جاری کرنی پڑی ہیں۔
کئی واقعات ایسے سامنے آئے ہیں جن میں مائیگرنٹ ورکرس کی مشکلات نے عام انسانوں کو بھی مضمحل کردیا ہے ۔ عوام نے مائیگرنٹ ورکرس کی تکالیف خود محسوس کی ہیں اور راستوں میں ممکنہ حد تک ان کو راحت پہونچانے کے اقدامات کئے ہیں لیکن حکومتیں اپنے طور پر کوئی ٹھوس اقدام کرتی نظر نہیں آئی ہیں۔ مائیگرنٹس کو کئی موقعوں پر سڑکوں پر اتر کر احتجاج بھی کرنا پڑا لیکن حکومتیں ٹس سے مس نہیںہوئیں۔ حکومتیں صرف اپنی آمدنی اور خرچ کے حساب کتاب دیکھنے اور کئی طرح کی کٹوتیاں کرنے میں مصروف دکھائی دیتی ہیں لیکن جن مزدوروں نے ملک کی تعمیر میں انتہائی اہم رول ادا کیا ہے ان کیلئے کسی بھی جامع اور ٹھوس اقدامات نہیں کئے ہیں۔ ملک کی کئی ریاستوں میں ان مزدوروں کے پیدل نکل پڑنے کی اطلاعات میڈیا میں واضح طور پر آئی ہیں۔ اسی طرح سائیکل پر ‘ ٹھیلہ بنڈی پر اور رکشا پر سینکڑوں کیلومیٹر کا سفر کرنے کی اطلاعات ہیں۔ ان ہی سڑکوں پر بعض خواتین کی زچگی ہوئی ہے تو کچھ کی موت بھی واقع ہوگئی ہے ۔ یہ سارا کچھ اسی وجہ سے ہو رہا ہے کیونکہ حکومت نے اس مسئلہ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اور نہ ہی اس کی یکسوئی کیلئے کوئی ٹھوس اور جامع پروگرام ترتیب دیا تھا ۔ جس طرح ملک کے عوام کو عام حالات میں مہنگائی کی مار کھانے کیلئے چھوڑ دیا گیا تھا اسی طرح مائیگرنٹ ورکرس کو بھی حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ۔ نہ ان کے کھانے پانی کا انتظام کیا گیا اور ان کے سفر کیلئے کسی طرح کے موثر اقدامات کئے گئے ۔
اب جبکہ ملک کی عدالت عظمی نے بھی حکومتوں کو اس سلسلہ میں واضح ہدایات جاری کی ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ مائیگرنٹ ورکرس کے مسئلہ کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے ۔ ان کیلئے موثر حکمت عملی تیار کی جائے ۔ ملک کی مختلف ریاستوں سے ان کے آبائی مقامات تک روانگی کیلئے ایکشن پلان تیار کیا جائے ۔ انہیں مفت سفر کی سہولت فراہم کی جائے ۔ انہیں کھانے اور پانی کی سہولت دی جائے ۔ اب بھی حکومت اگر اپنی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے کمر کس لیتی ہے تو لاکھوں مائیگرنٹ ورکرس کو راحت مل سکتی ہے ۔ ان کا سفر پرسکون ہوسکتا ہے ۔ ان کے کھانے اور پانی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔ حکومت کو خواب غفلت سے جاگ کر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔