مائیگرینٹ ورکرس کے نقل مکانی کی تازہ لہر ، ہزاروں مرد و خواتین بچے سڑکوں پر

,

   

ہزاروں افراد دہلی سے اترپردیش کی سرحد میں داخلے کے منتظر ، دیگر کئی ریاستوں کے مزدور میلوں پیدل چلنے کیلئے مجبور

نئی دہلی؍ غازی آباد ۔ 16 مئی (سیاست ڈاٹ کام) دنیا بھر کو تیزی سے زد میں لینے والی خوفناک وبا کو مزید پھیلنے سے روکنے کیلئے ملک میں گزشتہ تقریباً تین ماہ سے جاری لاک ڈاؤن کے سبب تمام شہریوں بالخصوص مائیگرینٹ ورکرس کا بہت برا حال ہوا ہے جو بے یارو مددگار حالت میں دوسری ریاستوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور اب اپنے متعلقہ گاؤں جانے کیلئے بڑی سے بڑی مشکل کی پرواہ کئے بغیر پیدل سفر پر نکل پڑے ہیں۔ مائیگرینٹ ورکرس کی اپنی متعلقہ ریاستوں کو واپس کی تازہ لہر پھوٹ پڑی ہے۔ ان میں نہ صرف نوجوان مرد مزدور و محنت کش شامل ہیں بلکہ کئی خواتین اور کمسن بچے بھی اور بزرگ مرد و خواتین بھی پوری محنت سے دشوار گذار منازل طئے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ دہلی کے آنند وہار بس ٹرمینل کے قریب ایک میٹرو پلر کے دامن میں بڑا دلخراش منظر دیکھا گیا جہاں تھکی ماندی عمر رسیدہ رما دیوی اپنے دیڑھ سالہ پوتے کو کچھ کھلا رہی تھی اور ایک دوسرے پوتے پر نظر بھی رکھی ہوئی تھی۔ وہ دراصل اپنے بیٹے اور سات ماہ کی حاملہ بہو کے آنے کا انتظار کررہی تھی۔ دہلی پولیس کے ایک کانسٹیبل نے رما دیوی اور کئی دوسروں کو وہاں سے واپس چلا دیا تھا جو سڑک عبور کرتے ہوئے اترپردیش جانے کیلئے دہلی سرحد عبور کرتے ہوئے یوپی کے سڑک راستہ پر پہونچنا چاہتے تھے۔ رما دیوی کو اگرچہ ایک پٹرول پمپ کے قریب سے واپس چلا دیا گیا جس کے باوجود وہ اس مقام سے زیادہ دُور نہیں تھی جہاں پہلے اپنے بیٹے اور بہو کا انتظار کررہی تھی۔

رما دیوی نے کہا کہ مارچ میں لاک ڈاؤن کے بعد سے اس کا بیٹا کام پر نہیں ہے۔ حاملہ بہو جو گھریلو خادمہ کے طور پر کام کرتی تھی، وہ بھی مارچ سے کام پر نہیں ہے۔ رما دیوی کی طرح دیگر سینکڑوں خاندانوں کے افراد بھی ان ہی حالات سے گذر رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے پہلے مرحلے میں ہزاروں خاندان تکالیف کے باوجود اس اُمید کے ساتھ دیگر ریاستوں میں بدستور مقیم رہے کہ شاید چند دن بعد لاک ڈاؤن ہوجائے، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ تاحال متواتر چار مرتبہ توسیع ہوچکی ہے۔ دو ماہ کی صبر کے بعد کئی مائیگرینٹ ورکرس اور ان کے خاندانوں کا برا حال ہوگیا۔ معمولی بچتوں سے جمع پیسے بھی گذر بسر پر صرف ہوچکے تھے حتی کہ ٹرین ٹکٹ خریدنے کی گنجائش بھی باقی نہ رہی چنانچہ ملک کی مختلف ریاستوں سے ہزاروں مرد و خواتین اور بچے پیدل نکل پڑے۔ لاک ڈاؤن کے پہلے مرحلے میں بھی مہاجر مزدوروں کی نقل مکانی کا مسئلہ چل پڑا تھا۔ اس دردناک سفر کے آغاز سے پہلے ہی یا پھر درمیان میں چند مائیگرینٹ ورکرس کی حادثاتی اور طبعی اموات کی اطلاعات بھی عام ہورہی ہیں اور چند ایسے بھی مزدور و محنت کش تھے جو میلوں پیدل سفر کرتے ہوئے اپنے گھر پہنچ تو گئے لیکن وہاں بھی چین سے زندگی گزار نہ سکے اور کچھ ہی دن بعد وہ فوت ہوگئے۔