مانسون وباؤں سے چوکسی ضروری

   

کیا ہوا ہم کو اگر دو چار موجیں چھو گئیں
ہم نے بدلا ہے نہ جانے کتنے طوفانوں کا رُخ
مانسون وباؤں سے چوکسی ضروری
ملک میں مانسون کی آمد ہوچکی ہے ۔ جنوب مغربی مانسون ساحل کیرالا سے ٹکرا چکا ہے اور کچھ شہروں میں ہلکی بارش کا بھی آغاز ہوچکا ہے ۔ مانسون کی آمد اکثر و بیشتر موسمی وباوں اور امراض کے ساتھ ہوتی ہے ۔ بارش کے ابتدائی ایام میں عوام کی صحت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عام نوعیت کی سمجھی جانے والی بخار ‘ سردی ‘ کھانسی جیسی بیماریاں عام ہوجاتی ہیں۔ سرکاری و خانگی دواخانے مریضوں سے بھر جاتے ہیں اور ڈاکٹرس کی مصروفیات کے علاوہ سرکاری کام کاج میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اب جبکہ سارے ملک میں کورونا کی تباہ کاریوں کا سلسلہ چل رہا ہے اور ہزاروں افراد روزآنہ اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں اور اب تک کئی لوگ اس وباء کی وجہ سے اپنی زندگیاں ہار بیٹھے ہیں ایسے میں مانسون سیزن کی وبائی بیماریوں سے نمٹنے کیلئے قبل از وقت تیاریوں کی اشد ضرورت ہے ۔ ہماری ریاست تلنگانہ ہو کہ سارا ملک ہندوستان ہو بارش کے موسم میں وبائی امراض عام ہیں۔ سارا ملک ہی کورونا متاثر ہے ۔ کسی ریاست میں کم تو کسی میں زیادہ کورونا مریض پائے جاتے ہیں۔ جو عام تاثرہ ے اور ماہرین طب کی رائے اب تک سامنے آئی ہے اس کے مطابق کورونا میں بھی سردی ‘ کھانسی ‘ بخار جیسی علامات دکھائی دیتی ہیں اور یہی بیماریاں مانسون سیزن میں بھی عام ہوتی ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے انسان کا مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے ایسے میں اگر وبائی بیماریوں کا حملہ ہو تو اس سے متاثر ہونے کے اندیشے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ بیماریاں اگر طوالت اختیار کرجائیں تو پھر ان کے نتیجہ میں کورونا کے مزید پھیلنے کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ اس صورتحال میں جو عوام پہلے ہی کورونا کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں یا پھر جن میں معمولی سی علامات بھی پائی جاتی ہوں وہ اس سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔ دس سال سے کم عمر کے بچے اور 60 سال سے زیادہ عمر کے معمر افراد کو کورونا کی وجہ سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے اور یہی وہ طبقہ ہے جو موسمی بیماریوں سے بھی متاثر ہونے کے اندیشے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان کے تعلق سے بھی زیادہ چوکسی اور احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ۔
حکومت کو بھی موسمی وباوں کے پھوٹ پڑنے سے قبل ہی احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ خاص طور سے بارش کے موسم میں کچرے اور گندگی کا پھیلاو زیادہ ہوتا ہے اور صفائی کا دھیان نہیں رکھا جاسکتا ۔ حکومت کو اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح کورونا سے بچاو کے اقدامات میں صفائی پر توجہ دی گئی تھی اسی طرح بارش کے باضابطہ اور مسلسل آغاز سے قبل صفائی کی مہم چلائی جانی چاہئے ۔ پانی جمع ہونے کے مقامات کی نشاندہی کرکے وہاں مسئلہ کی یکسوئی کی جانی چاہئے ۔ نشیبی علاقوں کے عوام کو راحت دینے کیلئے اور وہاں پانی جمع ہوکر امراض پھیلنے سے روکنے کیلئے ایک جامع ایکشن پلان تیار کرتے ہوئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ سرکاری دواخانوں میں بطور خاص ایسے اقدامات ہونے چاہئیں جن کے نتیجہ میں نہ موسمی بیماریوں کی وجہ سے کورونا کے مریضوں کو کوئی مسئلہ ہونے پائے اور نہ کورونا کی وجہ سے موسمی بیماریوں کا شکار افراد کو مشکلات ہونے پائیں۔ سرکاری دواخانوں میں موسمی امراض سے نمٹنے کیلئے ادویات کا وافر ذخیرہ اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ یہاں مریضوں سے ایک دوسرے کو متاثر ہونے سے بچانے پر بھی خاص توجہ دی جانی چاہئے ۔ اعلی حکام اور عہدیداروں کو ساری صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک جامع منصوبہ تیار کرنے کیلئے آگے آنا چاہئے ۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ خانگی دواخانوں کو بھی حکومت کی اجازت نہیں ملی ہے اور کئی کلینکس وغیرہ ہنوز بند رکھے گئے ہیں ایسے میںعوام کو موسمی بیماریوں سے بچانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور جو سرکاری دواخانے ہیں انہیں خانگی دواخانوں کا متبادل بنانے کیلئے بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔ کورونا کی وباء کے دوران اگر موسمی امراض اور بیماریوں کا پٹارہ کھل جاتا ہے تو صورتحال حکومت اور عوام دونوں کیلئے سنگین ہوسکتی ہے اور متاثرین کے مسائل کا تو کوئی شمار بھی نہیں کیا جاسکے گا ۔ ابھی جبکہ بارش کے موسم کی بالکل شروعات ہے سرکاری مشنری کو متحرک کرتے ہوئے تمام امکانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت کو ایکشن پلان تیار کرکے اس پر عمل آوری کے احکام جاری کرنے میں تاخیر نہیں کرنا چاہئے ۔