مایاوتی بھی بی جے پی کی راہ پر ؟

   

زمانے کو زیر و زبر کر نہ ڈالے
تمہاری سیاست کی ٹیڑھی ادائیں
بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی ہمیشہ سے ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے تعلق سے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی بی جے پی کے ساتھ اتحاد یا مفاہمت کا کوئی راستہ برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کئی اہم مواقع پر بی جے پی سے اتحاد بھی کیا ہے ۔ اس کے انہیںسیاسی فائدے بھی ہوئے ہیں اور کچھ مواقع پر نقصانات بھی ہوئے ہیں۔ اترپردیش کی جو موجودہ سیاسی صورتحال ہے اس میں بی ایس پی اپنی شناخت کھوتی نظر آ رہی ہے ۔ اس کا سیاسی وجود ہی سمٹتا دکھائی دے رہا ہے ۔ گذشتہ لوک سبھا اور پھر اسمبلی انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی کو عوام نے اپنے ووٹ کے کے ذریعہ مسترد کردیا تھا ۔ مایاوتی اس وقت سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وہ وقفہ وقفہ سے کوئی بیان بازی کرتی ہیں اور پھر خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔ گذشتہ مہینوں میںبی ایس پی کے رکن پارلیمنٹ امروہہ کنور دانش علی کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر انتہائی بہیمانہ ‘ اشتعال انگیز اور مذہبی منافرت والے ریمارکس کئے گئے تھے ۔ کنور دانش علی نے تنہا ان ریمارکس کا سامنا کیا ۔ ایک موقع پر وہ جذبات سے مغلوب بھی ہوگئے تھے ۔ کئی اہم اپوزیشن قائدین نے ان سے اظہار یگانگت بھی کیا تھا ۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے تو کنور دانش علی سے شخصی طور پر ملاقات کرتے ہوئے ان سے اظہار یگانگت کیا تھا اور اظہار ہمدردی کیا تھا ۔ اس موقع پر بھی مایاوتی یا بہوجن سماج پارٹی کی جانب سے وہ کچھ سیاسی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا تھا جس طرح کا رد عمل ظاہر کیا جانا چاہئے تھا ۔ جس طرح سے پارٹی کو جارحانہ تیور کے ساتھ جواب دینے کی ضرورت تھی اور کنور دانش علی کا ساتھ دینا چاہئے تھا ویسا بالکل نہیں کیا گیا بلکہ انتہائی معمولی اور ضابطہ کی تکمیل والا ہی رد عمل ظاہر کیا گیا تھا ۔ اس سب کے دوران مایاوتی کا رول موضوع بحث بنا ہوا تھا ۔ آج مایاوتی نے مخالف پارٹی سرگرمیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے دانش علی کو پارٹی سے معطل کردیا ہے ۔ ان کا یہ فیصلہ ایسا لگتا ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے بی جے پی سے تعلقات استوار کرنے کی سمت پہلا قدم ہے ۔ ایک متاثرہ شخص کو انہوں نے خاطی اور ملزم بنا کر پیش کردیا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اپنی سیاسی سوچ کو بھی ظاہر کردیا ہے ۔
پارلیمنٹ میں ہتک اور تضحیک اور اشتعال انگیز ریمارکس کے بعد کنور دانش علی سے سارے ملک میں ہمدردی کی لہر پیدا ہوئی تھی ۔ نہ صرف مسلم قائدین یا جماعتوں نے بلکہ کئی سکیولر ذہنیت کے حامل دیگر ابنائے وطن نے بھی ان سے اظہار یگانگت کیا تھا ۔ بی جے پی کے بدزبان رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی کی سرزنش کی تھی ۔ ان کے ریمارکس کی مذمت کی گئی تھی ۔ اس کے باوجود مایاوتی کا رویہ اسی وقت سے دانش علی کے خلاف سردمہری والا رہا تھا ۔ یہ تاثر عام ہو رہا تھا کہ وہ رمیش بدھوڑی کے ریمارکس پر زیادہ برہم یا ناراض نہیں ہیں بلکہ وہ دانش علی کو ملنے والی ہمدردی سے بے چینی محسوس کر رہی تھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ خاص طور پر راہول گاندھی کی دانش علی سے ملاقات سے مایاوتی بے چین ہو اٹھی ہیں۔ یہ بے چینی بی جے پی کو بھی ہوئی تھی اسی کا شکار مایاوتی بھی ہوئی ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دانش علی پر مخالف پارٹی سرگرمیوں میںملوث رہنے کا الزام عائد کیا ہے جبکہ ثبوت یا دلیل کے طور پر کسی ایک بھی واقعہ کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے ۔ دانش علی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ہی بی جے پی کی نفرت کی سیاست اور اس کی پالیسیوں کی مخالفت کی ہے ۔ وہ آگے بھی ایسا کرتے رہیں گے اور اگر بی جے پی کی مخالفت کرنا کوئی جرم ہے تو وہ بھی مجرم ہیں اور اس کیلئے وہ کوئی بھی سزا بھگتنے تیار ہیں۔ یہ در اصل دانش علی کو اپوزیشن کی صفوں سے ملنے والے ہمدردی کے جذبہ کا نتیجہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ مایاوتی نے ان کو پارٹی سے معطل کردیا ہے اوراس کارروائی کے ذریعہ وہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی تک پہونچنے کا راستہ صاف کر رہی ہیں۔
مایاوتی کو آئندہ پارلیمانی انتخابات میں اپنی عوامی شبیہہ کو مستحکم بنانا ہے ۔ انہیں عوام کے ووٹ حاصل کرنے ہیں اور جو عام تاثر ہے کہ انہیں اب عوام میں زیادہ مقبولیت ملنے والی نہیں ہے ۔ انڈیا اتحاد میں بھی ان کیلئے شائد کوئی جگہ نہیں رہ گئی تھی کیونکہ اترپردیش سے سب سے مستحکم اپوزیشن جماعت سماجوادی پارٹی اس کا حصہ ہے ۔ ایسے میں مایاوتی کیلئے تنہا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا ۔ وہ اپنی سیاسی شناخت کھونا نہیں چاہتیں۔ اسی لئے انہوں نے دانش علی کو بلی کا بکرا بناتے ہوئے بی جے پی کو ایک پیام دیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ مفاہمت کرنا چاہتی ہیں۔ اس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں اور خود اپنی پارٹی کے ایک ایسے لیڈر کو بھی قربان کرنے تیار ہیں جو خود پارلیمنٹ میں اشتعال انگیزی اور تضحیک کا نشانہ بنا تھا ۔
حکومتوں کی تشکیل میں بی جے پی کی تاخیر
ملک کی تین ریاستوں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کوا سمبلی انتخابات میں کامیابی ملی ہے ۔ بی جے پی نے راجستھان اور چھتیس گڑھ کو کانگریس سے چھینا ہے جبکہ مدھیہ پردیش نے اس نے اپنی حکومت برقرار رکھی ہے ۔ بی جے پی اس ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور ملک کی سب سے زیادہ ریاستوں میں اس کی حکومت ہے ۔ مرکز میں اس کے اقتدار کی دوسری معیاد اب قریب الختم ہے ۔ ایسے میں بی جے پی کیلئے ان تین ریاستوں میں حکومت سازی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ بی جے پی نے انتخابات میں کامیابی کیلئے کئی مرکزی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کو بھی اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کروایا تھا ۔ وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ ایسے میں کئی دعویدار ہیں جو چیف منسٹری کے دعویدار ہیں۔ سابق چیف منسٹرس کو بی جے پی شائد موقع دینا نہیں چاہتی ۔ اس کے سامنے صرف ان ریاستوں کی حکومتیں نہیں ہیں بلکہ وہ آئندہ پارلیمانی انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا چاہتی ہے ۔ ایسے میں اس نے حکومت سازی کیلئے کافی وقت لے لیا ہے ۔ اس کے باوجود وہ کسی فیصلے پر پہونچتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ اسے اپنے فیصلے سے اختلافات پیدا ہونے کے بھی اندیشے لاحق ہیں ۔ وہ صورتحا ل کو بگڑنے سے بچانے کیلئے فیصلے میں تاخیر کر رہی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حد تک امکانی ناراضگی اور اختلافات کو روک پاتی ہے ۔