متوفیوں کے رشتہ داروں نے کہاکہ یوپی پولیس نے ان سے ”جلدسے جلد تدفین“ کا استفسار کیا

,

   

سی اے اے احتجاج کے دوران مظاہرین نے کئی گاڑیوں کو نذر آتش کردیاتھا
اترپردیش۔ چھ سال کی افرین کوشش کررہی ہے کہ چند دن قبل دفن کئے گئے اپنے والد کے چہرے کو یاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ”مجھ سے بتایاگیا ہے کہ وہ واپس نہیں ائیں گے“۔۔

افرین کے والد رشید ان چھ لوگوں میں شامل تھے جو20ڈسمبر کے روز یوپی کے فیروز آباد میں تشدد کے دوران مارے گئے۔ رشید کے گھر والوں نے دعوی کیاہے تھا کہ انہیں 21ڈسمبر کے روزنعش اس شرط پر حوالہ کی گئی ہے کہ سورج طلوع ہونے سے قبل نعش کی تدفین کردی جائے اور ہمیں ایک گھنٹے کے اندر تجہیز اورتکفین کے عمل کو اندرون ایک گھنٹہ پوری کرنے پر زوردیاگیاہے۔ ہم میں سے کوئی اس کی نعش پر غم ظاہر نہ کرسکے“۔

ضلع فیروز آباد میں ہوئی تجہیز وتکفین کی نگرانی پولیس نے کی تاکہ ٹی او ائی سے کئی فیملیوں نے جو بات کی ہے اس کے مطابق اس کو یقینی بنانے کے کلئے ”جلد ی میں نعش کو لپیٹا گیا“ہے۔

نعش حوالے کرنے کے بعد فوری بعد متوفی 22سالہ نوی جان کے والد محمد ایوب نے اپنی بیٹے کی نعش ایک گھنٹہ کے اندر دفن کردی‘ ایک اورواقعہ میں ضلع کی پولیس نے مبینہ طور پر یمن پر پولیس نے دباؤ ڈالا کے اس کے 24سالہ بھائی کی نعش گھر لے جانے کے بجائے راست قبرستان لے کر چلے گے۔ یمن نے کہاکہ ”مجھے بتایاگیا تھا کہ کچھ پولیس والوں کے ساتھ قبرستان کومیں ہی جاؤں گا۔

مگر بعد میں کچھ رشتہ داروں کو بھی وہاں پر آنے کی پولیس نے اجازت دی تھی“۔ تاہم یوپی میں پولیس افیسر نے کہاکہ مزید تشدد کے واقعات رونما ہونے سے روکنے کے لئے پولیس وہاں پر تعینات کردی گئی تھی۔

سنبھل میں بھی اسی طرح کے واقعات تدفین کے دوران پیش ائے تھے۔یوپی بھر میں سی اے اے او راین آرسی کے خلاف احتجاج کے دوران بیس سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔ اور ان تمام کی تدفین پولیس کی نگرانی میں عمل میں ائی۔