مجروح سلطان پوری شخصیت اور شاعری

   

ڈاکٹر امیر علی
مجروح سلطان پوری کا اصل نام اسرار حسن خان ہے۔ مجروح کا آبائی وطن ضلع سلطان پور (یوپی) ہے۔ والد محمد حسین خان بسلسلہ ملازمت قصبہ نظام آباد (ضلع اعظم گڑھ) میں قیام پذیر تھے۔ مجروح وہیں عیدالفطر کے دن جمعہ 13 اگست 1915ء کو پیدا ہوئے۔ مجروح کی ابتدائی تعلیم اعظم گڑھ میں ہوئی۔ انہوں نے دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ طبابت (طب) کی سند بھی حاصل کی۔ اس زمانے میں انہیں شعر و شاعری سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ 1940ء میں انہوں نے پہلی غزل کہی تھی جس کا مطلع یہ تھا:
چشم تر ، لب خشک ، آہ و زاریاں
رنگ پر ہیں ان کی فتنہ کاریاں
یہ غزل انہوں نے سلطان پور کے ادبی مشاعرے میں سنائی تو ہر طرف دھوم مچ گئی اور لوگوں نے بہت پسند کیا اور خوب داد دی۔ دوستوں نے ہمت افزائی کی اور مجبور کیا کہ وہ شعر گوئی کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اس دور میں ہر طرف مشاعروں کی گرم بازاری تھی اور خود سلطان پور میں آئے دن کوئی نہ کوئی مشاعرہ ہر ہفتے منعقد ہوا کرتا تھا۔ مجروح ان مشاعروں میں شریک ہونے لگے اور اپنا کلام سنانے لگے۔ اس طرح ان کی شہرت کا آغاز سلطان پور سے ہوا چنانچہ شاعری کے اس شغف نے انہیں پیشہ طب سے دور کردیا۔ مجروح سلطان پوری نے مشاعرہ لوٹنے والی شاعری سے دور رہے۔ انہوں نے مشاعروں میں اپنے معیاری کلام سے یہ ثابت کیا کہ وہ اپنا شعری مزاج سامعین تک پہنچانا چاہتے تھے اور یہ بھی کہ انہیں تحسین ناشناس سے کوئی سروکار نہ تھا۔ مجروح اپنی غزلوں اور نظموں پر مولانا آسؔ لکھنؤی سے اصلاح لی تھی لیکن ان کی اصلاح کا طریقہ پسند نہ آنے کی وجہ سے یہ سلسلہ دراز نہ ہوا۔ 1941ء کے بعد سے مجروح نے اپنے کلام پر کسی سے اصلاح نہیں لی۔ اپنے ذاتی مطالعہ اور محنت سے شاعری میں بڑا نام کمایا اور اپنے عہد کو متاثر کیا۔ 1941ء میں مجروح کی پہلی ملاقات غزل کے منفرد شاعر اور ادبی مشاعروں کے روح رواں جگر مراد آبادی سے جونپور میں ہوئی۔ پہلی بنی ملاقات میں ہی جگر مراد آبادی، مجروح سلطان پوری کی شخصیت اور شاعری سے بڑے متاثر ہوئے اور مجروح کو مفید مشوروں سے نوازا۔ مجروح نے جگر مرادآبادی سے اپنے کلام پر اصلاح نہیں لی، مگر جگر مرادآبادی کا بڑا احترام کرتے تھے۔ جگر مراد آبادی اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’میاں جیسے انسان بنوگے ویسے ہی شاعر بنوگے‘‘ مجروح کہتے ہیں کہ ان کی یہ بات بالکل صحیح نہ سہی مگر بڑی حد تک درست ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ مجروح نے جگر مرادآبادی کی یہ بات اپنی گرہ میں باندھ لی تھی جو ہمیشہ ان کے پیش نظر رہی۔ 1943ء میں ایک ادبی مشاعرہ منعقد ہوا جس میں ملک کے نامور شعراء اور ادیبوں نے شرکت کی تھیں۔ دوستوں کے اصرار پر مجروح نے بھی مشاعرے میں شرکت کی اور اپنا کلام سنایا۔ مجروح کا کلام بہت پسند کیا گیا اور انہیں خوب داد ملی۔ مجروح کی ملاقات علی گڑھ میں پروفیسر رشید احمد صدیقی سے ہوئی۔ رشید صاحب بھی مجروح کے کلام سے بے حد متاثر ہوئے اور مجروح دو سال تک ان کی صحبت میں رہے۔
1945ء میں بمبئی کے ایک بڑا ادبی مشاعرہ منعقدہ ہوا جس میں ملک کے نامور شعراء ، ادیب اور فنکاروں نے حصہ لیا اور اس میں جگر مراد آبادی کے ساتھ مجروح بھی شریک ہوئے۔ لوگوں نے مجروح کے کلام کو بہت پسند کیا اور اس مشاعرے میں اس دور کے مشہور فلم ڈائریکٹر اے آر کاردار بھی شریک تھے۔ انہوں نے جگر صاحب سے اپنی فلم ’’شاہ جہاں‘‘ کیلئے گیت لکھنے کی فرمائش کی۔ مگر جگر صاحب نے معذرت چاہی اور اس کام کیلئے مجروح کو پیش کردیا۔ جگر صاحب کے اصرار پر ہی مجروح نے یہ کام قبول کیا اور یہی ان کا مستقل ذریعہ معاش بن گیا اور وہ مستقل طور پر بمبئی آگئے رفتہ رفتہ مجروح کا شمار فلمی دنیا کے کامیاب شاعروں اور گیت کاروں میں ہونے لگا۔ اپنی ابتدائی زندگی کے زمانے ہی سے مجروح نے بے شمار کامیاب گیت دیئے جس کی وجہ سے لوگ ان کے نام اور کام سے واقف ہوگئے اور ان کی شہرت ملک کے کونے کونے تک پھیل گئی ۔ فلمی گیتوں میں مجروح نے ادبی معیار کو برقرار رکھا اور اس طرح فلمی نغموں کے معیار کو بھی بلند کیا۔ فلمی گیت کار کی حیثیت سے شاندار خدمات انجام دینے پر انہیں گراں قدر دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور ادبی خدمات کے صلہ میں اقبال سمان سے نوازا گیا۔ فلم شاہ جہاں‘‘ سے لے کر کئی فلموں میں مجروح نے کامیاب گیت دیئے فلم ’’شاہ جہاں‘‘ کا وہ نغمہ جس کو کے ایل سہگل صاحب نے گایا تھا جس کو آج بھی لوگ سنتے اور محظوظ ہوتے ہیں۔ وہ مشہور نغمے کے بول اس طرح ہیں:
غم دیئے مستقل کتنا نازک ہے دل
یہ نہ جانا
ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ
مجروح سلطان پوری نے فلم ’’دوستی‘‘ کے لئے بھی کامیاب گیت دیئے جس کو مشہور گایک محمد رفیع صاحب نے اپنی درد بھری آواز میں گایا تھا جو آج بھی اپنا اثر رکھتے ہیں۔ وہ مشہور گیت کے بول اس طرح ہیں:
(1) راہی منوا دکھ کی چنتا کیوں ستاتی ہے
دکھ تو اپنا ساتھی ہے
(2) چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے
پھر بھی کبھی اب نام کو تیرے
آواز میں نہ دوں گا
فلم ’’انداز‘‘ میں بھی مجروح نے کامیاب گیت دیئے ہیں جو آج بھی اپنا اثر رکھتے ہیں۔
مجروح سلطان پوری کی شادی 1946ء میں ہوئی۔ بیوی، لکھنؤ کے متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا نام فردوس گل ہے۔ مجروح کو ان سے پانچ اولادیں ہوئیں جن میں پہلے تین لڑکیاں ہیں۔ ان کے بعد دو لڑکے ہوئے۔ لڑکیوں کے نام نوگل، نوبہار اور صبا ہیں۔ لڑکوں کے نام ارم اور عندلیب ہیں۔ بمبئی میں مجروح کی ملاقات اس دور کے نوجوان ترقی پسند شعراء، ادیب اور فنکاروں سردار جعفری، کیفی اعظمی، سجاد ظہیر، ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، احسان دانش اور مشہور افسانہ نگار کرشن چندر سے ہوئی۔ سبھی لوگ مجروح کی شخصیت اور شاعری کے مداح تھے۔ مجروؔح کا شمار اردو کے سربرآوردہ غزل گو شعراء میں ہوتا ہے۔ مرزا غالب کے بعد اردو غزل انحطاط کا شکار ہوگئی تھی جس کی وجہ سے حالی نے غزل کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کی اصلاح کی تجاویز پیش کیں۔ جدید نظم کی تحریک نے اس دور میں غزل کو پس منظر میں ڈھکیل دیا تھا۔ مجروؔح اور ان کے معاصرین نے اس صنف سخن کا احیاء کیا اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اسے وقار اور اعتبار بخشا۔ مجروؔح کو اپنے ہم عصروں میں ایک امتیاز حاصل ہے کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کے فنکار اور ایک بلند پایہ شاعر و نغمہ نگار ہیں۔ ان کا انداز بیان بھی سب سے الگ اور سب سے منفرد ہے جس کی وجہ سے جدید غزل گو شعراء میں سر بلند مانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری کے موضوعات، سیاسی، سماجی اور عشقیہ ہیں۔ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں، کیف و سرمتی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ ان سے اشعار حیثیت کے رازداں معلوم ہوتے ہیں۔ انہوں نے بے شمار اشعار تخلیق کئے ہیں جس کا پوری اردو شاعری میں جواب نہیں ہے۔ نمونہ کے طور پر ان کے چند مشہور اشعار ملاحظہ ہوں۔
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لئے
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے
بچا لیا مجھے طوفان کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفینہ مرا ڈبو دیتے
کتنی فسوں طراز ہے صیاد کی نظر
آکر قفس میں بھول گیا بال و پر کو میں
مجروح اب نہیں ہے کہ کسی کا بھی انتظار
اب لے کے کیا کروں گا دعا میں اثر کو میں
یہ ذرا دور پہ منزل، یہ اجالا، یہ سکوں
خواب کو دیکھ ، ابھی خواب کی تعبیر نہ دیکھ
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن، جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
1952ء میں مجروح سلطان پوری کا مجموعہ کلام ’’غزل‘‘ کے نام سے پہلی بار شائع ہوا۔ یہ مجموعہ ان کے دوسرے دور کے آخری حصہ اور تیسرے دور کی یاد گار ہے۔ ڈسمبر 1982ء تک اس کے 6 ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ مجروح سلطان پوری کی تقریباً 55 سالہ شعری زندگی کو سامنے رکھیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کا کلام اختصار کے باوجود اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ غزل جیسی روایتی صنف سخن میں ایک دلکش اور منفرد اسلوب کی بنیاد ڈالی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا سرمایہ شعر بہت مختصر ہے لیکن سارا کلام انتخاب معلوم ہوتا ہے اور اس میں خود ان کے حسن انتخاب کو بھی بڑا دخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں بھرتی کا یا تیسرے درجہ کا کوئی شعر نہیں ملتا۔ ’’مجروح وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے غزل کی صنف کو ترقی پسندانہ نظریہ ادب کے مطابق سیاسی اور سماجی مسائل کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ مجروح نے کئی شاہکار غزلیں دیں۔ ان کی ایک مشہور غزل اس طرح ہے:
جب ہوا عرفاں تو غم آرام جاں بنتا گیا
سوز جاناں دل میں سوز دیگراں بنتا گیا
رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسم چمن
دھیرے دھیرے نغمہ دل بھی فغاں بنتا گیا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل، مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کاروان بنتا گیا
میں تو جب جانوں کہ بھردے ساغر ہر خواص و عام
یوں تو جو آیا وہی پیر مغاں بنتا گیا
جس طرح بھی چل پڑے ہم آبلہ پایانِ شوق
خار سے گل اور گل سے گلستان بنتا گیا
شرح غم تو مختصر ہوتی گئی ، اس کے حضور!
لفظ جو منہ سے نہ نکلا، داستان بنتا گیا
دہر میں مجروؔح کوئی جاوداں مضمون کہاں
میں جیسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا
مجروؔح سلطان پوری کی شاعرانہ عظمت کا راز یہ ہے کہ وہ ایک مشہور اور کامیاب شاعر اور نغمہ نگار ہونے کے علاوہ وہ ایک خوددار اور خدا ترس انسان تھے۔ ہمدردی، مروت، اعلیٰ اخلاق، انسان دوستی اور حب الوطنی ان کے خاص جوہر تھے۔ مجروح ملک میں ’’سبز انقلاب‘‘ کے آرزو مند تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان پھر سے امن و امان کا گہوارہ بنے اور ملک خوب ترقی کرے اور دنیا سے تشدد، ظلم اور بربریت کا خاتمہ ہو اور ہر طرح امن و بھائی چارہ اور انسانیت کا پیغام عام ہو۔
مجروح سلطان پوری ایک شخص اور شاعر کا نام نہیں بلکہ وہ اپنے آپ میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو کے سبھی نقادوں نے مجروح کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد حسن نے بھی مجروح کی شخصیت اور شاعری سے متاثر ہوکر کیا خواب کہا تھا: مجروح کی زبان سے تحریک بول رہی تھی اور بڑے وقار اور شکوہ سے بول رہی تھی۔ مجروح نے اردو زبان و ادب اور شاعری کی بے پناہ خدمات انجام دیں اور شاعری کو ساحری بنادیا۔ مجروؔح کی شخصیت کا کمال یہ ہے کہ وہ ایک عظیم شاعر اور مشہور گیت کار ہونے کے باوجود ہر ایک سے ملتے تھے اور غریبوں سے اکڑتے نہ تھے جہاں بھی موقع ملتا وہ یتیموں، مظلوموں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرتے تھے اور ان کی طبیعت میں غرور، تکبر اور اکڑ نام کو نہ تھی۔ سادگی اور ہمدردی ان کے خاص جوہر تھے۔ یہ تھا شائستہ تہذیبی ورثہ جس کے مجروح تنہا وارث تھے۔ مجروح نے اپنی شاعری سے آدمیت کو انسانیت کا درس دیا ہے۔ نیک دل انسان اور شاعر پیدا نہیں کئے جاتے بلکہ پیدا ہوجاتے ہیں۔ مجروح نے فلمی دنیا سے وابستہ ہوکر بھی اردو زبان و ادب اور شاعری کی گراں بہا خدمات انجام دیں اور اپنی محنت اور لگن سے شائقین کو بے شمار کامیاب گیت دیئے اور اپنی زندگی میں دولت، شہرت اور عزت حاصل کی ہے جو ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ مجروح سلطان پوری کی شہرت جتنی بمبئی میں تھی، اتنی ہی شہرت حیدرآباد میں تھی اور حیدرآباد کے شائقین پر مجروح کی شاعری اور ان کے نغموں کا جادو چل چکا تھا۔ مجروح کے چاہنے والوں کا حلقہ بہت وسیع تھا اور انہوں نے طویل عمر پائی اور آخری دم تک ادب کی بے پناہ خدمت کرتے رہے۔ افسوس کہ موت نے انہیں زیادہ قیام کی مہلت نہ دی اور انہوں نے 24 اور 25 مئی 2000ء کی درمیانی شب بمبئی میں آخری سانس لی اور اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ اردو زبان و ادب اور شاعری کی یہ شمع جو سلطان پور (یوپی) میں روشن ہوئی تھی۔ وہ بمبئی میں ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی۔ اردو زبان و ادب کے مایہ ناز شاعر اور مشہور گیت کار ساحر لدھیانوی کے اشعار مجروح کی شخصیت اور شاعری پر پورے صادق آتے ہیں:
نہ منہ چھپاکے جئے ہم ، نہ سر جھکا کے جئے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے
اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے