مجھے گھر بھی بچانا ہے ، وطن کو بھی بچانا ہے

   

رشید الدین

بابری مسجد اراضی مقدمہ …. فیصلہ پر ملک کی نظریں
کشمیری پریشان …. مودی کو ووٹ کی فکر
چدمبرم …. انتقامی سیاست کا نشانہ

بابری مسجد اراضی ملکیت مقدمہ کی سماعت سپریم کورٹ میں مکمل ہوگئی۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میں پانچ رکنی بینچ نے 40 دن کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کردیا۔ چیف جسٹس کی 17 نومبر کو وظیفہ پر سبکدوشی سے قبل فیصلہ سنادیا جائے گا۔ سماعت کے آخری مرحلے تک فریقین نے اپنی دعویداری کے حق میں دلائل اور ثبوتوں کو پوری شدت کے ساتھ پیش کیا۔ مسئلہ کی حساسیت کے اعتبار سے سپریم کورٹ کے کورٹ ہال میں گرماگرم ماحول دیکھا گیا۔ 27 سال قبل بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے اراضی کی ملکیت پر تنازعہ جاری ہے۔ 2010ء میں الہ آباد ہائیکورٹ نے 2.77 ایکر اراضی تین فریقوں میں تقسیم کرنے کے احکامات جاری کئے تھے جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ عدلیہ اور اس کے باہر تنازعہ کے قابل قبول حل کی امید کی جارہی تھی۔ آخر 27 سال بعد سپریم کورٹ نے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی پہل کی ہے۔ سماعت کی تکمیل اور فیصلہ محفوظ ہوتے ہی نہ صرف فریقین بلکہ عوام کے دل کی دھڑکن تیز ہوچکی ہیں۔ مختلف گوشوں سے امکانات فیصلے کے بارے میں متضاد دعوے کئے جارہے ہیں۔ قانون کے جانکاروں اور سیاست مبصرین میں اس بات کو لے کر بحث جاری ہے کہ آیا ثبوت اور دلیلوں کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا یا پھر آستھا کی بنیاد پر۔ ہم عدلیہ کی کارروائی پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ ملک میں عدلیہ کی آزادی اور غیرجانبداری مسلمہ ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی سیاست دانوں نے مقننہ اور عدلیہ کے بیجا استعمال کے ذریعہ دستور اور قانون کو پامال کرنے کی کوشش کی تو عدلیہ نے دستور اور قانون کی پاسداری کی۔ سپریم کورٹ میں 40 روزہ سماعت کے دوران کئی ڈرامائی تبدیلیاں دیکھی گئی۔ سنی وقف بورڈ کی جانب سے اراضی پر دعویداری سے دستبرداری کی خبریں گشت کرنے لگیں ، بعد میں وقف بورڈ نے تردید کردی۔ سماعت کے دوران عدالت کے باہر تصفیہ کے لئے سہ رکنی مصالحتی پیانل تشکیل دیا گیا تھا جس نے فریقین اور دونوں طرف کے مذہبی قائدین سے ملاقات کے بعد مصالحت میں ناکامی کی رپورٹ پیش کردی، لیکن سماعت کے آخری مرحلے میں مصالحتی پیانل کو پھر سرگرم کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ مصالحتی فارمولہ کے ساتھ پیانل نے تازہ رپورٹ سپریم کورٹ کے حوالے کی ہے۔ جب پہلی مرتبہ مصالحت ممکن نہ ہوسکی تو دوسری مرتبہ فریقین کے موقف میں نرمی کس طرح اور کیونکر آگئی ہے؟ اگرچہ اس بارے میں مختلف باتیں کہی جارہی ہیں لیکن عدلیہ کے وقار اور اس کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے فیصلہ کسی ایک کے حق میں آئے گا لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ فیصلہ کے اثر سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر نہ ہونے پائے۔ دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت مذہبی آزادی، رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے سبب ہے۔ فیصلہ کے بعد بھی ان روایات کو کسی کی نظر نہ لگے۔ ڈسمبر1992ء کے سانحہ کے بعد ایک نئی نسل تیار ہوچکی ہے۔ فرقہ واریت اور نفرت کے زہر سے نئی نسل کا مستقبل تاریک نہ ہونے پائے۔ مسجد کی شہادت کے بعد فسادات اور ہلاکتوں کی سیاہ داستان ہے۔ مسجد کی شہادت کے ذمہ داروں کو آج تک سزا نہیں ملی۔ ان تمام کے باوجود ہر کسی کی ذمہ داری ہے کہ فیصلہ کا اثر نئی نسل کے مستقبل پر نہ پڑے۔ فیصلہ سے قبل بی جے پی اور سنگھ پریوار کے بعض عناصر نے اشتعال انگیز بیان بازی کے ذریعہ ماحول کو آلودہ کردیا ہے اور حکومت ان پر قابو پانے میں ناکام رہی۔ عوام کو چاہئے کہ وہ مٹھی بھر شرپسندوں کے آلہ کار نہ بنیں۔ فیصلہ کے بعد جیتنے والے فریق کا امتحان رہے گا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں فاتح نے کشادہ دِلی اور ایثار و قربانی کے ذریعہ عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دونوں طرف سے اخوت اور بھائی چارہ کا مظاہرہ ہونا چاہئے تاکہ ملک کی روایات داغ دار نہ ہوں۔

دوسری طرف جموں و کشمیر میں مسلسل 75 دن تک تحدیدات اور عوام کو محروس رکھنے کے بعد حکومت نے دفعہ 370 کی تنسیخ کے فیصلے پر عمل آوری کا آغاز کردیا ہے۔ قانون ساز کونسل تحلیل کردی گئی جس طرح کشمیریوں کی رائے حاصل کئے بغیر خصوصی موقف کو ختم کردیا گیا اسی طرح بندوق کی نوک پر حکومت کے فیصلے مسلط کئے جارہے ہیں۔ 31 اکتوبر کی نصف شب سے ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کا وجود باقی نہیں رہے گا۔ جموں و کشمیر اور لداخ کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ 5 اگست کو خصوصی موقف کی برخاستگی کا فیصلہ کیا گیا لیکن احکامات پر عمل آوری کے لئے تقریباً تین ماہ بعد کی تاریخ کا تعین اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کو عوامی ناراضگی کا اندازہ تھا۔ دراصل 370 تو ایک بہانہ ہے جبکہ مسلم اکثریتی ریاست اصل نشانہ ہے جو سنگھ پریوار کی آنکھوں میں کھٹک رہی تھی۔ 370 کی برخاستگی کو کشمیر کی ترقی اور کشمیریوں کی خوشحالی کے قدم کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو 5 اگست کے فیصلے کے بعد مودی اور امیت شاہ نے کشمیر کا دورہ کیوں نہیں کیا؟ اگر کشمیری عوام اس فیصلہ سے خوش ہیں تو پھر تحدیدات ختم کیوں نہیں کی جاتیں۔ کشمیر کے سیاسی اور عوامی قائدین کب تک نظربند رہیں گے؟ عوام اور قیادت کو آزادی سے محروم کرتے ہوئے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ حکومت عوام اور قائدین کی مرضی کے بغیر فیصلہ مسلط کررہی ہے۔ مودی اور امیت شاہ کا دعویٰ ہے کہ کشمیر کے عوام 370 کی برخاستگی کے فیصلہ سے خوش ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو پھر 31 اکتوبر کی آدھی رات سے ریاست کی تقسیم کی خوشی میں مودی اور امیت شاہ کو شرکت کیلئے کشمیر جانا چاہئے۔ جب عوام خوش ہیں تو پھر آپ ان کے ساتھ خوشی میں شامل کیوں نہیں ہوتے۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کشمیر جائیں تو انہیں پتہ چلے گا کہ عوام کی کیا رائے ہے۔ مودی حکومت 370 کی برخاستگی کو کارنامہ کے طور پر پیش کررہی ہے جبکہ سرینگر کی اہم مساجد میں 5 اگست کے بعد سے آج تک نماز جمعہ کی اجازت نہیں دی گئی۔ سماجی جہد کاروں نے کشمیر کے دورہ کے بعد بتایا کہ عوام حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے بجائے خاموشی کے ذریعہ اپنی ناراضگی ظاہر کررہے ہیں۔ صبح کے اوقات میں خرید و فروخت کیلئے دکانیں کھلتی ہیں اور پھر چند گھنٹوں میں بازاروں میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ جہد کاروں کے مطابق یہ عوام کا منفرد انداز میں احتجاج اور اظہار ناراضگی ہے۔ حکومت نے ریاست کی تقسیم کی تاریخ طئے کردی لیکن وادی کے سیاسی اور عوامی قائدین ابھی تک محروس ہیں۔ کسی کو حکومت یا عدالت کی اجازت کے بغیر وادی میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔ ملک کو گمراہ کرنے کے لئے حکومت کے ایجنٹوں کے وفود سرینگر روانہ کئے گئے جن میں حال ہی میں نام نہاد صوفیوں کا ایک وفد بھی شامل تھا۔ یہ بکاؤ مال ہمیشہ اقتدار کی راہداریوں میں دکھائی دیتے ہیں تاکہ اپنے مفادات کی تکمیل کرسکے۔ جو پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے، یہ سکہ رائج الوقت کی طرح ان کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں۔ گنبدِ اقتدار کے یہ کبوتر بھلے ہی مودی اور امیت شاہ کی خوشنودی حاصل کرلیں لیکن انہیں مسلمانوں کی تائید کبھی حاصل نہیں ہوگی اور دنیا اور آخرت میں رسوائی ان کا مقدر ہے۔

مہاراشٹر اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں مودی اور امیت شاہ دفعہ 370 کو اہم انتخابی موضوع کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ عوامی مسائل کے بجائے کمیونل ایجنڈہ کو پیش کیا گیا۔ مودی اور امیت شاہ کے نزدیک ہر مرض کی دوا 370 بن چکی ہے۔ ہریانہ اور مہاراشٹر کے عوام کو 370 سے کیا دلچسپی ہوگی لیکن بی جے پی چاہتی ہے کہ 370 کے نام پر رائے دہندوں کو مذہبی بنیادوں پر منقسم کردیا جائے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ہندوتوا کے نظریہ ساز ساورکر کو ’’بھارت رتن‘‘ اعزاز کی سفارش کردی گئی۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں اسے شامل کیا اور مودی و امیت شاہ نے تائید کی۔ جس شخص پر بابائے قوم گاندھی جی کے قتل کی سازش کا مقدمہ چل چکا ہے، اسے بھارت رتن کی سفارش کرنا ملک دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔ جدوجہد آزادی میں ساورکر نے انگریزوں سے معذرت خواہی کرتے ہوئے خطوط لکھے تھے اور وہ انگریزوں کے ایجنٹ بن گئے تھے۔ وہ ہی نہیں ہندوتوا نظریات کے دیگر قائدین بھی جدوجہد آزادی میں انگریزوں کے لئے جاسوسی کرتے رہے، لیکن آج وہی ملک دشمن بی جے پی کی نظر میں محب وطن ہوچکے ہیں اور انہیں گاندھی جی پر فوقیت دی جارہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی اور امیت شاہ ایک طرف ساورکر اور گوڈسے کی حب الوطنی کی ستائش کرتے نہیں تھکتے تو دوسری طرف گاندھی جی کو بھی یکساں طور پر خراج ادا کررہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب ناتھو رام گوڈسے کو ملک کے سیویلین اعزاز سے نوازا جائے گا۔ ملک میں ان دنوں انتقامی سیاست عروج پر ہے ۔ سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کو مختلف فرضی مقدمات میں پھانس کر آخر کار جیل بھیج دیا گیا۔ انہیں ضمانت پر رہا ہونے سے روکنے کیلئے مختلف ایجنسیوں کے ذریعہ نت نئے مقدمات دائر کئے جارہے ہیں۔ دراصل چدمبرم سے بی جے پی خوف زدہ ہے کیونکہ ملک کی معاشی صورتحال پر سابق وزیر فینانس کی حیثیت سے چدمبرم نے حکومت کی خامیوں کو بے نقاب کیا تھا۔ امیت شاہ دراصل گجرات فسادات میں اپنی گرفتاری کا چدمبرم سے بدلہ لے رہے ہیں۔ فسادات کے بعد جب امیت شاہ کے خلاف کارروائی کی گئی تو اس وقت چدمبرم ملک کے وزیر داخلہ تھا۔ اسی انتقامی جذبہ کے تحت آج چدمبرم کو نشانہ بنایا گیا۔منور رانا نے کیا خوب کہا ہے:
مجھے گھر بھی بچانا ہے ، وطن کو بھی بچانا ہے
مرے کاندھے پر ذمہ داریاں دونوں طرف سے ہیں