محبت شرکت گوارا نہیں کرتی !

   

پروفیسر سید عطاء اللہ حسینی قادری الملتانی ؒ

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دستِ قدرت سے جو قلب ملا تھا وہ ’’قلب سلیم‘‘ تھا۔ قلب سلیم وہ ہوتا ہے جو صرف اﷲ کی محبت کے لئے مخصوص ہوتا ہے اس میں غیراﷲ کی محبت کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ محبت کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ محبت سب کچھ گوارا کرسکتی ہے لیکن شرکت اسے کسی صورت منظور نہیں ، وہ رقیب کو کبھی برداشت نہیں کرسکتی ، جب انسانی محبت کا یہ حال ہے تو محبت الٰہی کے کیا کہنے ، وہ کیسے شرکت گوارا کرلے گی ۔ اﷲ تعالیٰ نے اسی لئے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے ۔ فرمایا : شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (لقمان ۳۱:۱۳) اﷲ تعالیٰ ہر گناہ جسے چاہے معاف کردیتا ہے ، لیکن ’شرک‘ ایسا گناہ ہے جو کسی بھی حال میں معاف نہیں کیا جائے گا ۔ اﷲ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات ذاتیہ میں شرکت برداشت نہیں کرتا ، اس نے صاف صاف اعلان فرمادیا ہے :بے شک اﷲ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹہرایا جائے، اس کے سوا جتنے گناہ ہیں ، جس کو چاہتا ہے معاف کردیتا ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام کے قلب سلیم میں بیٹے کی محبت گھسنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا ۔ بس یہی وقت تھا کہ انھیں اپنے پیارے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ملتا ہے ۔
نبی کا خواب بھی وحی کے برابر ہوتا ہے ۔ خواب کے اشارے سے وہ سمجھ گئے کہ اﷲ تعالیٰ کا منشا یہی ہے ۔چنانچہ وہ اپنا خواب بیٹے سے بیان کرکے اس کی رائے معلوم کرتے ہیں، اسمعٰیل علیہ السلام انتہائی سعادت و نجابت کے ساتھ امر الٰہی کے سامنے تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بارگاہِ خداوندی میں اپنی قربانی پیش کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں اور ابراہیم علیہ السلام ان کو لے کر قربان گاہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے ۔ وہ کب گوارا کرسکتا تھا کہ یہ دونوں باپ بیٹے اس آزمائش سے گزرکر زندۂ جاوید ہوجائیں وہ راستے کا پتھر بن گیا۔ حضرت ابراہیمؑ بھلا شیطان کی اس وسوسہ اندازی کو کیا برداشت کرتے ۔ انھوں نے پتھر اُٹھاکر بدبخت کو دے مارا ۔ شیطان نے تین مرتبہ اپنی سی کوشش کرلی ۔ ناکام بھی ہوا اور سنگسار بھی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنگ باری اور شیطان کی سنگساری اتنی معنی خیز تھی کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو مناسک حج میں شامل کرکے بقائے دوام بخش دیا۔ آج حجاج جو رمی جمار کرتے ہیں ، اسی کی یادگار ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ شیطان سے نفرت پیدا ہو، اس سے نفرت کا جذبہ اُبھرے ، شیطان کی نافرمانی اور اس سے بغاوت کا جذبہ پیدا ہو ۔ شیطان کو ناکام و نامراد کرکے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعٰیل ؑ قربان گاہ پہنچتے ہیں۔ اب قربانی کی کیفیت اور ابراہیمؑ اور اسمعٰیل ؑکی فائزالمرامی کو خود قرآن کی زبان سے سنئے : چنانچہ جب دونوں نے حکم الٰہی کے آگے سرجھکادیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرادیا ، ہم نے پکارا : ابراہیمؑ ! تم نے خواب کو حقیقت بناکر دکھادیا ۔ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح اجر دیتے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا اور ہم نے ایک عظیم فدیہ دے کر اس بچے کی جاں بخشی کردی اور بعد آنے والوں میں ہم نے ان کے لئے کلمہ مدح و ثناء اور حرف داد و تحسین چھوڑ دیا کہ وہ ابراہیم کی عظمت کو سلام کریں ۔ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ، یقینا وہ (ابراہیمؑ)ہمارے مومن بندوں میں سے تھے ۔ (سورۃ الصٰفت۳۷: ۱۰۳ تا ۱۱۱)
معزز قارئین ! یہاں چند نکات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ ۱۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کو پیشانی کے بل گرایا ، چت کیوں نہ لٹایا اس کے متعلق بالعموم یہ بات کہی جاتی ہے کہ بیٹے کاچہرہ دیکھ کر مبادا شفقت پدری غالب آجائے اور وہ انھیں ذبح نہ کرسکیں اور تعمیل حکم سے قاصر رہ جائیں۔ پیشانی کے بل گرانے کی یہ توجیہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مزاج سے قطعاً کوئی مناسبت نہیں رکھتی ، اس کی بہتر توجیہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیٹے کو سجدے کی حالت میں ذبح کرنا چاہتے تھے کیوں کہ نبی کی حیثیت سے ان کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ سجدے کی حالت اﷲ تعالیٰ کے قرب کی اعلیٰ ترین حالت ہے ، اس کو قرآن حکیم نے بھی اصولی حیثیت سے بیان کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے : ’’سجدہ کر اور قریب ہوجا ‘‘۔
۲۔ دوسری بات یہ کہ بالعموم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ خواب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک بار ہی دیکھا تھا لیکن آیت کے الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے ۔ یہ خواب انہوں نے ایک سے زائد بار دیکھا تھا ۔
۳۔ تیسری بات یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خواب یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ انھوں نے بیٹے کو ذبح کردیا ہے بلکہ یہ دیکھ رہے تھے کہ وہ ذبح کررہے ہیں یا کرنے چلے ہیں ، اسی لئے انی ذبحتک نہیں کہا بلکہ فرمایا : انی اذبحک ۔ لہذا اسمعٰیل کے گلے پر چھری رکھتے ہی خواب کی تعبیر پورے طورپر عمل ذبح پر منطبق ہوگئی اور خواب سچا ہوگیا کیوں کہ گلے پر چھری رکھتے ہی اﷲ تعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں اسمعٰیلؑ کی محبت ذبح ہوگئی ۔ قربانی کے مطالبہ کا مقصد بھی یہی تھا کہ اسمعٰیل علیہ السلام کی محبت جو اﷲ کی محبت کے ساتھ شریک اور رقیب بننے جارہی تھی ذبح ہوجائے ، چنانچہ یہ محبت گلے پر چھری رکھتے ہی ذبح ہوگئی اور خواب کا مقصود پورا ہوگیا ۔ ۴۔ چوتھی بات یہ کہ بیٹے سے رائے لینے میں ابراہیم علیہ السلام کے دو مقاصد تھے ، ایک یہ کہ ذبح اور قربانی کا عمل بیٹے کے صبر و ثبات اور قوت برداشت کے بغیر انجام دینا مشکل تھا ، دوسرا مقصد یہ بھی کہ جس صالح اولاد کی انھوں نے دعا کی تھی اس کی صالحیت کو بھی آزمانا تھا اور اس طرح حضرت اسمعٰیلؑ کی آزمائش بھی ہوگئی ۔
۵۔ پانچویں بات یہ کہ قربانی کے اس عمل سے حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک سخت آزمائش میں پورے اُترے اور یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش تھی ۔ جب وہ اس سخت ترین آزمائش میں پورے طورپر کامیاب ہوگئے تو وہ عظمت کا مینار بن گئے ۔

جس کی عظمت مسلم ہوچکی اس لیے بعد آنے والوں پر واجب قرار دیدیا گیا کہ ان کی عظمت کو تسلیم کرکے ان کو ہدیہ سلام پیش کریں۔ بلاشبہ حضرت ابراہیم ؑ کو عزت و عظمت کایہ وہ لازوال ایوارڈ ملا ہے جو تاقیامِ قیامت باقی رہے گا ۔
آج دنیا کی تین سب سے بڑی اُمتیں مسلمان اور یہود و نصاریٰ سب ان کو اپنا پیشوا مانتے ہیں اور ان کا انتہائی احترام کرتے ہیں، اس لیے تو فرمایا تھا : میں تمہیں سب لوگوں کا امام بنانے والا ہوں ۔ (۲:۱۲۴)
۶۔ چھٹی بات یہ کہ قرآن کریم کی ان چند آیات میں کذلک نجزی المحسنین کے الفاظ دو مرتبہ آئے ہیں جو انتہائی غور طلب ہیں ، پہلے جس جزاء کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ نیکوکاروں کو معجزانہ طورپر نقصان و ضرر سے بچالیا جاتا ہے ، سطح بیں یہ سمجھتا ہے کہ ان کا سراسر نقصان ہے یا ان کو ضرر پہنچنے والا ہے لیکن اﷲ تعالیٰ وہیں سے کوئی ایسی صورت پیدا فرمادیتا ہے کہ نقصان سے وہ بال بال بچ جاتے ہیں اور ان کا کچھ بھی نہیں بگڑتا ، جس طرح آخری لمحے میں حضرت اسمعٰیل کو چھری کے نیچے سے نکال لیا گیا یا پھر خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھو کہ انھیں نارِ نمرود کو گل و گلزار بناکر نکال لیا گیا۔ کذلک نجزی المحسنین جو دوبارہ ارشاد ہوا ہے تو اس میں جس جزاء کا ذکر ہے ، یہ دوسری نوعیت کی جزاء ہے ، اس کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ نیکوکاروں کو ان کی زندگی کے بعد بھی نیک نامی ، عزت و احترام ، شہرت عام اور بقائے دوام سے سرفراز فرمایا جاتا ہے ، ان کو زندۂ جاوید بنادیا جاتا ہے ، وہ مرکر بھی نہیں مرتے۔ انھیں صدیوں تک نیک نامی کی زندگی ملتی ہے ۔ ہزاروں برس بعد بھی ان کا نام آفتاب و ماہتاب کی طرح روشن و تاباں رہتا ہے ۔ اہل دنیا انھیں لاکھ نیست و نابو کردینا چاہیں ، نہیں کرسکتے ۔