محرم الحرام کا پیغام

   

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اسکی حسینؑ، ابتداء ہے اسمٰعیلؑ
محرم الحرام، چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، یہ وہ مہینہ ہے کہ زمانہ جاہلیت اور سابقہ ادوار میں بھی جس کی حرمت کا پاس و لحاظ رکھا گیا۔ محرم الحرام ہی اسلامی کیلینڈر سال کا پہلا مہینہ ہے۔ محرم الحرام کے ہلال کی رویت سے اسلامی سال ۱۴۴۴؁ ھ کا آغاز ہوگا۔ اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرماکر (۱۴۴۴) سال گزر چکے ہیں۔
ماضی قریب تک اسلامی ہجری سال سے اُمت اسلامیہ کے خواص و مخصوص افراد ہی واقف ہوا کرتے لیکن حالیہ عرصہ میں عوام و خواص کی جانب سے ٹکنالوجی کے عام استعمال نیز فیس بک اور واٹس اپ کے ذریعہ ترسیل پیامات کے عام رجحان کی بناء اسلامی معلومات کی جانکاری میں ایک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ محرم الحرام کے چاند نظر آنے کی خبر کے ساتھ بچوں، جوانوں، خواتین اور ضعیف حضرات کے مابین اسلامی سال نو کے آغاز پر مبارکبادی کے پیامات کی ترسیل کا ایک وسیع سلسلہ دیکھنے میں آیا، خوش آئند بات یہ ہے کہ عامۃ المسلمین میں اسلامی شعور و آگہی عام ہورہی ہے لیکن افسوس کا پہلو یہ ہے کہ حمیت اسلامی اور غیرت ایمانی میں کمی آتی جارہی ہے۔ اسلامی اسپرٹ مفقود ہوتی نظر آرہی ہے۔ غیر قوم کی تقلید و مشابہت کو اسلامی رنگ دے کر عام کیا جارہا ہے اور اسلامی طرز و فکر اور طور و طریق کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اسلامی سال نو کے موقع پر مبارکبادی کا پیام دینا نہ شرعاً ثابت ہے اور نہ ہی ہمارے اسلاف کے عمل سے حتی کہ ماضی قریب تک عوام و خواص میں اس کا کوئی رجحان نہ تھا۔ یہ طریقہ دراصل غیر قوم کی مشابہت اور ان کی تہذیب کی تاثیر اور Influence کا نتیجہ ہے۔ علاوہ ازیں غیر قوم کی تہذیب کے اثرات کا مسلم معاشرہ پر عمومی انداز میں اور دینی رجحان کے ساتھ سرایت کرجانا علماء و مذہبی رہنمائوں کے لئے لمحہ فکر ہونا چاہئے۔
نبی اکرم ﷺکی ولادت، ہجرت اور وفات ربیع الاول کے مہینے میں واقع ہوئی ہیں۔ اسلامی سال کے آغاز کے لئے ولادت نبوی اور وفات نبوی کی بجائے ہجرت نبوی کو معیار بنایا گیا کیوں کہ ولادت نبوی کل کائنات کے لئے رحمت و بشارت ہے اور وصال مبارک اسلام کی تکمیل اور تاقیامت اسلام کی حفاظت و صیانت اور غلبۂ دین کی یقین دہانی اور تسلی ہے۔ ولادت اور ظاہری طور پر وفات یعنی بظاہر آغاز کار اور انجام کار کے درمیان ہجرت نبوی گویا ہر قسم کے ذہنی، معاشی اور معاشرتی دبائو کے باوجود اولوالعزمی، بلند ہمتی، ثبات قدمی، مقاصد و اہداف کے لئے بے خوف و خطر اقدام، مسلسل جدوجہد، موثر حکمت عملی، کامیاب منصوبہ بندی، تادم اخیر تمام تر توانائیاں صرف کرنے کا جوش و جذبہ اور لامتناہی کد و کاوش کا نقطۂ عروج تھی۔ جس کے بغیر انجام کار تک رسائی، اہداف و مقاصد کی تکمیل صرف امید و آرزو ہے جو کہ امت اسلامیہ کے لئے حسرت کا باعث بنی ہوئی ہے۔
روایتوں سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺجس وقت مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ کی تشریف آوری سے اہل مدینہ اس قدر خوش ہوئے کہ سابق میں اس کی نظیر نہ تھی۔ واضح رہے کہ ہجرت کی تکمیل گرچہ ربیع الاول میں ہوئی جو کہ نہایت خوشی کا موقع تھا لیکن اس کو معیار نہیں بنایا گیا اور آغاز ذوالحجۃ الحرام میں حج کے موقع پر عقبہ ثانیہ میں بیعت سے ہوا لیکن حقیقی منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کو قطعیت دینا محرم الحرام میں پایا اس لئے اسلامی سال کے مہینہ کا آغاز محرم الحرام سے مقرر کیا گیا۔
اس مختصر سی تمہید سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام ایک اقدامی مذہب ہے جو پیہم عمل حکمت عملی منصوبہ بندی اور باطل کے بالمقابل پہاڑ کی طرح کھڑے رہنے کا نام ہے۔ جہاں ہر لمحہ و ہر لحظہ مقصدیت کی طرف رواں دواں ہونا اور اس کے لئے کوشاں رہنا ہے۔ اس میں ایک دوسرے کو مبارکبادی دینا کا تصور کہاں؟ جب تک کاز اور مشن کی تکمیل نہ ہو۔ عیسائیوں کے پاس ان کا مذہب خوشخبری ہے اور ان کو اطمینان ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام سب کی خاطر سولی پر چڑھ گئے، ہمارے نزدیک اسلام امانت ہے، ذمہ داری کا احساس ہے، خدا کی خلافت اور رسول کی وراثت ہے اس لئے ہم کو بشارت کی ضمانت کے باوجود راحت و آرام نہیں اس لئے مبارکبادی کا تصور نہیں۔ نیز یکم محرم الحرام کو حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی۔ دس محرم الحرام کو وجہہ تخلیق کون و مکاں، تاجدار انبیاء کے محبوب نواسہ کی اعلاء کلمۃ اللہ اور دین حق کی بقاء کے لئے خاندان نبوت کے ساتھ شہادت ہوئی۔ تاریخ اسلام میں ایسی المناک شہادت کی کوئی نظیر نہیں ملتی جس شہادت کا زخم امت کے سینہ پر تاقیامت رہے گا۔ اس شہادت سے قبل جو فتنے ہوئے تھے وہ امت کے افراد کے درمیان تھے لیکن یزید کا فتنہ مشرق و مغرب میں پھیلی اسلامی سلطنت کے حکمراں کا فتنہ تھا جس کے اثرات کسی مخصوص افراد یا کسی محدود علاقے پر مرتب نہیں ہوتے بلکہ سارا عالم اسلام متاثر ہوتا نیز چونکہ اس وقت صحابہ کرام موجود تھے تو وہ تاقیامت امت کے لئے گمراہی اور ضلالت کا ایسا دروازہ کھلتا جس کو تاقیامت بند کرنا بظاہر مشکل ہوتا۔ اس عظیم فتنہ و فساد کی سرکوبی کے لئے اللہ سبحانہ وتعالی نے خاندانِ نبوت کے چشم و چراغ، حضرت بی بی فاطمہؓ کے لخت جگر حیدر کرار فاتح خیبر کے فرزند دلبند امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب فرمایا۔ کسی اولوالعزم نبی و رسول کو دشمنانِ دین شہیدنہ کرسکے لیکن حضرت امام عالی مقام کی شہادت میں نہاں پیغمبرانہ عزیمت کا جلوہ نظر آتا ہے۔ علاوہ ازیں اسلامی سال کی انتہاء ذوالحجۃ الحرام پر ہوتی ہے اور ذوالحجۃ الحرام درحقیقت حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما الصلوۃ والسلام کی قربانیوں کی یاد گار ہے اور ملت اسلامیہ ملت ابراہیمی ہے۔ ملت ابراہیمی اطمینان و سکون اور امیدو آرزو کا نام نہیں، ملت ابراہیمی خوشی و مسرت میں مبارکبادی کے تبادلہ کا نام نہیں، یہودیت اور نصرانیت کی طرح آخرت سے غفلت اور دنیا میں حصول شادمانی یا کسی بھی مکر و فریب سے حکمرانی کا نام نہیں، بلکہ ملت ابراہیمی رضا الٰہی کیلئے ہر وقت قربانی دینے اور شہادت کے لئے کمربستہ رہنے کا نام ہے۔ حضرت نبی اکرم ﷺ کے جدامجد حضرت اسمٰعیل علیہ الصلوۃ والسلام نے کائنات ارضی و سماوی کے سامنے محبت الٰہی میں شہادت و قربانی کے جس جذبہ و نمونہ کو پیش کیا تھا، اسی جذبہ کی عملی تعبیر میدانِ کربلا میں حضرت امام عالی مقام نے فرمائی۔ گرچہ اسلام میں تین دن سے زیادہ سوگ نہیں لیکن آج بھی ہمارے قلب پر امام عالی مقام کی خاندان نبوت کے ساتھ قربانی کا زخم تازہ ہے اور ہر سال محرم الحرام کی آمد ہمیں نئے سال کی خبر دیتی ہے تو ساتھ میں ہمارے قلب و دماغ کو جھنجھوڑتی ہے اور یزیدی طاقت و قوت ، ظالم حکومت و اقتدار کے خلاف نبردآزما ہونے کی دعوت دیتی ہے۔