مدتوں بعد یوں تبدیل ہوا ہے موسم

,

   

سیمی فائنل 2023 ء … کھیل ختم پیسہ ہضم
فائنل 2024 ء کی نئی صف بندیاں

رشیدالدین
’’کھیل ختم پیسہ ہضم‘‘ ملک کی پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ میں سیمی فائنل 2023 ء کا مرحلہ مکمل ہوگیاہے ۔ پانچ ریاستوں میں ہنگامی سطح پر انتخابی مہم چلائی گئی جس میں کانگریس اور بی جے پی کے تمام سرکردہ قائدین نے حصہ لیا۔ انتخابی مہم کے علاوہ رائے دہندوں کو راغب کرنے کیلئے دولت، شراب اور دیگر انداز میں لالچ دیئے گئے۔ ایک اندازہ کے مطابق ہر ریاست میں مجموعی طور پر 10 ہزار کروڑ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے رائے دہندوں پر خرچ کئے گئے ۔ اس اعتبار سے الیکشن کی تکمیل کے ساتھ ہی ’’کھیل ختم پیسہ ہضم‘‘ کا محاورہ فٹ بیٹھتا ہے۔ سیمی فائنل کے نتائج میں اگزٹ پول کے ذریعہ فائنل 2024 ء کی نئی صف بندی کے اشارے مل رہے ہیں۔ اگزٹ پول کے نتائج نے کانگریس میں جشن اور بی جے پی میں ماتم کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔ عام طور پر اگزٹ پول کے نتائج یکساں نہیں ہوتے اور مختلف اداروں کا رجحان الگ الگ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اگزٹ پول کے بجائے اگزاکٹ پول یعنی حقیقی نتائج کا انتظار کر رہی ہیں۔ میزورم ، چھتیس گڑھ ، راجستھان ، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ اسمبلی چناؤ کی رائے دہی مکمل ہوگئی۔ چار ریاستوں کے نتائج پر ملک کی نظریں ہیں کیونکہ یہ نتائج قومی سیاست کا مستقبل طئے کریں گے اور مودی۔امیت شاہ کی آئندہ سیاسی اننگز کا بھی فیصلہ ہوگا۔ کرناٹک اور ارونانچل پردیش میں کانگریس کی کامیابی کے بعد بی جے پی نے چار ریاستوں میں ساری طاقت جھونک دی تاکہ کانگریس کے کامیابیوں کے سفر کو روکا جاسکے۔ چار ریاستوں کے اگزٹ پول میں زیادہ تر نتائج کانگریس کے تین ریاستوں میں تشکیل حکومت سے متعلق ہیں۔ چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کانگریس اقتدار کی برقراری اور تلنگانہ میں بی آر ایس سے اقتدار چھینتے ہوئے سیمی فائنل کی ونر دکھائی دے رہی ہے۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی اقتدار میں واپس ہوسکتی ہے۔ تینوں ریاستوں میں اقتدار میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی جبکہ تلنگانہ میں اقتدار کے ذریعہ کانگریس تشکیل تلنگانہ کے بعد کے سی آر سے 10 سال بعد حساب چکتا کرنے میں کامیاب ہوگی۔ بعض اگزٹ پول نتائج مدھیہ پردیش میں کانگریس حکومت کی پیش قیاسی کر رہے ہیں۔ چند میڈیا اداروں نے راجستھان میں کانٹے کی ٹکر کی پیش قیاسی کی ہے۔ الغرض تین ریاستوں میں دو کانگریس کی زیر اقتدار ہیں جو دوبارہ واپسی کی راہ پر ہیں۔ تلنگانہ کے بارے میں تمام بڑے میڈیا اداروں کا اگزٹ پول کانگریس کے حق میں آیا ہے جبکہ بعض نے معلق اسمبلی کے امکانات ظاہر کئے ہیں۔ کانگریس نے ملک میں بی جے پی کی کامیابی کے سفر کو کرناٹک میں بریک لگادیا تھا۔ مودی۔امیت شاہ کے جادو سے بی جے پی کی طاقت کے باوجود چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کانگریس حکومت کی برقراری دراصل راہول اور پرینکا کا کارنامہ ہے ۔ تلنگانہ میں مودی۔امیت شاہ۔جے پی نڈا اور دوسروں کے مسلسل کیمپ کے باوجود بی جے پی سنگل ڈجٹ تک محدود ہوچکی ہے۔ مبصرین کے مطابق کروڑہا روپئے خرچ کرنے کے باوجود رائے دہندوں نے سیمی فائنل میں شعور کا مظاہرہ کیا۔ جس طرح قانون فطرت ہے کہ دنوں کو لوگوں کے درمیان تبدیل کیا جاتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح ریاستوں کے انتخابی نتائج منظر عام پر آئے ہیں۔ اقتدار کسی کا دائمی نہیں ہوتا اور مسلسل کامیابیوں کے بجائے درمیان میں شکست کے ذریعہ قدرت اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے تاکہ انسان خدائی کا دعویٰ نہ کریں۔ نریندر مودی اور ان کی ٹیم خوش فہمی بلکہ تکبر میں مبتلا تھی کہ انہیں مرکز میں تیسری مرتبہ اقتدار سے کوئی روک نہیں سکتا۔ ٹھیک اسی طرح تلنگانہ میں کے سی آر بھی خود کو ناقابل تسخیر تصور کرنے لگے تھے اور جیوتی باسو کی طرح 25 سال اقتدار کا خواب دیکھ رہے تھے۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور مودی۔کے سی آر دونوں کے ہوش اگزٹ پول سے ٹھکانے آچکے ہیں۔ اگزٹ پول نتائج کے بارے میں مبصرین کا ماننا ہے کہ عوام نے بہتر کارکردگی کو کامیاب کیا ہے۔ جہاں تک تلنگانہ کا سوال ہے اگر اگزٹ پول درست ہوجائیں تو اس میں کے سی آر اینڈ کمپنی کیلئے درس عبرت ہے۔ جب عوام کو بادشاہ گر کے بجائے محکوم تصور کرتے ہوئے خود کو شہنشاہ سمجھنے لگ جائیں تو زوال یقینی ہوجاتا ہے ۔ عوام جب ساتھ ہوں تو چھتیس گڑھ اور راجستھان میں مودی اور امیت شاہ کا کرشمہ بھی کام نہیں آیا۔ تلنگانہ میں مخالف حکومت لہر کا کانگریس کو فائدہ ہوا ہے ۔ عوامی ناراضگی کو ووٹ میں تبدیل کرنے کا کارنامہ راہول اور پرینکا جوڑی نے انجام دیا۔ جس وقت قارئین یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے ، چار ریاستوں کے نتائج کا آغاز ہوجائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام اگزٹ پول کے نتائج مخالفت میں ہونے کے باوجود بی آر ایس کے ورکنگ پریسیڈنٹ کے ٹی راما راؤ 70 نشستوں کے ساتھ ہیٹ ٹرک کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ کے ٹی آر کے اس دعوے میں کس قدر سچائی ہے اور کیا واقعی اگزٹ پول کے اندازے غلط ہیں، اس کی حقیقت 3 ڈسمبر کو آشکار ہوجائے گی۔ ویسے بھی ایک آزاد امیدوار بھی ووٹوں کی گنتی تک کسی بھی سروے کو قبول نہیں کرتا۔ خوش فہمی کے ساتھ کوئی مزید دو دن مطمئن رہنا چاہے تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ بیک وقت تمام اگزٹ پول غلط نہیں ہوسکتے۔ ویسے بھی رائے دہی سے قبل اوپنین پول میں بھی زیادہ تر نتائج کانگریس کے حق میں آچکے ہیں۔ ماقبل رائے دہی سروے اور مابعد رائے دہی اگزٹ پول نتائج میں زیادہ فرق نہیں ہے۔
علحدہ تلنگانہ ایجی ٹیشن کا سہرا بظاہر کے سی آر اپنے سر باندھتے ہیں لیکن یہ تحریک دراصل 1969 ء علحدہ تلنگانہ جدوجہد کا ایک تسلسل ہے۔ ڈاکٹر ایم چنا ریڈی اور دیگر سرکردہ قائدین نے تحریک کی قیادت کی تھی جس میں تقریباً 250 سے زائد افراد نے اپنی جان دے دی ۔ تحریک کو کانگریس نے کسی معاہدہ کے تحت ختم کروادیا جس کے بعد دوبارہ علحدہ تلنگانہ کا نعرہ نہیں لگایا گیا۔ آندھرائی حکمرانوں کی ناراضگی سے تلنگانہ عوام ناراض ضرور تھے لیکن انہیں قیادت کا انتظار تھا۔ چندرا بابو نائیڈو حکومت میں کے سی آر کو شامل نہیں کیا گیا اور انہیں اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر مقرر کیا گیا تھا۔ وزارت سے محرومی سے ناراض ہوکر کے سی آر نے علحدہ تلنگانہ کا نعرہ لگایا اور 2001 ء میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی قائم کی۔ اگر چندرا بابو نائیڈو کے سی آر کو وزارت میں شامل کرلیتے تو شائد ٹی آر ایس قائم نہ ہوتی۔ تحریک میں طلبہ کے رول کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ روزگار سے محرومی نے طلبہ کو تحریک میں شامل کردیا اور سینکڑوں نوجوانوں نے خودکشی اور خودسوزی کے ذریعہ مرکز کو علحدہ تلنگانہ کی تشکیل پر مجبور کیا۔ یو پی اے حکومت کی سربراہ سونیا گاندھی نے علحدہ ریاست کے قیام کا وعدہ کیا جس پر کے سی آر نے ٹی آر ایس کو کانگریس میں ضم کرنے کا تیقن دیا تھا۔ کانگریس کو امید تھی کہ ٹی آر ایس کے انضمام سے نئی ریاست میں دوبارہ کانگریس برسر اقتدار آئے گی لیکن نئی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی کے سی آر اپنے وعدہ سے مکر گئے اور علحدہ الیکشن لڑتے ہوئے برسر اقتدار آگئے۔ اس تاریخی پس منظر سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا اور شائد کے سی آر بھی انکار کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ 10 برسوں تک کے سی آر کی قیادت کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں تھا اور اپوزیشن پارٹیوں میں انحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کے سی آر نے اسمبلی سے اپوزیشن کا تقریباً صفایا کردیا تھا۔ کانگریس اصل اپوزیشن کے مقام سے محروم ہوگئی اور حکومت کی حلیف مجلس کو مین اپوزیشن کا موقف دیا گیا۔ جمہوریت کی خوبی اور رائے دہندوں کے بادشاہ گر ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جس شخص نے اپوزیشن کو ختم کردیا تھا، آج وہی اقتدار سے محرومی کے در پر ہیں۔ نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی کے سی آر کو پرگتی بھون اور نیا تعمیر کردہ سکریٹریٹ بھی چھوڑنا پڑے گا۔ مذہبی شخصیتوں کا ماننا ہے کہ جس طرح بابری مسجد آج بھی اپنے قاتلوں کا تعاقب کر رہی ہے ، اسی طرح سکریٹریٹ کی دونوں مساجد کی شہادت نے کے سی آر کو مساجد کی جگہ پر تعمیر کردہ سکریٹریٹ میں برقرار رہنے سے محروم کردیا ہے۔ حکومت کے ذمہ دار بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دونوں مساجد واستو کے نام پر شہید کی گئیں اور ان کے حقیقی مقام کو تبدیل کرتے ہوئے مساجد کی جگہ سکریٹریٹ تعمیر کردیا گیا۔ تلنگانہ میں کانگریس کی اقتدار میں واپسی ہوتی ہے تو اس میں مسلمانوں کا اہم رول ہے ۔ کرناٹک کی طرح مسلمانوں نے کانگریس کی تائید کی اور تائید کے حصول میں راہول اور پرینکا کی تقاریر کا اہم رول ہے۔ کانگریس کی تاریخ رہی ہے کہ ہمیشہ نہرو خاندان کے کسی فرد نے ڈوبتی کشتی کو سہارا دیا ہے۔ اس مرتبہ کانگریس پارٹی کو ایک نہیں بلکہ دو کرشماتی چہروں کی مدد راہول اور پرینکا کی شکل میں حاصل ہیں۔ سرکاری ملازمین ، نوجوانوں اور مسلمانوں کے علاوہ سیما آندھرا کے رائے دہندوں نے بی آر ایس کے خلاف اپنا فیصلہ سنایا ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
مدتوں بعد یوں تبدیل ہوا ہے موسم
جیسے چھٹکارہ ملا ہو کسی بیماری سے