مذہبی جلوسوںمیں تشدد

   

ہندوستان کثیر آبادی والا ملک ہے ۔ اس ملک میں کئی مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے بستے ہیں۔ یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہبی تہواروں کو منانے اور اپنی مذہبی روایات پر عمل آوری کی پوری اجازت ہے ۔ ہر مذہب کے ماننے والے کسی دوسرے مذہب کو نشانہ بنائے بغیر اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں۔ کسی دوسرے مذہب کی ہتک یا توہین کرنے یا اسے نشانہ بنانے کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہے ۔ جس طرح سے ملک میں بے شمار مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے بستے ہیں وہیں انہیںاپنے مذہبی مواقع پر پروگرامس وغیرہ کی اجازت بھی ہے ۔ کئی مذہبی مواقع پر جلوس وغیرہ بھی نکالے جاتے ہیں۔ مذہبی جلوسوں کو حالیہ عرصہ میں سیاسی قائدین نے یرغمال بنالیا ہے اور وہ اسے سیاسی طاقت کے مظاہرہ کا موقع اور ذریعہ سمجھنے لگے ہیں۔ ہر مذہب کے ماننے والوں میں یہ روایت عام ہوگئی ہے کہ سیاسی قائدین اپنے کارندوں کے ذریعہ اس طرح کے جلوسوں اور پروگرامس پر اپنا تسلط بنالیتے ہیں اور پھر ان کا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہوئے فائدہ حاصل کرلیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کے مذہب کے تعلق سے نامناسب اور نازیبا ریمارکس بھی اب عام ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاسی مداخلت ہی کا نتیجہ ہے کہ مذہبی جلوسوں کے موقع پر تشدد کے واقعات بھی پیش آنے لگے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ شرپسند عناصر ہرجگہ ہوتے ہیں لیکن ان کے حوصلے اتنے بلند نہیں ہوتے کہ وہ کھلے عام تشدد پر اتر آئیں۔ ان عناصر کو سیاسی سرپرستی کے نتیجہ میں حوصلہ ملتا ہے اور ان کو سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہوئے تشدد پر اکسایا جاتا ہے ۔ یہ عناصر سیاسی بصیرت سے عاری ہوتے ہیں اور وہ سیاسی قائدین اور جماعتوں کے ہاتھوں کھلونا بننے کا احساس کئے بغیر استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں اور قائدین اسی سے فائدہ حاصل کرلیتے ہیں۔ مذہبی جلوسوں کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا سلسلہ اگر ترک کردیا جائے تو پھر یہ جلوس انتہائی مذہبی رواداری کی مثال بن سکتے ہیں اور ان میں تشدد کے واقعات کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔
ملک کی کسی نہ کسی ریاست اور کسی نہ کسی شہر میں بسا اوقات مذہبی رسوم و رواج کا وقت چلتا ہی رہتا ہے ۔ ہندوستان جتنا کثیر الآبادی والا ملک ہے اتنا ہی کثیر المذاہب بھی ہے ۔ ہر مذہب کی اپنی روایات ہیں جن پر اس کے ماننے والے عمل کرتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان روایات کو خالص مذہبی رنگ سے آگے بڑھایا جائے ۔ دنیا کے ہر مذہب نے اپنے ماننے والوںکو امن و اخوت اور بھائی چارہ کی تعلیم دی ہے ۔ دوسرے مذاہب کے احترام کا درس دیا ہے ۔ ایک دوسرے کے ساتھ خیرسگالی کے جذبات کی تعلیم دی ہے ۔ انسانیت کی خدمات کو سب سے اہم قرار دیا ہے ۔ کسی بھی مذہب میں دوسرے مذہب یا اس کے ماننے والوں کو نشانہ بنانے کی تعلیم نہیں دی گئی ہے ۔ تشدد اور نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کی ہر مذہب کی تعلیم دی ہے ۔ ایسے میں حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ لوگ مذہبی جلوس میں بھی سیاسی سازشوں کا شکار ہو کر تشدد پر اتر آتے ہیں۔ اشتعال انگیزی اور نفرت کے ماحول کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ سب کچھ مذہبی تعلیمات کے مغائر ہے ۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس طرح کیا جائے تو پھر کسی کو دوسروں سے ٹکراؤ کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور نہ ہی کسی سے اختلافات کی کوئی گنجائش رہے گی ۔ مذہب کی حقیقی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہر مذہب کے ماننے والوں اپنے اور اپنے معاشرہ کیلئے اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
ہندوستان کی جو روایات رہی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ بات دعوی سے کہی جاسکتی ہے کہ جب سے سیاسی قائدین نے اپنے فائدہ کیلئے مذہب کا استعمال شروع کردیا ہے اس وقت سے ہی بگاڑ پیدا ہوا ہے ۔ سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ جب سیاست کو مذہب سے علیحدہ کردیا جائیگا تو اشتعال انگیز اور نفرت انگیز تقاریر کا خاتمہ ہوجائیگا ۔ ملک کے عوام کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسی کو بھی مذہبی رسومات اور مقامات کے استحصال کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ مذہب کو الگ اور سیاست کو الگ کرکے دیکھا جانا چاہئے ۔ مذہبی استحصال کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے والوں کو قبول کرنے سے عوام کو گریز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے ماحول کو پراگندہ ہونے سے بچایا جاسکے ۔