مذہب کبھی خطرہ میں نہیں ہوتا ، اقتدار ہوتا ہے

   

ڈاکٹر رام پنیانی
ملک میں آج جو سب سے بڑی خطرناک سیاست ہے وہ آر ایس ایس کی اور ہندو راشٹر کی سیاست ہے اور اس سیاست کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں میں صرف وہی سماجی صورتحال آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس کے چلتے آر ایس ایس ہندو راشٹر واد یہاں تک کہ مسلم راشٹر واد آیا۔ اس بات کو آپ غلط مت سمجھئے کہ ہندو قوم پرستی اور مسلم قوم پرستی کے نظریات میں کوئی فرق ہے۔ ایک سال قبل سری لنکا میں اسی طرح کا ایک مسئلہ کھڑا ہوا تھا اور آپ کو پتہ ہے وہاں کونسی قوم پرستی چلتی ہے وہاں بدھ مذہب کی قوم پرستی چلتی ہے تو مذہب ایک طرف ہے اور مذہب کے پردہ میں چھپی ہوئی سیاست دوسری طرف ہے ۔ کبیر نے مذہب کے بارے میں جو کچھ کہا ہے میں اسے مانتا ہوں انہوں نے کہا تھا ’’ مذہب ‘‘ جو انسان سے انسان کو محبت کرنا سکھائے اور آج مذہب کے نام پر جو سیاست کی جارہی ہے وہ انسان کو انسان سے لڑا رہی ہے اور وہ اس لئے کہ سماج کے بڑے طبقہ کے انسانی حقوق کو وہ دبانا چاہتی ہے ختم کرنا چاہتی ہے انہیں حاشیہ پر رکھنا چاہتی ہے مذہب سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ہم سب کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے۔ دوستو! کوئی ملک غلام کب ہوتا ہے ؟ اور آزاد کب ہوتا ہے؟ اس بات کو اپنے ذہنوں میں رکھئے گا ملک کی آزادی ملک کی غلام تب ہوتی ہے جب ملک کی دولت کو لوٹ کر باہر لے جایا جاتا ہے۔ جب ملک کا انتظامیہ یا حکومت باہر سے چلتی ہے اب زیادہ تر تو اشارہ مسلمانوں پر ہوتا ہے کہ یہ مسلمان بادشاہ بیرونی حملہ آور ہم ان کے غلام رہے وغیرہ وغیرہ ۔ مسلمان بادشاہوں نے یہاں کسی قسم کی غلامی کا نظام قائم نہیں کیا۔ آج تعصب و جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ راجاؤں کو قوم پرستی کی علامت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ راجاؤں نے اچھے کام کئے لیکن زیادہ تر راجہ سماج پر ظلم کرتے تھے۔ اس لئے راجہ شاہی کی زیادہ تعریف کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں اکثر اناج اُگانا والا کسان ہی بھوکا رہا۔ سارے ملک میں ہندو راجاوں مسلم بادشاہوںکے نام پر فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوششیں ہوتی رہتی ہے اس کی تازہ مثال مہاراشٹرا ہے جہاں ایک طرف اورنگ زیب عالمگیر کو دوسری طرف شیواجی مہاراج کو کھڑا کردیا گیا اور کہنے لگے کہ اورنگ زیب مسلمانوں کی علامت ہیں اور شیواجی ہندوؤں کی علامت ہیں میں اس طرح کی باتوں پر بڑا حیران ہوتا ہوں کیونکہ اورنگ زیب کا مسلمانوں سے کیا لینا دینا اور شیواجی مہاراج کا ہندوؤں سے کیا لینا دینا ان کی حکمرانی کو دیکھئے نظم و نسق کو دیکھئے۔ اورنگ زیب اور شیواجی کی لڑائی کو ہندو مسلمان کی لڑائی بتانے کی کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ شیواجی مہاراج جب اپنی حکومت قائم کررہے تھے تو ان سے لڑنے کیلئے اورنگ زیب کی طرف سے جو آیا اس کا نام تھا راجہ جئے سنگھ ۔ہندو کیا ہے مسلمان کیا ہے فیصلہ آپ کرسکتے ہیں۔ ایسے ہی ہر جنگ کے بارے میں بتاسکتا ہوں۔ آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب 6 ڈسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کی گئی میرے چاروں طرف پروفیسرس اسٹوڈنٹس سب کے سب ایک بات کہنے لگ گئے، بابر کی اولاد جاو اِدھر یا جاو اُدھر اب میں نے کہا کہ بابر 500-450 سال قبر میں تھا یہ کہاں سے آگیا ؟ اور بابر کو بھارت آنے کی دعوت کس نے دی تھی ؟ جس نے یہ دعوت دی تھی اس کا نام تھا رانا سانگھا تھا، اس نے بابر کو خط لکھا کہ آپ بھارت تشریف لائے ہم دونوں شراکت داری میں یا مل کر دہلی کے بادشاہ ابراہیم لودھی کو ہرائیں گے۔ اب اس میں ہندو کیا ہے مسلمان کیا ہے۔ میں آپ پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ بادشاہوں اور راجاؤں کی لڑائیاں ( جنگیں ) مذہب کی بنیاد پر نہیں ہوئیں۔ واضح رہے کہ راجستھان میں کچھ سال قبل بی جے پی کی حکومت تھی ( فی الوقت کانگریس کی حکومت ہے ) تو اس میں ایک وزیر تعلیم تھے انہوں نے کہا کہ کتابوں میں آیا ہے کہ ہلدی گھاٹی کی لڑائی میں اکبر جیت گئے۔ رانا پرتاب ہار گئے وہ بڑے بے چین ہوگئے ہندو راجہ کیسے ہار سکتا ہے؟ مسلمان بادشاہ کیسے جیت سکتا ہے؟ کتاب کو بدل دیا کہ بھئی اکبر لڑائی میں ہار گئے، رانا پرتاب جیت گئے اور جیت کی خوشی میں ( وہ جنگل میں چلے گئے اور گھانس کی روٹیاں کھانے لگ گئے ) اس وزیر سے میں کہتا ہوں بھیا جس کو جتانا ہے جتادو جس کو ہرانا ہے ہرا دو میرا اب کچھ نہیں جاتا لیکن اسے ہندو مسلمان کی لڑائی مت کہو ۔ پوچھیں گے آخر کیوں ؟ میں کہوں گا چلو ہلدی گھاٹی چلتے ہیں۔ ہلدی گھاٹی کے ایک میدان میں ہے اکبر کی فوج ایک طرف ہے مہارانا پرتاب کی فوج اکبر کی فوج کو جب آپ دیکھتے ہیں تو اکبر کی فوج میں اکبر خود نہیں ہے تو اکبر کی بجائے فوج کی قیادت کون کررہا ہے اس کا نام ہے راجہ مان سنگھ ، ایسے میں بتایئے کہ اکبر کی فوج میں صرف ہندو ہیں یا ہندو مسلمان دونوں ہیں۔ اب چلئے مہارانا پرتاب کی طرف اس کے دو فوجی کمانڈر ایک کا نام رام سنگھ اور دوسرے کا نام حکم خان سوری، رانا پرتاب کے 3000 فوجیوں میںدو ہزار فوجی رام سنگھ کے تحت اور ایک ہزار سپاہی حکیم خان سوری کے تحت تو آپ بتایئے کہ رانا پرتاب کی فوج میں صرف ہندو ہیں یا ہندو مسلمان دونوں ہیں۔ دونوں طرف ہندو بھی ہیں دونوں طرف مسلمان بھی ہیں تو یہ ہندو مسلمان کی لڑائی نہیں بلکہ دو راجاؤں کی لڑائی ہے یہ لڑائی مذہب کیلئے نہیںاقتدار کی لڑئی ہے اب اس تاریخ کو مذہب کی عینک سے دیکھنے کی جس نے کارستانی کی وہ انگریز تھے۔ انگریز بھارت میں آئے تجارت کی غرض سے آئے لیکن جلد ہی دیسی حکمرانوں پر رعب و دبدبہ جماکر بڑی چالاکی کے ساتھ بھارت کی دولت لوٹ کر لئے گئے صرف کوہ نور ہیرا ہی نہیں لے گئے ہماری دولت کو اتنا لوٹا کہ جس بھارت کی جی ڈی پی جو دنیا کی جی ڈی پی کا 24 فیصد تھی وہ گر کر 4 فیصد پر آگئی۔ انگریز آئے انہیں حکومت کرنی تھی یا ہمارے ملک کی دولت لوٹ کر جانا تھا چنانچہ ان لوگوں نے یہاں 3 قسم کی تبدیلیاں لائیں وقت کے مطابق تبدیلیاں لائی تھی۔ ان لوگوں نے سب سے پہلی تبدیلی حمل و نقل میں لائی کیونکہ انگریز شہروں سے لوٹا ہوا مال سمندری جہازوں کے ذریعہ برطانیہ روانہ کرتے تھے شہروں سے سامان کی منتقلی کیلئے انہوں نے بیل بنڈی کو ہٹاکر ریلوے لائن قائم کی۔ چنانچہ پونہ سے ممبئی سامان منتقل کرنے کیلئے ریل گاڑی وہ لائے۔ برطانوی وائسرائے کولکتہ میں رہتا تھا اسے اپنے ماتحت عہدہ داروں کو پیغامات ارسال کرنے ہوتے تھے چنانچہ انگریزوں نے میل شروع کیا اور تیسرا کام عصری تعلیم کا آغاز کیا ۔ عدلیہ کے نظام میں اپنے مطابق تبدیلیاں متعارف کروائیں اس طرح جیلیں قائم کی اس طرح تاجرین ، صنعت کار بن گئے فیکٹریوں کا قیام عمل میں آیا ۔ اس طرح تاجرین ، مزدور اور بیورو کریٹس منظر عام پر آئے جن میں سے بھارتیہ قوم پرستی نکلی ہاں جو عصری تعلیم آئی وہ ایک مخصوص دولت مند طبقہ کیلئے نہیں تھی بلکہ سب کیلئے تھی اس تعلیم کو دلتوں تک لے جانے کی کوششوں کا آغاز ہوا جس کی مخالفت اعلی ذات کے ہندووں نے کی ۔ دوسری طرف متوسط طبقہ کے اُبھرنے سے ہندو مسلمان نواب اور جاگیرداروں میں خوف کی لہر پیدا ہوگئی اس ڈر کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ کچھ غیرمعمولی شخصیتوں نے تعلیم کو غریب اور متوسط طبقہ تک پہنچایا اس معاملہ میں جیوتی راو پھولے اور ساوتری بائی پھولے کا کردار بہت اہم رہا ۔ ساوتری بھائی پھولے نے لڑکیوں کیلئے اسکول کھولا ۔ ان کی مخالفت یہ کہتے ہوئے کی گئی کہ ہمارا دھرم لڑکیوں کی تعلیم کی اجازت نہیں دیتا ۔ اسی لئے ساوتری بائی جب اسکول جاتی تھیں اپنے ساتھ اضافی کپڑے لے جاتی تھی کیا انہیں بھی اپنے وزیراعظم جیسے بار بار کپڑے بدلنے کی عادت تھی ؟ نہیں ! کیونکہ لوگ ان پر کیچڑ پھینکتے تھے ، گوبر پھیکتے تھے اور ان کی پہلی شاگردہ کا نام اور پہلی ٹیچر کا نام فاطمہ شیخ تھا ۔ ریل ، میل ، جیل تاجرین دولت مند ، مزدور طبقہ دلتوں میں تعلیم نے ایک نیا ماحول پیدا کیا جس سے راجہ ، نواب سب کو احساس ہونے لگا کہ ہماری قوت کمزور ہورہی ہے اکثر لوگ سرسید احمد خان کا نام لیتے ہیں لیکن راجہ شیو پرساد کو یاد نہیں رکھتے ان دونوں نے ایک تنظیم بنائی اور کہا کہ یہ لوگ اپنے حقوق کی جو باتیں کررہے ہیں وہ غلط ہے ہم ہندو راجہ اور مسلمان نواب اپنی وفاداری ملکہ برطانیہ کی حکومت کے تئیں پیش کرتے ہیں اور اس تنظیم سے بعد میں مسلم لیگ بنی اور ہندو مہا سبھا بنی یاد رکھئے یہ ایک دوسرے کی ضد دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں ایک دوسرے کے قریب تھے ۔ اس دوران بھگت سنگھ ، بھیم راؤ بابا صاحب امبیڈکر اور تیسرے مولانا ابوالکلام آزاد اور اپنی بسنٹ آئے اور مسلمانوں نے کہنا شروع کیا کہ اسلام خطرہ میں ہندو راجاؤں نے کہا کہ ہندو ازم خطرہ میں حالانکہ مذہب کبھی خطرہ میں نہیں ہوتا خطرہ میں ہوتا ہے لوگوں کا اقتدار جب اقتدار خطرہ میں ہوتا ہے تو لوگ مذہب کا سہارا لیکر چلتے ہیں جیسا کہ آج ہورہا ہے۔ بعد میں اعلی ذات کے لوگ منظر عام پر آئے ان میں محمد علی جناح ( مسلم لیگ ) دوسرے فرد انڈومان کی جیل میں تھے بار بار معافی مانگی رہائی پائی اور انگریزوں سے 60 روپئے ماہانہ کا وظیفہ پایا ۔ انہوں نے انگریزوں سے کہا تھا کہ میں زندگی بھر آپ لوگوں کیلئے کام کروں گا۔ یعنی ساورکر انہوں نے ہندو مہاسبھا میں شمولیت اختیار کی جناح نے مسلم ملک اور ساورکر نے ہندو راشٹر کی بات کی اور اسی ہندو راشٹر کو لیکر 1925 میں آر ایس ایس بنی جس کا مقابلہ کرنافی الوقت بہت مشکل ہے۔