مذہب کے نام پر جرائم

   

رام پنیانی
ریاض انصاری اور غوث نامی دو مسلم نوجوانوں نے انتہائی بیدردی سے 28 جون کو راجستھان کے اودے پور میں ایک ہندو درزی کا قتل کردیا۔ ان لوگوں نے نہ صرف اس ٹیلر کو بہیمانہ انداز میں قتل کیا بلکہ اس قتل کی ویڈیو بناکر اسے سوشیل میڈیا پر اَپ لوڈ بھی کیا۔ درازی کنہیا لال کو اس لئے قتل کیا گیا کیونکہ بتایا جاتا ہے کہ اس نے بی جے پی کی معطل شدہ ترجمان نپور شرما کی تائید کی تھی اور اس تائید و حمایت کا آن لائن اعلان بھی کیا تھا۔ نپور شرما نے پیغمبر محمدؐ کی شان میں گستاخانہ تبصرے کئے جس کی بڑے پیمانے پر ملک و بیرون ملک مذمت کی گئی۔
کنہیا لال کے قتل پر بھی آزاد خیال عناصر کے ساتھ ساتھ مسلم تنظیموں نے بھی مذمت کی اور اسے ایک غیراسلامی فعل قرار دیا جہاں تک جمہوری اور شہری حقوق میں یقین رکھنے والے ملکوں کا سوال ہے، ان ملکوں میں تمام مذاہب کا مساویانہ طور پر احترام کیا جاتا ہے، لیکن کیا مذہب اور مذہبی شخصیتوں اور اعلیٰ مذہبی رہنماؤں کے خلاف ریمارکس سے نمٹنے کوئی توہین مذہب قانون نہیں ہوا چاہئے۔ چاہے اکثریت کا کوئی بھی مذہب کیوں نہ ہو۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اودے پور میں کنہیا لال کے قتل کی سماج کے ہر طبقہ نے مذمت کی ۔ ایسے میں ایک مسلم مزدور افرازال کو بھی بھلایا نہیں جاسکتا جسے اودے پور میں ہی شنبھو لال ریگر نے انتہائی بیدردی سے قتل کیا تھا۔ کنہیا لال کے قتل نے افرازال کے قتل کی یادیں تازہ کردی ہیں۔ شنبھو لال کا کہنا تھا کہ نام نہاد لو جہاد کے مسئلہ پر اس نے افرازال کا قتل کیا۔ اس وقت بھی بلالحاظ مدمت و ملت رنگ و نسل بہت سے لوگوں نے اس کی مذمت کی تھی جبکہ کچھ ایسے عناصر بھی تھے جنہوں نے شنبھو لال ریگر کی تعریف و ستائش کرتے ہوئے اس کا مقدمہ لڑنے کی خاطر اس کے خاندان کیلئے فنڈز بھی جمع کئے۔ کنہیا لال کے قتل کے بعد ہمیں اخلاق، حافظ جنید ، رکبر خاں و دیگر مسلم مقتولوں کی یاد بھی آئی جنہیں گاؤ رکھشکوں نے انتہائی سفاکی سے موت کے گھاٹ اُتارا۔ بعض کو تو شدید زدوکوب کے بعد درخت پر زندہ لٹکاکر پھانسی دے دی۔
مسلم متاثرین
غلطی پر غلطی کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ کسی بھی مذہب کے نام پر کسی بھی قسم کا تشدد بالکل غلط ہے اور اس طرح کے قتل نہ صرف مذاہب کی تعلیمات و اخلاقیات بلکہ ہمارے دستوری اقدار کے بالکل مغائر ہیں۔ جبکہ جو لوگ افرازال کے قتل میں ملوث رہے اور جو لوگ تقریباً 100 بے قصور لوگوں کی ہجومی تشدد میں ہوئیں اموات میں شامل ہے، انہیں Fringe Element قرار دیا گیا۔ اس کے برعکس اودے پور میں کنہیا لال اور کشمیر میں پنڈتوں کے قاتلوں کا تعلق دینی مدارس اور اسلامی درس گاہوں سے جوڑا گیا۔ حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ گورنر کیرالا عارف محمد خاں نے تو اس تشویش کا اظہار کیا کہ تمام مدرسوں کے کم عمر طلباء کے ذہنوں میں جہادی اسلام ڈالا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں اودے پور جیسا واقعہ پیش آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ افرازال کے قتل اور ہجومی تشدد کے متاثرین (مہلوکین) پر تشدد ایک ایسے نظریہ میں پوشیدہ ہے جس میں ہندوؤں کو متاثرین اور مسلمانوں کو مجرمین اور ہندوؤں کیلئے خطرہ کے طور پر پیش کرتا ہے، یہ وہی نظریہ ہے جس نے مہاتما گاندھی جیسی شخصیت کو مسلمانوں کی خوشامدانہ پالیسی پر کاربند رہنے والے کے طور پر دیکھا حالانکہ مہاتما گاندھی نے کسی بھی قسم کے تشدد، مذہبی منافرت، مذہبی خطوط پر گولوں کی تقسیم کی شدت سے مخالفت کی تھی تبھی تو ساری دنیا نے گاندھی کے پیام عدم تشدد کو اپنانے پر زور دیا ہے۔ تشدد کے ذریعہ اپنی اجارہ داری قائم کرنے والے اس گمراہ کن نظریہ نے خود کو ہندوازم کے لبادہ میں چھپا لیا۔ اگر دیکھا جائے تو مہاتما گاندھی اور ہندوستانیوں کی اکثریت جس ہندوازم پر چلتے ہیں وہ مشمولیاتی ہے اور تمام ہندوستانیوں کو ’’واسودھیوا کٹم بکم کے ایک حصہ طور پر دیکھتا ہے، یعنی سارے عالم کو ایک خاندان کے طور پر دیکھتا ہے۔
جہاں تک جہادی اسلام اور مدرسوں سے اس کے تعلق کا سوال ہے، ہمیں ایک گہرے محاسبہ کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں دینی مدارس آج کل قائم نہیں کئے گئے بلکہ ایک طویل مدت سے اس سرزمین پر مدارس کام کررہے ہیں جبکہ جہادی اسلام 9/11 کے بعد کا رجحان ہے۔ (یہ ایسا رجحان ہے جسے مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے شروع کیا گیا اور جہادی اسلام کی اصطلاح بھی اُسی وقت گھڑی گئی تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی جائے) دنیا جہادی اسلام کی باتیں کرتے ہوئے ہوا کھڑی کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی خاص طور پر گودی میڈیا اس طرح کی باتیں پھیلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا جبکہ ہمیں اس کی اصل یا اس کے اسباب کا پتہ لگانا چاہئے۔ یہ اس وجہ سے نہیں جو ہندوستانی مدرسوں میں پڑھایا جارہا ہے۔ اس قسم کی جہادی فکر پر پاکستان کے چند مدرسوں میں عمل آوری کی جارہی ہے۔
وہابی اسلام
سرد جنگ کے دور میں امریکہ دنیا کی سپر پاور بننے کیلئے روس سے مقابلہ کررہا تھا۔ اس کا مقصد مغربی ایشیا میں پائی جانے والی تیل کی دولت پر کنٹرول کرنا تھا۔ اس نے اسلام کے ایک ورژن ’’وہابی‘‘ کو استعمال کیا اور اسی ورژن کا مجاہدین۔ طالبان کو تربیت دینے کیلئے پاکستان کے چند مدرسوں میں استعمال کیا گیا۔ وہ مدرسے ہی مجاہدین اور طالبان کے منظر عام پر آنے کی بنیاد ہے اور ان ہی مدرسوں میں مجاہدین اور طالبان کو تیار کیا گیا۔ محمود مدنی نے اپنی کتاب ’’گڈ مسلم، بیاڈ مسلم‘‘ (اچھے مسلمان ، بُرے مسلمان) میں بتایا کہ امریکہ نے مجاہدین ۔ طالبان کی تیاری میں 8000 ملین ڈالرس کی سرمایہ کاری کی اور افغانستان میں سوویٹ یونین کی فورسیس سے لڑائی کیلئے ان گروپوں کو 7000 ٹن ہتھیار فراہم کئے۔
سوویٹ یونین کی فورسیس کی شکست کے بعد یہ فورسیس کشمیر میں داخل ہوئیں اور مسئلہ کشمیر کو فرقہ وارانہ بنادیا۔ پنڈتوں کو ستانا شروع کیا اور پھر پنڈتوں کو وادیٔ کشمیر چھوڑنے اور پناہ گزین بننے پر مجبور کردیا۔ ان فورسیس کے بارے میں ایک اور بات اہم رہی کہ وہ موافق ہندوستان کشمیری مسلمانوں کے بھی مکمل خلاف رہے اور وادی میں مسلمانوں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا چنانچہ ان ہی فورسیس نے جسے امریکہ نے تیار کیا تھا، غیرمسلموں کے قتل کو ’’جہاد‘‘ قرار دیتے ہوئے منصفانہ قرار دیا حالانکہ ’’جہاد‘‘ کی تعریف ہی کچھ اور ہے۔ اس کے بعد ان فورسیس کا استعمال سعودی عرب نے کیا اور بعض پاکستانی مدرسوں میں عمل آوری کرائی جس کے جو نتائج برآمد ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں جہاں تک لفظ ’’کافر‘‘ کے حقیقی معنی کا سوال ہے، ’’کافر‘‘ کے معنی ایسا شخص جو سچ کو چھپائے لیکن اس کے معنی ہی بدل کر رکھ دیئے گئے اور ’’کافر‘‘ کو قتل کرنا جہاد سمجھ لیا گیا۔ مجاہدین و طالبان کی تیاری اور اس کے پیچھے کارفرما وجوہات کو ہلاری کلنٹن کے وہ ویڈیو کلپ دیکھنے کے بعد اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے جس کا دورانیہ صرف 1.35 ہے:
youtube.com/watch?v=xy-BWScpdZW
اس ویڈیو سے آپ کو پتہ لگے گا کہ امریکہ نے ان جہادی گروپوں کو مالیہ فراہم کرنے کی کس طرح منصوبہ بندی کی تھی اور پھر امریکہ کے باعث ہی سارے مغربی ایشیا میں ماحول پراگندہ ہوگیا۔ ساتھ ہی دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا گیا۔
جہادی دہشت گردی
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس جہادی دہشت گردی کی ساری توجہ مغربی ایشیا پر مرکوز رہی، نہ کہ انڈونیشیا جیسے مسلم اکثریتی ملک میں۔ یہ بھی حقیقت یہ ہے کہ اس دہشت گردی سے ہندوستان کو بھی بہت زیادہ متاثر ہونا پڑا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہادی دہشت گردی ایک ایسے عفریت میں کی طرح ہے جس نے کئی ملکوں میں خطرناک حد تک تباہی مچائی۔ پاکستان بھی دہشت گردی سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ اس کے تقریباً 75 ہزار شہری اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں زخمی ہوکر معذور ہوگئے۔