مرزا داغؔ دہلوی : شخصیت اور شاعری

   

ڈاکٹر امیر علی
مرزا داغؔ دہلوی کا شمار اُردو زبان و ادب اور غزل کے منفرد و عظیم المرتبت شاعروں اور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے بیان کے ایسے دریا بہائے جس سے سارا ہندوستان آج بھی سیراب ہورہا ہے۔ وہ دنیائے ادب میں فصیح الملک نواب مرزا خاں، جہان استاد دبیرالدولہ بلبل ہندوستان اور ناظم یار جنگ کے خطابات سے بھی جانے جاتے ہیں۔ داغؔ دلی زبان کے بے مثل امین اور قدیم غزل کے نمائندہ گو شاعر ہیں۔ غزل ان کی محبوب صنف ہے مگر انہوں نے دوسری اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ داغؔ کی غزلوں میں زبان کا چٹخارہ، محاوروں، کی کثرت، فصاحت و بلاغت، اعلیٰ تخلیل، بلند پروازی، حسن و عشق کی کارفرمائیوں کا ذکر بڑے ہی موثر انداز میں موجود ہے۔ داغؔ 25 مئی 1831ء کو محلہ چاندنی چوک دلی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام نواب شمس الدین احمد خاں ہے جو ریاست لوہارو کے رئیس تھے۔ داغؔ چاندنی چوک دلی کے جس کوچے میں پیدا ہوئے، اس کا نام ’’کوچہ داغ‘‘ ہے۔ 6 برس کی عمر تھی کہ داغ اپنے والد کے سائے سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ 1837ء میں ان کی والدہ نے مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے فرزند فتح الملک عرف مرزا فخرو ولی عہد سے عقد کیا اور شوکت محل کے خطاب سے موسوم ہوئیں۔ داغؔ بھی اپنی والدہ کے ہمراہ قلعہ معلیٰ میں داخل ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت قلعہ معلی کے شہزادوں کے ہمراہ بہادر شاہ ظفرؔ کی سرپرستی میں ہوئی۔ داغؔ کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں قلعہ معلیٰ میں رہ کر ایسی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا موقع نصیب ہوا جو شہزادوں کے لئے مخصوص تھا۔ بہادر شاہ ظفر داغؔ کی ذہانت اور طباعی کے بڑے مداح اور انہیں ہونہار سمجھتے تھے۔ داغ کمسنی سے ہی شاعری اور ادب کی طرف مائل ہوئے اور قلعہ معلیٰ اور دلی کے ادبی مشاعروں میں شرکت کرنے لگے اور ان کے کلام کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ادب اور شاعری میں ذوق ؔ، مومنؔ، غالبؔ اور ظفر کا طوطی بولتا تھا اور ان شعراء کے فکر و فن کی دھوم تھی۔ غالبؔ عشق مجازی اور فلسفیانہ بیان کے دریا بہا رہے تھے۔ ذوقؔ اور مومنؔ بھی زبان و بیان و محاوروں کو پروان چڑھا رہے تھے۔ داغ کو بھی ان شعراء اور اہل کمالوں کی صحبت اور رہنمائی نصیب ہوئی اور داغ نے بھی دنیائے ادب اور شاعری میں بڑا نام کمایا اور اپنے عہد کو بڑا متاثر کیا۔ دلی کے ادبی مشاعرے میں جب داغ نے اپنی غزل کا شعر پڑھا تو ہر طرف دھوم مچ گئی اور لوگوں نے داغ کے کلام کو بہت پسند کیا اور خوب داد دی۔ ظفر نے بھی داغ کی بڑی تعریف کی اور اپنے پاس بلاکر پیشانی کو بوسہ دیا۔ وہ شعر کچھ اس طرح تھا:
ہوئے مغرور جب کہ آہ میری بے اثر دیکھی
کسی کا اس طرح یارب نہ دنیا میں بھرم نکلے
داغؔ کا بچپن اور عفوان شباب کا زمانہ قلعہ معلی میں بسر ہوا اور انہیں بہادر شاہ ظفرؔ اور ان کے فرزند مرزا فخرو ولی کی سرپرستی حاصل رہی۔ غدر 1857ء سے 10 ماہ پیشتر جب داغ کی عمر 25 برس تھی کہ مرزا فخرو ولی عہد نے انتقال فرمایا جس کا داغ کو گہرا صدمہ ہوا اور پھر غدر 1857ء کا حادثہ پیش آیا اور یہ واقعہ خونین ان کی آنکھوں کے سامنے گزرا۔ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے تخت و تاج سے معزول کردیا اور انہیں قید کرکے رنگون (برما) میں رکھا اور اسی قید کے عالم میں انہوں نے 1862ء میں انتقال فرمایا اور وہیں سپرد خاک ہوئے۔ بہادر شاہ ظفر کی معزولی کے بعد ملک پر ملکہ وکٹوریہ کی حکومت قائم ہوگئی۔ نواب یوسف علی خاں والی رامپور علماء، شعراء اور اہل ہنر کے بڑے قدر دان تھے۔ وہ خود بھی اُردو کے پُرگو شاعر تھے اور مرزا غالب سے ان کو شرف تلمذ حاصل تھا۔ نواب یوسف علی خاں داغ کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے۔ انہوں نے بڑی خواہش سے اپنے ہاں طلب فرمایا اور اپنے صاحبزادے نواب کلب علی خاں کا مصائب مقرر کیا۔ داغ نے ایک طویل عرصہ رامپور میں گزارا اور اپنی ادبی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ نواب یوسف علی خاں والئی رامپور کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے نواب کلب علی خاں والی رامپور مقرر ہوئے تو داغ کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا۔ نواب کلب علی خاں بھی اپنے پدر بزرگوار کی طرح ادب اور شاعری کا اعلیٰ مذاق رکھتے تھے اور خود بھی اُردو کے پرگو شاعر تھے اور شاعری میں نواب تخلص فرماتے تھے اور داغ کے تربیت یافتہ تھے۔ داغ نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ رامپور میں گزارا اور نواب کلب علی خاں کا 1886ء میں انتقال ہوا اور آپ کے انتقال کے بعد ریاست میں نئی صلاحیتیں شروع ہوگئیں اور جنرل عظیم الدین خاں کو ریاست کا مدرالمہام مقرر کیا گیا اور ریاست میں کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ جنرل عظیم الدین خاں سے داغ کی نہ بنی اور وہ رامپور سے اپنے وطن دلی واپس آگئے اور کچھ عرصہ بعد ملک کے دوسرے علاقوں کی سیاحت کی، مگر جس چین و سکون کے داغ متلاشی تھے، انہیں کہیں نصیب نہ ہوا اور یہ زمانہ داغ نے بڑی پریشانی میں گزار۔
کہیں آرام سے دو دن فلک رہنے نہیں دیتا
ہمیشہ اک نہ اک سر پر مصیبت آہی جاتی ہے
مرزا غالب کی طرح داغ ایک خوددار اور خداترس انسان تھے۔ داغ کو دلی کے اجڑنے اور رامپور کو چھوڑنے کا گہرا صدمہ تھا۔ داغ کو اپنے فن اور خدا کی وحدانیت پر پورا بھروسہ تھا۔ داغ زیادہ کی تلاش میں نہیں رہتے تھے بلکہ گزر بسر پر ہی یقین رکھتے تھے۔ داغ نے اپنی ہی رباعی کے اشعار میں کیا خوب کہا تھا:
بے فائدہ انسان کا گھبرانا ہے
ہر طرح اسے رزق تو پہنچانا ہے
تاروں کے خزانے سے بھی مل جائے گا
منظور جو اللہ کو دلوانا ہے
غفران مکان اعلیٰ حضرت نواب میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس وائی دکن (حیدرآباد) علماء، شعراء اور اہل ہنر کے بڑے قدر دان تھے۔ ان کا دربار شعراء، علماء اور اہل ہنر کا ملجا و ماوا تھا۔ وہ خود بھی اردو کے پرگو شاعر تھے اور آصف تخلص فرماتے تھے۔ انہوں نے کئی علماء ، شعراء اور اہل ہنر کی سرپرستی فرمائی اور قدر دانی کا حق ادا کیا۔ آپ کو حکمرانی سے زیادہ امن و بھائی چارہ اور اتحاد بہت عزیز تھا۔ آپ نے بڑی خواہش سے داغ کو حیدرآباد طلب فرمایا اور داغ کو شاہی خطاب ’’استاد شاہ سلطان‘‘ اور فصیح الملک اور دوسرے اعلیٰ خطابات سے سرفراز فرمایا اور داغ کی قدر و منزلت کی۔ داغ دلی سے پہلی بار 1888 ء میں حیدرآباد تشریف لائے اور ان کا قیام محلہ افضل گنج میں رہا۔ داغ کے حیدرآباد آنے سے پیشتر ہی لوگ ان کے نام اور کام سے واقف ہوچکے تھے اور ان کی شہرت ہر طرف ہوچکی تھی۔ داغ کا شعری دیوان ’’گلزار داغ‘‘ کے ساتھ ان کی شہرت پہلے ہی حیدرآباد پہنچ چکی تھی اور حیدرآباد کے شیدائی، دال منڈی کے ناٹک میں جو پہلی بار حیدراباد میں قائم ہوئی تھی۔ داغ کی غزلیں گائی جاتی تھیں اور لوگ سنتے اور سردھنتے تھے۔ داغ کے شاگردوں، دوستوں اور ان کے چاہنے والوں کا حلقہ بہت وسیع تھا جنہوں نے داغ کی رہنمائی اور رہبری سے اُردو زبان و ادب اور شاعری میں بڑا نام کمایا اور اپنے عہد کو بڑا متاثر کیا اور آپ کی شاگردی میں کئی لوگ کئی نامور شاعر اور ادیب بن گئے۔ حسب فرمان غفران مکان نواب میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس والی دکن 17 اپریل 1888ء داغ کا تقرر عمل میں آیا اور 450 روپئے ماہوار تنخواہ عطا کی گئی اور تین برس تک یہی ماہوار تنخواہ ملتی رہی اور اس کے بعد 550 روپئے کا اضافہ کرکے ایک ہزار ماہوار وظیفہ مقرر ہوا جو تاحیات جاری رہا۔ داغ غفران مکان آصف جاہ سادس کی بے انتہا نوازشوں اور خطابات کے مورد ہوئے۔
داغ نے طویل عمر پائی اور حیدرآباد میں قریب 18 برس تک مقیم رہے۔ داغ اکثر خدا سے دعا کیا کرتے تھے کہ ان کو حج کے دن موت آئے اور ان کی نماز جنازہ عید کی نماز کے ساتھ ہو۔ اس طرح ان کی دونوں آرزوئیں بر آئیں۔ 9 ذی الحجہ 1322 ھ مطابق جنوری 1905ء میں اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ عید کے روز داغ کی نماز جنازہ حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد میں ہزاروں سوگواروں اور عقیدت مندوں کے بیچ ادا کی گئی اور آپ کا جسد خاکی درگاہ حضرت یوسفینؒ کے صحن میں سپرد لحد کردیا گیا۔ کہاں کی مٹی کہاں لے گئی اور کہاں سپرد خاک ہوئے۔