مرکز کی پالیسیاں آمریت پسندانہ، سی اے اے پر شردپوار کا ردعمل

,

   

جواہرلال نہرو یونیورسٹی تشدد سے طلبہ کے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہونچی ہے، این سی پی سربراہ کا بیان
ممبئی 9 جنوری(سیاست ڈاٹ کام) این سی پی صدر شردپوار نے آج مرکز پر الزام عائد کیاکہ اس نے ملک کے اتحاد کو چکنا چور کردیا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون لاکر ملک کو عدم استحکام کی جانب ڈھکیل دیا گیا۔ اُنھوں نے شہریت ترمیمی قانون پر حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ اُنھوں نے مہاتما گاندھی کے عدم تشدد نظریہ کے ساتھ حکومت کی ’’آمریت پسندانہ‘‘ پالیسیوں کے خلاف احتجاج جاری رکھنے کا عہد کیا۔ شردپوار نے یہ ریمارک سابق وزیر فینانس یشونت سنہا کی جانب سے نکالے گئے گاندھی شانتی یاترا کے موقع پر کئے۔ یشونت سنہا نے این آر سی اور سی اے اے کے خلاف شانتی یاترا شروع کی ہے۔ یہاں گیٹ آف انڈیا سے شروع کردہ یاترا میں کئی اہم قائدین نے حصہ لیا۔ شردپوار نے کہاکہ حکومت نے اپنے طور پر آمریت پسندانہ پالیسیاں بناکر اپوزیشن کو نشانہ بنارہی ہے۔ جے این یو میں جو کچھ ہوا وہ آمریت پسندانہ حرکت سے تعبیر ہوتا ہے۔ شردپوار کے حوالے سے جاری کردہ پیام میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدم تشدد کے لئے گاندھی جی کے نظریہ پر عمل کرتے ہوئے حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کی جائے گی۔ مراٹھا کے مرد آہن نے تمام ہندوستانی شہریوں کو آزاد ہندوستان کے نمائندہ قرار دیا اور کہاکہ یہ تمام شہری آزاد ہندوستان کے شیر ہولڈرس ہیں۔ اُنھوں نے دعویٰ کیاکہ حکومت نے سی اے اے کی طرح اقدامات کرتے ہوئے ملک کے عوام کو مایوس کردیا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ سماج کا ایک بڑا طبقہ حکومت سے مایوس ہوچکا ہے اس لئے ملک بھر میں سی اے اے کے خلاف شدید احتجاج جاری ہے۔

سابق مرکزی وزیر نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مرکزی حکومت نے ہندوستانی مسلمانوں کے بشمول کئی طبقات کے مفادات کو نظرانداز کردیا ہے اور اقلیتوں کے بشمول سماج کے مختلف طبقات کے لئے حکومت کے متعدد اقدامات کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ سی اے اے کے ذریعہ حکومت ہندوستانی شہریوں کی حراساتی کیمپس میں تبدیل کرنا چاہتی ہے جس کو ناقابل قبول حرکت قرار دیا گیا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ملک کی معیشت کو درست سمت میں لے جانے کے لئے اقدامات کرے۔ کانگریس لیڈر ابھیشک دیشمک نے بھی آج یہاں کہاکہ حکومت کو چاہئے کہ وہ تمام قوانین کو واپس لے۔ اُنھوں نے یاترا میں حصہ لیتے ہوئے مودی حکومت پر تنقید کی اور حکومت مہاراشٹرا سے مطالبہ کیاکہ وہ بھی ان تمام وائس چانسلرس کو برطرف کردے جنھیں ریاست میں حکومت کی سرپرستی میں اہم عہدے دیئے گئے تھے۔