مساجد و مقدس مقامات نشانہ پر کیوں ؟

   

گزر آیا بہاروں سے خزاں سے
زمانہ بھی کہاں پہنچا کہاں سے
مساجد و مقدس مقامات نشانہ پر کیوں ؟
ملک میں یہ روایت بن گئی ہے کہ اکثر و بیشتر مذہبی اور نزاعی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے ان کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ملک کی کسی بھی ریاست میں یا قومی سطح پر جب انتخابات کا وقت قریب آتا ہے تو اس طرح کی کوششیں اور بھی تیز ہوجاتی ہیں۔ ویسے تو ہر موقع پر فرقہ وارانہ منافرت کو بھڑکانے اور اس کو ہوا دینے کی کوششیں تھم نہیں رہی ہیں اور یکے بعد دیگر مسائل کو اچھالا جا رہا ہے ۔ اس کا واحد مقصد یہی سمجھ میںآتا ہے کہ سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے ۔ جب کبھی کسی بھی ریاست میں اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں وہاںحالات کو بگاڑنے کی منظم کوششیں ہوتی ہیں۔ اشتعال انگیز بیان بازیاںکی جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے معاملے میں دو نظری کی جاتی ہے ۔ کچھ لوگوں کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے ۔ وہ چاہے کسی مذہب کے ماننے والوں کے نسلی صفائے کا بات کریں یا ہتھیاروں کے استعمال کی ترغیب دیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیںکی جاتی اور اگر کہیںکوئی کارروائی ہوتی بھی تو سخت دفعات کے تحت نہیں کی جاتی ۔ ا س کے برخلاف ایک مذہب فرقہ یا مذہب کے ماننے والوں کے خلاف معمولی باتوں پر بھی انتہائی سخت گیر دفعات کے تحت مقدمات درج کرکے کارروائیاںکی جاتی ہیں۔ کئی کئی مہینوں بلکہ برسوںضمانتوں کی فراہمی سے انکار کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح اب جبکہ ملک میں پارلیمانی انتخابات دستک دے رہے ہیں اور کسی بھی وقت ان کا اعلان ہوسکتا ہے ایسے میں ملک بھر میںانتہائی منظم انداز میں مساجد اور عبادتگاہوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایودھیا میںتعمیر ہوئی رام مندر کا 22 جنوری کو افتتاح ہوا تھا ۔ اس کے بعد متھرا کی شاہی عیدگاہ کے علاوہ گیان واپی مسجد کے تعلق سے منظم انداز میں مہم شروع کردی گئی ہے ۔دہلی میں ایک مسجد کو شہید کردیا گیا ہے ۔ ایک صوفی بزرگ کی درگاہ کو نشانہ بنانے کے منصوبوںپر عمل شروع کیا جاچکا ہے ۔ بات یہیں تک نہیںہے بلکہ مختلف شہروں میںیہ کام پوری شدت سے کیا جانے لگا ہے ۔
مساجد اور عبادتگاہیں چاہے کسی بھی مذہب کی ہوں وہ مقدس ہوا کرتی ہیں۔ ہندوستان میں جو دستور اور قانون ہے اس میں تمام مذاہب کو یکساں اور مساوی حقوق دئے گئے ہیں۔ ہر مذہب کا مساوی احترام کیا جانا چاہئے ۔ کسی بھی فرقہ کو کسی بھی دوسرے فرقہ یا مذہب کی عبادت گاہ یا مقدس مقامات کو نشانہ بنانے کی اجازت ہرگز نہیں ہے ۔ اس کے باوجود مختلف طریقوں اور بہانوں سے مسلمانوں کی مساجد اور درگاہوں اور دیگر مقدس مقامات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ یہ تاثر اب عام ہونے لگا ہے کہ ان ساری کارروائیوںاور کوششوں کے پس پردہ سرکاری اور حکومتی عزائم ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے مسائل کو ہوا دینے والوں اور اس کے ذریعہ سماج میں نفرت کا زہر گھولنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے ۔ ملک میں ایک قانون بناتے ہوئے تمام عبادتگاہوں کے 15اگسٹ 1947کے موقف کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ اس کے باوجود مختلف عدالتوں میں اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقدمات چلائے جا رہے ہیں اور ان سارے مقدمات میںمساجد اور دیگر عبادتگاہوں ہی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ پارلیمنٹ میںمنظور کئے گئے قانون کا کوئی پاس و لحاظ ہی نہیں رہ گیا ہے ۔ قانون بنانے والے خود ایسا لگتا ہے کہ اس قانون کو ت سلیم کرنے تیار نہیں ہیں اور اس کے خلاف مقدمات کی عدالتوں میں سماعتیں کروائی جا رہی ہیں۔ یہ ایک قابل فکر مسئلہ ہے اور پر ہر سنجیدہ فکر گوشے کو غور کرنے اور آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ۔
انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور اقتدار حاصل کرنے یا اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مذہبی مسائل کے استحصال اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوششوں کو فوری ترک کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسا کرنے والوں کے خلاف عوام کو بھی اپنی رائے کا اظہار کرنی چاہئے ۔ اپنے ووٹ کے ذریعہ اس طرح کی کوششوں کو مسترد کرنے اور اپنا احتجاج درج کروانے کی ضرورت ہے ۔ عوام اور ملک کو درپیش مسائل پر توجہ دینے اور ملک کی ترقی کو یقینی بنانے والی جماعتوں اور نمائندوں کو منتخب کرتے ہوئے اپنے مستقبل کو روشن اور تابناک بنانا چاہئے ۔ مذہبی مسائل میں الجھانے والوں سے ترقی ممکن نہیں ہوسکتی ۔