مسجد کمبل پوش میں مصلیوں کو جمع کرنے تختی سے دعوت

   

غیر مسلم آبادی کی مسجد میں نماز پنچگانہ کے باوجود مصلیوں کی قلت
حیدرآباد۔20 جنوری(سیاست نیوز) شہر میں بابری مسجد کو آباد کرنے کا جذبہ لئے کئی نوجوان موجود ہیں اور کئی ایسے دل بھی ہیں جو غیر آباد مساجد کیلئے تڑپتے ہیں لیکن شہر حیدرآباد کے پرانے شہر کے علاقہ چھتری ناکہ میں ایک ایسی مسجد بھی ہے جہاں مسجد میں اذاں کے بعد مصلیوں کو جمع کرنے کیلئے مسجد کے باہر بورڈ لیکر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ پرانے شہر کے علاقہ میں موجود جامع مسجد کمبل پوش جو کہ غیر مسلم آبادی میں ہے تاہم جس سڑک پر ہے اس سڑک سے کئی مسلمانوں کا گذر ہوتا ہے مگر اس کے باوجود اس مسجد میں مصلیوں کی قلت ہوتی ہے اور نماز کی باجماعت ادائیگی کیلئے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی لئے مسجد کے باہر اذاں کے ساتھ ہی جناب محمد یونس ایک بورڈ لیکر کھڑے ہوجاتے ہیں جس پر لکھا ہوتا ہے کہ ’نماز کا وقت‘ اس بورڈ کو لیکر کھڑے ہونے کا مقصد مسجد میں مصلیوں کو جمع کرنا ہوتا ہے تاکہ با جماعت نماز کی ادائیگی کو یقینی بنایا جاسکے اور مسجد کو آباد رکھا جا سکے ۔ مسجد کمبل پوش چھتری ناکہ کوئی غیر آباد علاقہ کی مسجد نہیں ہے اور نہ ہی اس مسجد میں نماز فجر کا مسئلہ ہے بلکہ اس مسجد میں نمازیوں کو دعوت دینا روزانہ 5 وقت کا مسئلہ ہے اور یہ خدمات جناب محمد یونس انجام دے رہے ہیں۔ شہر حیدرآباد میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مقفل ہوئی اس مسجد کو چند برس قبل شہر حیدرآباد کے چند دردمند دل رکھنے والے نوجوانو ںنے مقامی اکثریتی طبقہ کے سیکولر افراد کی مدد سے آباد کیا تھا لیکن چند ماہ بعد مصلیوں کے نہ ہونے کے سبب دوبارہ اس مسجد کو مقفل کردیا گیا تھا لیکن دو برس قبل دوبارہ اس مسجد کو آباد کیا گیا اور مسجد میں اذاں کے باوجود مصلیوں کے نہ پہنچنے کے سبب بورڈ لیکر کھڑے ہوتے ہوئے مصلیوں کو جمع کرنے کا طریقۂ کار اختیار کیا گیا ہے۔ بتایاجاتاہے کہ اس عمل کے باوجود بھی بسا اوقات 4-5 مصلیوں کے ساتھ ہی جماعت ہوا کرتی ہے اور کبھی کبھی راستہ سے گذرنے والے 10-15مصلی جمع ہوجاتے ہیں۔ جناب محمد یونس کا کہناہے کہ وہ مسجد کی صفائی اور مسجد کو آباد رکھنے کی اپنی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کوشش صرف رضائے الہی کی خاطر کر رہے ہیں اس میں ان کا کوئی مفاد نہیں ہے ۔ راستہ سے گذرنے والے بعض اہل دل ان کی اس کوشش کو دیکھتے ہوئے ان سے دریافت بھی کرتے ہیں کہ وہ کیوں ایسا کر رہے ہیں اور جب صورتحال سے آگاہ ہوتے ہیں تو انہیں خوشی ہوتی ہے کہ کوئی تو ہے جو مسجد کو آباد رکھنے کی کوششوں کا حصہ بنا ہوا ہے لیکن یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ اس مصروف ترین سڑک سے گذرنے والوں میں 40 فیصد سے زائد مسلمان ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود مسجد میں جماعت بنانے کیلئے ہر نماز میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ شہر میں کئی ایسی مساجد بھی جہاں لوگ کئی کیلو میٹر کی مسافت طئے کر کے جاتے ہیں تاکہ نماز ادا کی جا سکے ۔ پرانے شہر کی اس آبادی میں موجود اس مسجد کو مستقل آباد کرنے کے لئے امت مسلمہ کو فکر کرنی چاہئے اور ملت اسلامیہ کا یہ المیہ ہے کہ کامیابی کی طرف دعوت دئے جانے کے باوجود وہ نہیں پہنچ پا رہی ہے اور اذاں کے ذریعہ کامیابی کی دعوت کے بعد بورڈ لگاتے ہوئے دی جانے والی دعوت کو بھی نظر انداز کر رہی ہے۔