مسلمانوں کیخلاف آر ایس ایس کے منصوبے

   

درد دل اور بڑھا جان پہ بن آئی ہے
کب تلک زخم کو سینے میں دبائے رکھوں
مسلمانوں کیخلاف آر ایس ایس کے منصوبے
نریندر مودی کی سیاسی بالادستی کو چیلنج کرنے والے عوام کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ 2014ء میں ووٹ دیکر اقتدار پر لانے والے عوام نے 2019ء میں پہلے سے زیادہ اکثریت کے ساتھ کامیاب بنایا تو بی جے پی قائدین سمیت ہندوتوا نظریہ کے حامل لوگوں کو یہ گمان ہوا کہ انہیں بھاری خط اعتماد حاصل ہوا ہے۔ لہٰذا وہ اب اپنی مرضی کے مالک بن گئے ہیں۔ اپنی مرضی سے قوانین لاکر ہندوستانیوں پر مسلط کرسکتے ہیں۔ نریندر مودی حکومت کی دوسری میعاد کے پہلے چار ماہ کے دوران جو کابینی فیصلہ یا سپریم کورٹ کے ذریعہ احکامات جاری کروائے گے ان تمام کے پس پردہ واحد مقصد ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔ مسلمان اور پاکستان دو ایسے نام ہیں جو ہندوتوا طاقتوں کو سیاسی قوت حاصل کرنے کیلئے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ہندوتوا نظریہ کے حامل افراد کی سیاست آشکار ہوگئی تو ہندو رائے دہندے بھی حیران ہوگئے کیونکہ شہریت ترمیمی قانون کے ذریعہ ہندوتوا بردار لوگوں نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی ہندوؤں کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگادیا تھا اور ہندوتوا نظریہ مسلم دشمن نظریہ بن کر نمایاں ہوا۔ جو کام نظریاتی ضرورت بن جائے تو عوام کو محسوس ہوجاتا ہیکہ سرزمین ہند کو مذہب میں بانٹ کر سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ عوام نے ان کے منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے جب سڑکوں پر جمع ہوکر احتجاج شروع کیا تو مودی حکومت اور اس کے نظریہ کو چیلنج کیا جانے لگا تو مودی حکومت ،کسی بات کا جواب دلیل سے دینے کی سکت نہیں رکھتی۔ ایسے میں بی جے پی قائدین نے منہ کھولنا شروع کیا۔ ان کے منہ جھاگ بھر کر اور اونچی آواز میں بول کر پوائنٹ اسکور کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مودی اور ان کے حامیوں کا اونچی آواز میں بولنا تو پھر بھی گوارا ہوسکتا ہے لیکن جب اونچی آواز میں صرف جھوٹ ہی جھوٹ ہوتو عوام چپ نہیں بیٹھ سکتے۔ عوام کے نزدیک بڑا آدمی یا بڑا حکمراں وہ ہوتا ہے جو اپنی غلطی تسلیم کرتا ہے اور اسے صحیح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مرکز کے تمام قائدین نے اس سلسلہ میں اپنی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہیں کیا نتیجہ میں عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ مودی نے اپنے ہندو قوم پرست ہونے کے تعلق سے کوئی بات خفیہ نہیں رکھی ہے۔ گذشتہ سال ہی انہوں نے اپنے ایجنڈہ کو روبہ عمل لانے کے کئی اقدامات کئے تھے لیکن سی اے اے فیصلہ ملک کے مفاد کو مزید ملیامیٹ کرے گا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی حیثیت سے ہندوستان کے عالمی تعارف کے سامنے نریندر مودی نے آمریت پسندی کی راہ اختیار کی اس کے بعد ملک میں سرمایہ کاری کا بہاؤ کم ہوگیا۔ مودی کامیاب تو ہونا چاہتے ہیں لیکن بگڑتی معیشت ان کے عزائم کو چکناچور کردے گی۔ سیاست کو مذہبی رنگ دینے کے جنون نے معیشت کی خرابیوں کی جانب توجہ دینے کا موقع ہی نہیں دیا۔ انہوں نے ہندوستانی روایتی بنچ کے ریمپ پر جھوٹ کی کیٹ ورک شروع کی ہے۔ وزیراعظم نے اپنی حکومت میں ملک کی معیشت کو مستحکم بتایا ہے۔ عوام کو سب کچھ دکھائی دے رہا ہیکہ ایک غیرمستحکم معیشت سے ملک کس سمت بدل جائے گا۔ ملک کے موجودہ حالات کا جسم سر تا پا داغ داغ ہوگیا ہے۔ شاہین باغ کا احتجاج سارے ملک تک پھیل رہا ہے۔ مسلمانوں نے احتجاج شروع کیا تھا لیکن اب اس میں دلت، سکھ، عیسائی الغرض سمجھدار ہندو بھی شامل ہورہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہیکہ اس احتجاج کے ذریعہ بڑی اصلاح لائی جانے والی ہے۔ مودی حکومت کی بڑی خرابی کے بعد نئے ہندوستان کا وجود ہونے والا ہے۔ ہندوستانی مسلمان اب تاریخ کا دوسرا باب شروع کریں گے۔ بی جے پی یا آر ایس ایس کی فکری آلودگی اس قدر بڑھ گئی ہیکہ ملک کو بچانے کیلئے سڑکوں پر جمع عوام ہی حکمراں طاقتوں کو سبق سکھائیں گے۔ جو سیاہ قانون لایا گیا ہے اس سے ہندوستان کے اتحاد و یکجہتی کو خطرہ ہے۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلباء اس کے خلاف ہیں اور احتجاجیوں کی تائید میں آنے والے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اب سی اے اے کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی درخواستیں داخل ہورہی ہیں۔ کیرالا حکومت اور پنجاب حکومت نے سی اے اے کے خلاف اسمبلی میں قرارداد بھی منظور کردیں ہیں۔ اب دیگر ریاستوں کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے۔ دستورہند کے سیکولر کردار کو بچانا ہر ہندوستانی شہری کا فرض ہے۔
چین کے ساتھ امریکہ کا بالآخر معاہدہ
عالمی مارکٹ میں چین کی بڑھتی رسائی کے درمیان امریکہ نے چین کے ساتھ تجارتی معاہدہ کیا ہے کیونکہ دونوں ممالک کو اپنے تجارتی مفادات بہت زیادہ عزیز ہیں۔ امریکہ میں آئندہ ماہ سے صدارتی انتخاب کیلئے انتخابی مہم کا آغاز ہوگا اس سے پہلے صدر ٹرمپ اپنے اوپر عائد الزامات کو صاف کریں گے۔ چین کے صدر ژی ژپنگ سے بات چیت کے بعد دونوں ممالک کے درمیان معاشی تصادم کی راہ ختم ہوجانی چاہئے۔ امریکہ ۔ چین تجارتی جنگ اختتام کو پہنچ چکی ہے لیکن دونوں ممالک کے تعلقات پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہیکہ دونوں کے درمیان یہ جھگڑا محض تجارت کا نہیں ہے بلکہ یہ اصل میں طاقت کی لڑائی ہے جس میں دو مختلف نقطہ نظریات کے حامل ملک قریب آتے ہیں۔ تجارتی معاہدہ کے باوجود اگر دونوں ممالک اپنی لڑائی کا دائرہ وسیع کرلیں تو بہت مسائل پیدا ہوں گے اور آنے والے وقت میں ان مسائل کو حل کرنا مشکل ہوجائے گا۔ امریکہ اور چین فی الحال دنیا میں ٹیکنالوجی کے حصول میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت بننا چاہتے ہیں۔ تجارت کے بعد دونوں ملکوں کا نشانہ وہ ٹیکنالوجی ہے جس پر کام کرتے ہوئے دونوں ممالک ٹیکنالوجی میں پیشرفت کرسکتے ہیں۔ اگر دونوں ممالک ٹیکنالوجی کے مسئلہ پر اپنی لڑائی کو ختم کرتے ہیں تو بھی دونوں ممالک کے درمیان کسی اور بات پر لڑائی ہوگی لیکن دونوں ملکوں کو اپنے تجارتی معاملت کی روشنی میں اس کشمکش کو ختم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔