مسلمان اور پولیس کی سوچ

   

خدا ہی حفاظت کرے تو کرے
سنا باغ کو باڑ کھانے لگی
مسلمان اور پولیس کی سوچ
ملک بھر میں مسلمانوں کو یہ شکایت لاحق رہتی ہے کہ پولیس کی جانب سے ان کے ساتھ متعصبانہ اور جانبدارانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ کئی موقعوں پر بے قصور مسلم نوجوانوں کو کئی برسوں تک جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ ان نوجوانوں کا کیرئیر اور زندگی کے کئی قیمتی سال ضائع کردئے گئے اور بالآخر ان کو عدالتوں سے براء ت مل گئی ۔ تاہم جب تک عدالتوں کا فیصلہ آتا اس وقت تک سینکڑوں نوجوان ایسے ہیں جن کی زندگیاں تلف ہوگئیں اور وہ اپنے کیرئیر سے محروم کردئے گئے ۔ ان کے تعلق سے عدالت کا فیصلہ آنے سے قبل سماج میں جو رائے پیدا ہوتی ہے وہ الگ انہیں معمول کے مطابق زندگی گذارنے سے روکتی ہے اور سماج انہیں اپنے سے دور کردیتا ہے ۔ اب ایک رپورٹ جو سامنے آئی ہے اس کے مطابق یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ پولیس فورس کے تقریبا 50 فیصد عملہ میں یہ تاثر پہلے سے پایا جاتا ہے کہ مسلمان مائل بہ جرم رہتے ہیں۔ یہ قبل از وقت بنی ہوئی ذہنیت ہے اور اسی کی وجہ سے مسلمانوں کے تعلق سے پولیس کا رویہ متعصبانہ اور جانبدارانہ ہوتا ہے ۔ معمولی سے واقعات میں بھی نوجوانوں کو سنگین مقدمات میں ماخوذ کردینا عام بات ہوتی جا رہی ہے اور جن جرائم کا ان نوجوانوں نے ارتکاب کیا ہی نہیں ان کو بھی ان نوجوانوں پر تھوپتے ہوئے انہیںعدالتوںاور جیلوں کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا جا رہا ہے ۔ جہاں تک پولیس فورس کی بات ہے اس سلسلہ میں کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں میں جو شکایت عام تھا وہ بیجا نہیں تھی ۔ اب واضح ہوچکا ہے کہ پولیس کی ذہنیت ہی یہ بنی ہوئی ہے کہ مسلمان جرائم کے ارتکاب کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ یہی ذہنیت کی وجہ سے پولیس فورس میںمسلمانوں کے تئیں ایک غلط تاثر پایا جاتا ہے اور پولیس فورس خود کو اس تاثر سے دور کرنے کیلئے بھی تیار نظر نہیں آتی ۔ پہلے سے ایک شبیہہ مسلمانوں کی بگاڑ دی گئی ہے اور اس کو پولیس عملہ کے ذہنوں میں بٹھادیا گیا ہے اور بیشتر معاملات میں جانبدارانہ رویہ اسی تاثر اور سوچ کی وجہ سے ہے ۔ جب تک یہ تاثر دور نہیں کیا جائیگا اس وقت تک مسلمانوں کی شکایت کو ختم نہیں کیا جاسکے گا ۔
جہاں تک پولیس فورس کا سوال ہے اس کو درپیش حالات اور ثبوت و شواہد کی بنیاد پر اور اپنی تحقیقات کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کرنی ہوتی ہے ۔ اگر پولیس فورس کسی بھی معاملہ میں ‘ چاہے ملزم کوئی بھی ہو ‘ قبل از وقت ایک تاثر تیار کرلیتی ہے اور ایک رائے بنا لیتی ہے تو پھر تحقیقات کا عمل غیر جانبدار نہیں ہوسکتا اور جب تک تحقیقات غیر جانبدار نہیں ہوتیں اس وقت تک خاطیوں کو اور جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو عدالتوں میں کیفر کردار تک پہونچانے میں مدد نہیں ملتی ۔ پولیس فورس کے اسی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی وجہ سے مقدمات میں سزائیں دلانے کا تناسب تشویشناک حد تک کم ہے ۔ جہاں ہم سماج پر نظر ڈالتے ہیں تو جرائم کی شرح میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہی درج کیا جا رہا ہے اس کے باوجود سزائیں دلانے کے معاملہ میں جو تناسب ہے وہ کم ہوتا جا رہا ہے ۔اس میں دوباتیں قابل غور ہیں کہ ایک طرف تو پولیس کی جانب سے قبل از وقت ایک رائے قائم کرتے ہوئے اسی کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اس میں پولیس فورس کو کوئی ثبوت ہاتھ نہیں آتا اسی لئے سزائیں دلانے میں کامیابی نہیں ملتی ۔ دوسری جانب تحقیقاتی عمل میں پوری دیانتداری اور پیشہ ورانہ مہارت سے کام نہیں لیا جاتا اور اس کے نتیجہ میں بھی تحقیقات کو ان کے منطقی انجام تک پہونچانے میں مدد نہیں مل پا رہی ہے ۔
پولیس کو اپنے فرائض کی انجام دہی اور جرائم کی شرح پر قابو پا نے اور جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزائیں دلانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ خالی الذہن ہو کر کسی بھی معاملہ کی تحقیقات کرے ۔ قبل از وقت کوئی رائے قائم کرنے کی بجائے حقائق کی بنیاد پر اور واقعات کو سمجھتے ہوئے تحقیقات کے رخ کا تعین کرنے کی کوشش کرے تاکہ خاطیوں کو حقیقی معنوں میں کیفر کردار تک پہونچانے میں مدد مل سکے ۔ اگرا یک سوچی سمجھی ذہنیت کے ساتھ پہلے سے طئے شدہ ذہنیت کے ساتھ کام کیا جائے گا تو یہ بات طئے ہے کہ نہ جرائم کی شرح میں کمی آئے گی اور نہ خاطیوں کو سزا مل پائے گی کیونکہ خاطی جرم کرکے بھی سزا سے بچ جاتا ہے تو اس کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں اور وہ مزید غیر قانونی سرگرمیوں کیلئے تیار ہوجاتا ہے ۔