مسلم لڑکیوں کی بے راہ روی وارتداد۔لمحہ فکر

   

اردو،انگریزی اخبارات میں بکثرت ایسے واقعات شائع ہورہے ہیں جس میں مسلم لڑکیاں غیرمسلم لڑکوں کے عشق ومحبت میں گرفتارہوکرنہ صرف اپنی عفت وعصمت لٹارہی ہیں بلکہ اپنے دین وایمان کا بھی سودا کررہی ہیں،آج سے پچیس تیس سال قبل کا مسلم سماج ایسے بے حیائی کے واقعات سے پاک تھا۔لیکن مسلم سماج کی دین سے دوری نے الحادوبے دینی کوفروغ دینے میں بڑارول ادا کیا ہے، الکٹرانک میڈیا وپرنٹ میڈیاسے اکثریہ بات دہرائی جارہی ہے کہ انتہاء پسندکٹرہندوتواکے حامی لیڈرس غیرمسلم لڑکوں کوباضابطہ تربیت دے رہے ہیں کہ وہ مسلم لڑکیوں کواپنے دام فریب میں پھنسائیں اورایسے غیر مسلم لڑکوں کوانعام واکرام سے نوازاجارہاہے،مسلم لڑکیاں جومخلوط نظام تعلیم یا مخلوط نظام ملازمت پرمبنی اداروں سے وابستہ ہیں وہ بہت جلدان کے جھانسے میں آجاتی ہیں۔ایسے ناخوشگوارکچھ واقعات مسلم وغیرمسلم ملی جلی بستیوں میں رہائش کی بنا ،کچھ واقعات اپنے گھرسے تعلیمی یا ملازمتی اداروں تک سفرکے دوران اورکچھ واقعات مذکورہ مخلوط اداروں میں تعلیم یا ملازمت کی وجہ پیش آرہے ہیں۔

مسلم سماج کے بعض مذہبی وسماجی رہنمائوں کا مانناہے کہ مسلم سماج میں گھوڑے، جوڑے، لین دین کا غیر اسلامی چلن اس کی وجہ ہے،کسی نہ کسی درجہ میں یہ بات قابل تسلیم ہے ،تاہم اس کو کلی وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا،اس میں اوربھی بہت سے عوامل ہیں جن سے صرف نظرنہیں کیا جاسکتا،ان میں بنیادی وجہ اسلامی احکام سے انحراف ہے ،نئی نسل ایسے ماحول میں پرورش پارہی ہے جو غیردیندارانہ وملحدانہ ہے۔تعلیم وتربیت کا انتظام ا یسی درسگاہوں میں ہے جوبالکلیہ غیراسلامی بلکہ اسلام دشمن ہیں،مشنری اسکولس وکالجسس میں عقیدئہ تثلیث (اللہ سبحانہ،حضرت عیسی اوربی بی مریم علیہما السلام کے خداہونے) کی تعلیم ہوتی ہے،اوراسی مشرکانہ عقیدہ پرنسل نوپروان چڑھتی ہے ،بعض ریاستوں میں ہندو دیوی دیوتائوں کی پرستش کروائی جاتی ہے ،مذہبی اشلوک بھی پڑھائے جاتے ہیں ۔ ’’وندے ماترم ‘‘جیسا شرکیہ ترانہ زروزبردستی پڑھا یاجاتا ہے ،’’بھارت ماتا کی جئے‘‘جیسا شرکیہ نعرہ لگانے پرمجبورکیا جاتاہے۔ گھریلودینی عدم تربیت و دینی شعورکے فقدان کی وجہ کچھ مسلم لڑکے ،لڑکیاں اس غیر دینی فکرمیں ڈھل رہے ہیں ۔ گھریلودینی ماحول اوربڑے بزرگوں کی صحبت کی وجہ دین وایمان کی حفاظت اوراس پراستقامت پہلے آسان تھی ،اسلامی ماحول پرمبنی مدارس وجامعات اس کومزید جلا بخشتے تھے،لیکن موجودہ دورکا المیہ یہ ہے کہ گھروں سے دینداری رخصت ہے،ماں باپ اورگھرکے بڑے بزرگوں ہی کودین وایمان اوراس کے تقاضوںسے کوئی شناسائی ہے نہ ہی اس کی کوئی پرواہ ہے، ایمان واسلام،اسلامی اخلاق وکردار،رواداری و شرافت، تہذیب وثقافت سے مسلم سماج ناآشنا ہوتا جارہا ہے۔جب اس کے نتائج سامنے آتے ہیں تب وہ خواب غفلت سے بیدارہوتے ہیں،اصلاح کی کوئی تدبیرکرنے کی توفیق اس وقت ملتی ہے جب پانی سرسے اونچاہوچکا ہوتاہے ،عفت وعصمت جیسے قیمتی جوہرکے لٹ جانے اوردین وایمان جیسی عظیم وقیمتی متاع کے کھوجانے کے بعد ہوش آئے تو اس کا کیا فائدہ ۔مجموعی طورپرمسلم سماج نے مادی ترقی کی دوڑمیں آگے نکلتے نکلتے اسلام کے بنیادی احکام اور حیاء وحجاب کو خیربادکہدیا ہے ،شادی بیاہ کی تقاریب بھی بے حیائی کے مناظرپیش کررہی ہیں،جوان لڑکیوں کی تعلیم گاہوں کا لباس حیاء باختہ ہے،

عام حالات میں بھی شارٹ اسکرٹس یاچست ٹی شٹ، جنس پینٹ اکثرلڑکیوں کا پسندیدہ لباس بن گیاہے،دوپٹہ۔ اوڑھنی اورسترپوش چادر وغیرہ توکبھی کے ہواہوچکے ہیں ،اسلام دشمن طاقتوں نے پردہ وحجاب کودقیانوسیت کی علامت قراردیدیاہے،آہستہ آہستہ مسلم سماج نے اس کے زیراثراس(پردہ وحجاب)سے چھٹکارہ حاصل کرلیا ہے۔ ٹی وی،اسمارٹ فون وغیرہ کے غلط استعمال نے رہی سہی کسرپوری کردی ہے،ان سارے عوامل کونظراندازکرکے صرف گھوڑے جوڑے،لین دین وغیرہ جیسی سماجی خرافات ہی کو غیرمسلم لڑکوں سے مسلم لڑکیوں کے روابط کی وجہ قراردینا محل نظرہے۔اس کا ہرگزیہ مطلب نہیں ہے کہ شادی بیاہ کے عنوان سے مسلم سماج میں رائج رسوم ورواجات کی حوصلہ افزائی مقصودہے،بلکہ صرف اسی کومسلم لڑکیوں کے ارتدادکی وجہ قراردینا حقائق سے چشم پوشی کرناہے۔جائزراہ سے صنفی تعلق انسان کی بنیادی ضرورت ہے،اوراسلام نے نکاح کے ذریعہ انسان کی اس فطری ضرورت کا سامان کیاہے،لڑکے ہوں یا لڑکیاں سن بلوغ کوپہنچ جائیں تو ان کے نکاح کرادینے کی ذمہ داری والدین اورخاندان کے بزرگوں پرعائدہوتی ہے، حدیث شریف میں واردہے’’جب وہ(اولاد) بالغ ہوجائے اوران کا نکاح نہ کیا جائے جس کی وجہ وہ گناہ میں مبتلاء ہوںتو اس کا گناہ ان کے والدکوہوگا‘‘(بیہقی:۸۶۶۶) اور فرمایا ’’تین چیزوں میں تاخیرمت کرو،نمازجب اس کا وقت ہوجائے،جنازہ جب حاضرہوجائے، اورغیرشادی شدہ کیلئے جب کفویعنی برابری کا رشتہ آجائے‘‘(ترمذی:۱۵۶)’’جب تمہارے پاس ایسے لڑکے کارشتہ آئے جس کے اخلاق اوردینداری پسند یدہ ہوںتواس رشتہ کو قبول کرلوورنہ زمین میں فتنہ و فسادبرپا ہوجائے گا‘‘ (ترمذی:۱۰۸۴)اس لئے نکاح میں اعلی تعلیم یا مادی وسائل کی تحصیل وغیرہ جیسے امورکووجہ بناکر ہرگز تاخیرنہیں کرنی چاہیے۔ خاص طورپرجب لڑکیاں زیرتعلیم ہوں اورکوئی عمدہ ، دیندار اور کفووالا رشتہ آجائے تو اس کوقبول کرلینا چاہیے،اعلی تعلیم اورمادی وسائل تعیش کی فکر گویا ایک طرح سے جنون کی شکل اختیارکرلی ہے ،لڑکیاں سن بلوغ کی حدکوپارکرکے دس پندرہ سال گزاردیتی ہیں پھرتعلیم ہویا ملازمت وہ بھی مخلوط اداروں میں ،نتیجہ ظاہرہے جو اس وقت مسلم سماج لڑکیوں کے غیرمسلموں سے ناجائزروابط اوربعض واقعات میں ارتدادجیسے ناقابل معافی جرم وگناہ کا خمیازہ بھگت رہاہے۔بلوغ کے فوری بعدنکاح کا انتظام جہاں عفت وعصمت کا ضامن ہے وہیں اس سے معاشرہ کی پاکیزگی برقراررہتی ہے، زمانہ جس برق رفتاری کے ساتھ ترقی کی راہ پرگامزن ہے اورخیرالقرون سے دوری بڑھتی جارہی ہے اسی تیزی کے ساتھ اسلامی ماحول ،دیندارانہ اوصاف ،مذہبی شناخت اورملی تشخص رخصت ہو تے جارہے ہیں۔سربراہان خاندان کی دین سے دوری ،مغربی تہذیب وکلچرسے لگائو اورغیر دیندارانہ حال وماحول نے نسل نو کامغربی تہذیب وثقافت سے رشتہ استوارکردیاہے۔

رشتہ نکاح کے سلسلہ میں اب دینداری قابل ترجیح نہیں رہی ہے بلکہ مادی تعیشات ، راحت افزااسباب حیات جیسے اعلی سہولیات پر مبنی رہائش گاہ،عمدہ سواری،بنک بیلنس،پرکشش مشاہرہ والی ملازمت یا منافع بخش تجارت وکاروبار اورسماجی اسٹیٹس وغیرہ قابل ترجیح قرارپاگئے ہیں۔ لڑکی والے جب لڑکے میں ان مادی خوبیوں کی تلاش کرتے ہیں تولڑکے والے بھی لڑکیوں اوران کے والدین سے ا یسی ہی کچھ توقعات وابستہ کرلیتے ہیں،اول توہرکوئی حسن وجمال کا متلاشی ہے،حسن سیرت پیش نظرنہیںہے،دینداری ،اعلی اخلاق ، اسلامی اقدار،امورخانہ داری وغیرہ میں مہارت جیسی اہم باتیں غیراہم وقابل نظرانداز بن گئی ہیں۔ ثانیا گھوڑے ،جوڑے ،عمدہ وقیمتی سامان جہیز ،اعلی شادی خانہ کا نظم،لوازمات سے بھرپورطعام کا انتظام، شادی خانہ وشہ نشین کی خوبصورت ودیدہ زیب سجاوٹ وغیرہ جیسے مطالبات سامنے آتے ہیں اورلڑکی والے بھی لڑکے اورلڑکے والوں کی مالی پوزیشن و سماجی حیثیت سے مرعوب ہوکران کے ہرمطالبہ کوقبول کرلیتے ہیں اوربعض ایسے نادان بھی دیکھے گئے ہیں جوان کے مطالبات سے کہیں زیادہ کی تکمیل برضاورغبت کررہے ہیں اوریہ سب کچھ نام ونمود، شہرت، فخرومباہات کے اظہار اوراپنی حیثیت وپوزیشن کواونچا دکھانے کی غرض سے کیا جارہاہے ۔ مصنوعی وعارضی تعیش اس قدرعزیزہوگیاہے کہ اسلامی احکام واقدارنگاہوں سے اوجھل ہوگئے ہیں، بروقت وبرمحل نکاح نہ ہونا بھی ایک وجہ ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ بعض نوجوان لڑکے لڑکیوں کے گناہوں میں مبتلاء ہو نے کے خطرات بڑھ گئے ہیں یا رشتہ نکاح کے قیام میں جائزوناجائزکی پرواہ کئے بغیرباطل مذاہب کے پیروکاروں سے رشتہ استوار ہورہے ہیں۔مغربی تہذیب کے پروردہ گان کیلئے تویہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے،جدیدخلاف اسلام تہذیب وثقافت نے ان کے دل ودماغ پرقبضہ جمالیاہے،اس کوذہنی وسعت فکرکا نام دیدیا گیا ہے، مسلم گھرانے میں ضرور پیدا ہوگئے ہیں لیکن اسلام سے ان کا صرف برائے نام تعلق رہ گیا ہے، ہندوستان میں بعض ایسے نامی گرامی خاندان ہیں جہاں بیوی غیرمسلم ہے توکہیں شوہرغیرمسلم ، کہیں بہوغیرمسلم ہے توکہیں داماد غیرمسلم ۔یہ توجمہوری ملکوں کا حال ہے مسلم ممالک بھی اس (ارتداد)کی زد سے محفوظ نہیں ہیں چنانچہ سعودی عربیہ جواسلام کا مبداء ومرکزہے وہاں کی ایک لڑکی ارتدادکی وجہ اس وقت اخبارات کی سرخیوں میں ہے ، العیاذباللہ،دشمنان اسلام ہیں کہ اس کوتحفظ فراہم کرنے میں سبقت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔سیدناعلی کرم اللہ وجہہ ورضی اللہ عنہ سے مروی ہے ’’اندیشہ ہے لوگوں پرایک زمانہ ایسا بھی آئے گا ،اسلام کے نام سے ان کے پاس نام کے سوا کچھ نہیں رہے گا،اورقرآن سے ان کے ہاں اس کے الفاظ وحروف کے سوا کچھ نہیں بچے گا‘‘ (شعب الایمان:۲۷۶)
البتہ جن کوایمان عزیزہے خواہ وہ سماجی حیثیت سے کسی رتبہ ومرتبہ کے ہوں ان کیلئے لمحہ فکر ہے، کیا خواب غفلت سے بیدارہونے کا وقت اب بھی نہیں آیا ہے؟دین وایمان اوراسکے تقاضوں کی تکمیل اورحیاء وحجاب،ساترانہ لباس کی پابندی اب بھی اختیارنہیں کی جانی چاہیے؟لڑکے اور خاص طورپرلڑکیوں کی اعلی تعلیم کی فکرکی وجہ ان کے نکاح کے بروقت انتظام سے کیا اب بھی غفلت برتی جائے؟ مخلوط نظام تعلیم اورمخلوط نظام ملازمت سے کیا اب بھی کنارہ کش نہیں ہونا چاہیے؟