مسلم پرسنل لا بورڈاور ہماری ذمہ داریاں/از قلم:مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

,

   

’’راقم الحروف نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ۲۸؍ویں عمومی اجلاس میں ارکان بورڈ کی طرف سے اس حقیر کو صدر منتخب کرنے کے بعد زبانی جو باتیں کہیں اور پھر آخری نشست میں بورڈ کی طرف سے حاضرین کی خدمت میں جو پیغام پیش کیا، اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں بھی پیش کیا جاتا ہے‘‘ (رحمانی)
حمد وصلاۃ کے بعد!
ملک بھر سے آئے ہوئے معزز ارکان بورڈ اور مختلف تنظیموں کے مؤقر ذمہ داران!
اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ ناموافق سیاسی حالات کے باوجود آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا اٹھائیسواں اجلاس پایۂ تکمیل کو پہنچا، بورڈ کی سابقہ روایات کے مطابق اتحاد فکروعمل کے ساتھ عہدہ داران کا انتخاب عمل میں آیا اور آپ سب نے اپنی دانست میں کوشش کی کہ آزمودہ کار بہتر، باصلاحیت اور مفید افراد کو بورڈ کی ذمہ داریاں سپرد کی جائیں، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہ بورڈ کے لئے نیک فال ثابت ہوگا، اور زیادہ بہتر اور مؤثر طور پر بورڈ کے سارے کام انجام پائیں گے۔
محترمان من! بورڈ کی سب سے بڑی طاقت ہمارا اتحاد ہے، اللہ تعالیٰ نے اجتماعیت کے ساتھ اپنی مدد رکھی ہے: ید اللہ علی الجماعۃ (سنن ترمذی: ۲۱۶۷) بالخصوص جب ہم ایسے خطہ میں رہتے ہوں جہاں پورے اسلام کو ہدف بنایا جا رہا ہو، شریعت اسلامی سے امت کو محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہو، یہاں تک کہ پیغمبر اسلام جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی وامی) پر بھی انگلی اٹھانے کی ناپاک سعی کی جارہی ہو، مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کی مہم چل رہی ہو اور مسلم دشمنی میں من وتو کا کوئی امتیاز نہ ہو، تو ان حالات میں بھی اگر ہم نے اتحاد کا ثبوت نہیں دیا تو ہم اس ملک میں ایک با عزت قوم اور سر بلند امت کی طرح زندگی گزارنے سے محروم ہو جائیں گے۔
اسلام ایک زندہ وپائندہ دین ہے اور جہاں زندگی ہوتی ہے، وہاں اختلاف بھی ہوتا ہے؛ اس لئے بعض باتوں میں ضرور امت کے درمیان اختلاف رائے ہے؛ لیکن مسلمانوں کے درمیان متفقہ ومشترکہ باتیں ۹۵؍ فیصد سے بھی زیادہ ہیں اور جن امور میں اختلاف ہے، وہ دو تین فیصد سے زیادہ نہیں ہیں، ان حالات میں چند اختلافی نکات کو اپنی تقریر وتحریر کا محور بنا لینا اور ڈھیر ساری ان باتوں کو جن میں کوئی اختلاف نہیں ہے، نظر انداز کر دینا کسی بھی طرح مناسب نظر نہیں آتا، قرآن مجید نے برادران انسانیت کو بھی مشترکہ اقدار کی بنیاد پر جمع ہونے کی دعوت دی ہے: تعالوا إلی کلمۃ سواء بیننا وبینکم ألا نعبد إلا اللہ ولا نشرک بہ شیئا (آل عمران: ۶۴) تو کیا ہم برادران اسلام کے ساتھ اسی اصول پر کاندھے سے کاندھا اور قدم سے قدم ملا کر آگے نہیں بڑھ سکتے؟ کلمۂ طیبہ کی نسبت نیز وحدت کی اسی فکر پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی بنیاد ہے؛ اگرچہ بورڈ نے عائلی قوانین کے تحفظ کو اساس بناتے ہوئے ملت کی شیرازہ بندی کی ہے؛ لیکن یہ وحدت، ملت کے تمام مسائل میں کام آرہی ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ۱۹۷۲ء سے پہلے جن مسلکوں اور تنظیموں کے افراد کا ایک اسٹیج پر بیٹھنا بھی ناممکن سمجھا جاتا تھا، آج وہ ملت کے مختلف مسائل پر ایک ساتھ مل کر سوچتے ہیں، بیٹھتے ہیں اور بعض دفعہ عملی جدو جہد بھی کرتے ہیں، مستقبل میں بھی اسی طرح ہمیں ایک دوسرے کا اعتراف اور ایک دوسرے کے بزرگوں کا احترام کرتے ہوئے مل جل کر آگے بڑھنا چاہئے۔
حضرات! مسلم پرسنل لا صرف ہماری عملی زندگی کا حصہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے؛ کیوں کہ جو احکام قرآن مجید، حدیث متواتر اور امت کے اجماع واتفاق سے ثابت ہوں، وہ قطعیات میں شامل ہیں اور ان کا انکار ایک مسلمان کو دائرہ ایمان سے باہر نکال دیتاہے؛ اس لئے ہمیں اگلی نسلوں کے ایمان کے تحفظ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، صورت حال یہ ہے کہ اس وقت مسلمان ایک زبردست تہذیبی یلغار سے گزر رہے ہیں، ایک مخصوص کلچر ان پر مسلط کیا جا رہا ہے، جس میں مذہب اور تہذیب کو ہم آمیز کر دیا گیا ہے اور مشرکانہ رنگ کو غالب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،نیز اس کے لئے دو بہت ہی طاقتور ہتھیار استعمال کئے جا رہے ہیں، ایک: ’’میڈیا‘‘ دوسرے: ’’ تعلیم‘‘ میڈیا کے فتنے سے تو کسی قدر انفرادی کوششوں کے ذریعہ ہم اپنی نسل کو بچا سکتے ہیں؛ لیکن جدید تعلیمی پالیسی بے حد خطرناک ہے، جو پوری طرح سیکولرزم کی پٹری سے ہٹ گئی ہے، برادران وطن کے عقائد، ان کے مذہبی طور طریقے اور ان کے رسوم ورواجات کو بڑی ذہانت کے ساتھ تعلیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے، مسلمانوں کی تاریخ یا تو نکال دی گئی ہے یا بدل دی گئی ہے؛ اس لئے اندیشہ ہے کہ مستقبل میں ہمارے بچے خدا نخواستہ ایمان کی دولت سے محروم ہو جائیں، وہ اس احساس میں مبتلا ہو جائیں کہ ان کے آباء واجداد نے ملک وقوم کو کچھ نہیں دیا، وہ چور اور لٹیرے تھے، جنہوں نے یہاں کی دولت پر بھی قبضہ کر لیا اور عزت وآبرو بھی برباد کی، یہاں تک کہ دوسروں کے مقدس مقامات کو بھی نہیں چھوڑا، اور جب کوئی قوم اپنی تاریخ کے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتی ہے تو اس کو اپنی فکر سے منحرف کرنا دشوار نہیں ہوتا؛ اس لئے ضروری ہے کہ مسلمان اسلامی ماحول کے ساتھ زیادہ سے زیادہ عصری تعلیمی ادارے قائم کریں، جن میں بنیادی ضروری دینی تعلیم سے روشناس کیا جائے، سرکاری نصاب تعلیم میں ذکر کئے گئے جھوٹ سے پردہ اٹھایا جائے، اساتذہ کو تربیت دی جائے کہ وہ طلبہ کے سامنے سچائی کو پیش کریں اور سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والوں بچوں کے لئے ایسے مکتب قائم کئے جائیں، جن میں قرآن مجید کی تعلیم کے علاوہ اس زعفرانی نصاب کو سامنے رکھ کر ضروری باتوں کی وضاحت بھی کی جائے، ساتھ ہی ساتھ ملک کے دستور کے مغائر نافذ کی جانے والی جدید تعلیمی پالیسی کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کریں۔
حضرات! انسان ایک سماجی حیوان ہے، اس کو زندگی گزارنے کے لئے سماج کی ضرورت ہوتی ہے اور سماج صرف ایک مذہب کے ماننے والوں سے وجود میں آجائے، یہ ضروری نہیں، بہت سے دفعہ ملا جلا سماج ہوتا ہے، ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو خوشگوار رکھنا بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خصوصی توجہ دی، اس مقصد کے لئے مکہ مکرمہ میں حلف الفضول قائم کرنے میں اہم رول ادا کیا اور سورۂ کافرون کے ذریعہ سبھوں کو بقائے باہم کا پیغام دیا، اور مدنی زندگی میں یہود کے ساتھ بہتر تعلقات کے لئے میثاق مدینہ مرتب فرمایا اور اس پر سب کو جمع کیا۔
بھارت میں بھی ہم غیر مسلم اکثریت کے درمیان ہیں اور صدیوں سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہتے آئے ہیں، برادران وطن کی اکثریت صلح وامن کو پسند کرتی ہے، اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ رکھتی ہے، افسوس کہ جھوٹے پروپیگنڈوں سے متأثر ہو کر کچھ لوگ نفرت کی راہ پر چل پڑے ہیں؛ لیکن ان میں بھی زیادہ تر لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں، انہیں باور کرایا گیا ہے کہ اسلام ایک شدت پسند دین ہے، اور مسلمان ایک بے برداشت قوم ہیں، ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم برادران وطن کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کریں، اسلام کی کریمانہ تعلیمات اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت نواز ہدایات ان تک پہنچائیں اور اپنے اخلاق وکردار کے ذریعہ انہیں اسلام کی حقیقی تصویر دکھائیں، یہ وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے، اس کے بغیر ہمارے لئے اس ملک میں دین وایمان اور عزت وآبرو کے ساتھ رہنا دشوار ہوگا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ماحول میں ہم خیر امت کا فریضہ انجام نہیں دے سکیں گے، اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
محترم حضرات! اخیر میں عرض ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ بزرگوں کی مشترکہ امانت ہے، جس میں دیوبندی، بریلوی، حنفی، شافعی، سنی، شیعہ تمام بزرگوں کا خون جگر شامل ہے اور ملت اسلامیہ کی تمام تنظیموں نے اس شجر طوبیٰ کو آبیار کرنے میں اپنا حصہ ادا کیا ہے، اس کی حفاظت کرنا، اس کو آگے بڑھانا اور اس کو تقویت پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے، اگر ہم سے اس میں کوتاہی ہوئی اور خدا نخواستہ اس کی ساکھ متأثر ہوئی تو ہم اللہ تعالیٰ کے یہاں باز پُرس سے بچ نہیں سکیں گے اور حشر کے میدان میں نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو منھ دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے؛ اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ بورڈ کے کسی عہدے یا اس کی رکنیت کو صرف اعزاز نہ سمجھیں؛ بلکہ اپنے لئے ذمہ داری سمجھیں، بورڈ کا ہر رکن اپنے حلقۂ اثر میں اصلاح معاشرہ کا پروگرام کرے، خواتین کا اجتماع رکھے اور اس میں سماجی برائیوں اور خصوصاََ مسلمان لڑکیوں کے غیر مسلموں کے ساتھ جانے کے موضوع پر گفتگو کرے، ہر رکن اپنے حلقۂ اثر میں وکلاء ، میڈیا کے لوگوں، کالجوں اور یونیورسیٹیوںکے طلبہ وطالبات ، صحافیوں اور حسب موقع برادران وطن کے درمیان تفہیم شریعت کا پروگرام رکھے اور قانون شریعت کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرے، ہر رکن اپنے علاقہ میں دارالقضاء یا محکمۂ شرعیہ کے قیام کی فکر کرے، اپنے طور پر ازدواجی مسائل کو حل کرنے کے لئے کاؤنسلنگ سینٹر قائم کرے اور مسلمانوں کو عدالت جانے کے بجائے ان مراکز سے رجوع کرنے پر آمادہ کرے۔
راستہ ضرور دشوار ہے؛ لیکن کوئی دشواری نہیں جو حوصلہ مند مسافر کے قدم کو روک دے؛ اس لئے ہمیں ارادہ کرنا چاہئے کہ ہم اس ملک میں ہر قیمت پر اسلامی اقدار کے ساتھ ہی زندہ رہیں گے، شریعت اسلامی سے اپنا رشتہ استوار رکھیں گے،یقین کریں کہ اگر ہم ثابت قدم رہے تو ان شاء اللہ کوئی طاقت ہمارے قدموں کو تھام نہیں سکے گی اور نہ کوئی رکاوٹ ہمارے لئے سد راہ بن سکے گی۔
محترم حضرات! وہ وقت بھی کتنا عجیب اور وہ لمحہ بھی کتنا مسرور کن تھا، جب خالصۃََ شریعت اسلامی کے تحفظ کے لئے پورے ملک سے ملت اسلامیہ کے علماء، قائدین اور دانشوران ممبئی میں جمع ہوئے، جن میں ملک کے کونے کونے سے جواہر پارے اکٹھے تھے، جب فکر ونظر کی دوریاں اتنی بڑھی ہوئی تھیں، اور تنظیموں اور جماعتوں کے درمیان فاصلے اس قدر تھے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھنے کے روادار بھی نہیں تھے؛ لیکن اللہ نے ان دوریوں کو مٹا دیا تھا،آج یہاں دیوبند ی بھی تھے بریلوی بھی، سنی بھی تھے شیعہ بھی،بوہرہ بھی تھے سلیمانی بھی، مذہبی تنظیمیں بھی تھیں اور سیاسی جماعتیں بھی، ملک گیر تنظیمیں بھی اور علاقائی تنظیمیں بھی، ہر ایک کو جو چیز اپنے گھروں سے کھینچ کھینچ کر ممبئی لائی تھی، وہ تھا دین کے تحفظ کا جذبہ اور یہ احساس کہ جان ومال کی قربانی دی جا سکتی ہے؛ لیکن دین وشریعت کے ایک نقطہ سے دستبرداری گوارا نہیں کی جا سکتی۔
اس کے لئے ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس اتحاد کو قائم کرنے کے لئے ملک کے دو تین بڑے علماء ایک ایسے مؤقر عالم کی خدمت میں حاضر ہوئے جو آنے والے حضرات کو نظریاتی اعتبار سے دائرہ ایمان سے باہر تصور کرتے تھے، آنے والے حضرات ان کے یہاں اس جگہ جا کر بیٹھ گئے، جہاں چپلیں اتاری جاتی تھیں، ان بزرگ پر اس کا بڑا اثر ہوا، انھوں نے قریب بلایا اور اکرام کا معاملہ فرمایا، آنے والے وفد کے قائد نے عرض کیا: حضرت! ہم شریعت کی فریاد لے کر آئے ہیں؛ کیوں کہ شریعت باقی رہے گی تودیوبندی بھی رہیں گے اور بریلوی بھی، اور شریعت ختم ہوگئی تو نہ دیوبندبچے گا نہ بریلی؛ چنانچہ سخت اختلاف رائے کے باوجود انھوں نے شریعت کی اس تحریک میں شریک ہونے کو قبول فرما لیا۔
پھر جب ۱۹۷۳ء میں حیدرآباد میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی تو صورت حال یہ تھی کہ ہر حلقہ کی اعلیٰ ترین اور باصلاحیت شخصیتیں موجود تھیں، اور سوال تھا کہ کون اس نو تشکیل ادارہ کا سربراہ بنے گا؟ علماء دیوبند کے سرخیل حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے اس ذمہ داری کے لئے حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلویؒ کے خلیفہ اجل حضرت مولانا مفتی برہان الحق جبل پوریؒ کا نام پیش کیا اور مفتی صاحب نے حضرت قاری صاحبؒ کا نام پیش فرمایا، بالآخر قاری صاحب کے نام پر اتفاق ہوگیا، اس طرح ہمارے بزرگوں نے مسلمانوں کے اس اتحاد کی تشکیل کے لئے اپنی اَنا کو قربان کر کے کام کیا، اور دین کی نسبت کو مسلکی اختلاف سے اوپر رکھا، ہم سب کو بھی اسی طرح تحفظ شریعت کے اِس کارواں کو آگے بڑھانا چاہئے۔
حضرات! میں اس موقع پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مجھ سے پہلے بورڈ کی قیادت جن بزرگوں نے کی ہے، وہ علم وفضل، ورع وتقویٰ اور بصیرت کے اعتبار سے بہت بڑھے ہوئے تھے، ان کا اس عہدہ پر فائز ہونا استحقاق کی بنا پر تھا؛ لیکن مجھ سے اس ذمہ داری کا متعلق ہونا محض ایک اتفاق ہے؛ چوں کہ اب بڑے حضرات نہیں رہے تو ایک کوتاہ علم اور کوتاہ عمل شخصیت سے یہ ذمہ داری متعلق کر دی گئی؛ کیوں کہ عربی زبان کا محاورہ ہے کہ بڑوں کی موت چھوٹوں کو بھی بڑا بنا دیتی ہے، میرے انتخاب کی نوعیت یہی ہے؛ لیکن یہ ذمہ داری آپ ہی حضرات نے مجھ سے متعلق کی ہے؛ اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ بورڈ کو آپ کا بھرپور تعاون حاصل رہے گا، آپ لوگ دعاء فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ کی طرف سے حوالہ کی ہوئی اِس ذمہ داری کو صحیح طور پر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے، اپنی مرضیات پر قائم رکھے اور تکبر وریا سے بچائے۔