معراج النبی ؐایک بے مثال نعمت

   

مفتی رضاء الحق اشرفی مصباحی
سیرت نگاروں کی مشہور روایت کے مطابق ہجرت سے پہلے رجب کی ستائیسویں شب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت بیداری میں جسم و روح کے ساتھ معراج ہوئی۔ سفر معراج حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال معجزہ تھا۔ مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کی سیر، پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں کا سفر، پھر سدرۃ المنتہی اور وہاں سے لامکاں پہنچ کر حریم قدس تک رسائی۔ رب تبارک و تعالی کا دیدار و شرف ہمکلامی اور ملک و ملکوت کے عجائب اور آیات الہیہ کا مشاہدہ یہ سب کچھ ماتھے کی آنکھوں کا نظارہ تھا، کوئی خواب نہیں تھا۔
اللہ رب العزت نے فرمایا ’’پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے خاص الخاص بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک‘‘۔ اس مقدس سفر کا مقصد کیا تھا؟۔ اپنے محبوب بندے پر انعامات و نوازشات کی بارش برسانا تھا۔ انھیں اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھانی تھیں۔ خود رب کائنات نے فرمایا (یہ سیر ہم نے اس لئے کرائی) تاکہ ہم اپنے محبوب بندے کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔ یہ عقل انسانی کو حیران کردینے والا واقعہ تھا، کیونکہ یہ نبی کا معجزہ تھا اور معجزہ ہوتا ہی ہے غیر معمولی، جو عام انسانی عقل میں نہ آئے، جو عادی طورپر ظہور پزیر نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ غیر معمولی و غیر عادی واقعہ لوگوں کے لئے آزمائش کا سامان بن گیا۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا ’اے پیارے نبی! جو نظارہ ہم نے آپ کو دکھایا تھا، اسے لوگوں کے لئے ہم نے آزمائش کا سامان بنایا‘‘۔
صحیح بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا سفر معراج آنکھوں کا نظارہ تھا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح جن کے دلوں میں نور ایمان جگمگا رہا تھا، انھوں نے بلاتوقف اس غیر عادی واقعہ کو سچ مان لیا۔ وہ جانتے تھے کہ جو رسول زمین پر بیٹھ کر آسمان کی خبریں سناتے ہیں، فرشتوں کی باتیں سنتے ہیں، کاتبان تقدیر کے قلم کی سرسراہٹ سے جن کے کان آشنا ہوتے ہیں، جن کی انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ جو نبی مستقبل میں ہونے والے واقعات کی خبریں دیتے ہیں اور وہ حقیقت بن کر روز روشن کی طرح سامنے آتے ہیں۔ اشارہ کرتے ہیں تو درخت چلنے لگتے ہیں، حکم دیتے ہیں تو جانور اطاعت میں گردن جھکا دیتے ہیں۔ جن کی زبان سے کبھی جھوٹ کا ایک جملہ نہ نکلا، جو ہمیشہ صادق و امین کے خطاب سے یاد کئے جاتے ہیں، وہی اگر آج یہ کہہ رہے ہیں کہ میں رات کے ایک مختصر سے حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصی گیا، وہاں سے جاکر آسمانوں کی سیر کی، سدرۃ المنتہی پہنچا، پھر وہاں سے بلندیوں کی سیر کرتے ہوئے لامکاں تک پہنچا۔ پھر اپنے رب سے ہمکلام ہوا، وہاں کے عجائبات دیکھے۔ پھر وہاں سے مسجد حرام واپس آگیا تو اس خبر میں ہم ان پر جھوٹ کی تہمیت کیسے رکھیں؟۔ لیکن جن کے دلوں میں کفر کی تاریکی تھی، جن کی عقلوں پر ظلمت کے پردے تھے، وہ فتنہ میں پڑ گئے، وہ آزمائش میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ان مادہ پرستوں نے اس واقعہ کا انکار کیا، انھوں نے صرف انکار پر بس نہیں کیا، بلکہ ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ کوئی بھی اس خبر کو سچ نہ مانے۔چنانچہ انھوں نے اللہ کے پیارے رسول ﷺ کا طرح طرح سے امتحان لیا۔ لیکن نبی کریمﷺ نے جب اس میں کامیابی حاصل کرلی اور معاندین کے پاس اس خبر کو سچ نہ ماننے کا کوئی حیلہ نہیں رہا تو بھی وہ اس کی مخالفت سے باز نہ آئے اور الٹے استہزاء پر اتر آئے۔ معاندین اسلام اپنے ہمنواؤں کو واقعہ معراج کی حقانیت تسلیم کرنے سے روک سکتے تھے، لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ ان انعامات و نوازشات کو روک لیتے، جو اللہ تعالی نے اس مبارک سفر میں اپنے پیارے رسول کو عطا فرمایا اور آپ کے واسطے سے آپ کی امت کو عطا ہوئیں۔
معراج کے موقع پر رسول اکرم ﷺ کو جو انعامات و نوازشات الہیہ حاصل ہوئی تھیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں ان میں سے کچھ کو یہاں پر ہم درج کر رہے ہیں:
(۱) اس موقع پر آپ کے سینہ مبارک کو چاک کرکے فرشتوں نے آپ کے قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور اس میں ایمان و حکمت کے خزانے انڈیل دیئے۔(۲) آپ ﷺ کو قبلتین اور انبیاء سابقین کے امام بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ (۳) انبیاء کرام سے ملاقات اور ان سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا۔(۴) بکمال اعزاز و اکرام فرشتوں نے آپ کا استقبال کیا۔ (۵) عالم بالا کے عجائب کا مشاہدہ فرمایا۔(۶) رب تبارک و تعالی کے دیدار اور اس سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا۔
ان کے علاوہ کثیر انعامات سے آپ کو نوازا گیا، جن کا احاطہ کرنا اور بیان کرنا کسی انسان کی استطاعت سے باہر ہے۔ معراج کے واقعہ پر رسول اکرم ﷺکے واسطے سے آپ کی امت کو بھی انعامات سے نوازا گیا۔ ان نعمتوں میں سے تین نعمتیں بہت اہم ہیں (۱) سورہ بقرہ کی آخری آیات اس موقع پر آپ کو عطا کی گئیں۔ ان آیات میں تکمیل ایمان کے اصول اور رب تعالی سے عفو و مغفرت طلب کرنے اور عجز و نیاز پیش کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے (۲) امت مسلمہ کو معراج کا دوسرا خاص تحفہ یہ ملا ہے کہ اس کا کوئی بھی فرد اگر شرک نہیں کرتا تو اسے نجات ملے گی۔ وہ جہنم میں ہمیشہ کے لئے نہیں ڈالا جائے گا (۳) تیسرا خاص تحفہ نماز پنجگانہ کا ہے۔ یہ اتنا عظیم تحفہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس کو مؤمنوں کی معراج فرمایا ہے۔ اگر کوئی بندہ مؤمن نماز پنجگانہ کو ان کے تقاضوں کے ساتھ ادا کرتا ہے تو گویا وہ دن اور رات میں پانچ بار معراج کی سعادتوں سے ہمکنار ہوتا ہے۔
معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو رب تبارک وتعالی کا دیدار حاصل ہوا اور آپ نے رب تعالی کی بارگاہ سے اپنی امت کو نماز کی صورت میں ایسا تحفہ عطا فرمایا کہ بندہ کمال بندگی یعنی احسان کے ساتھ جب نماز ادا کرتا ہے تو رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے فرمان کے مطابق گویا وہ حالت نماز میں رب کا دیدار کرتا ہے۔ معراج میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رب تبارک و تعالی سے شرف ہمکلامی حاصل ہوا اور آپ نے اپنی امت کو نماز کی صورت میں ایسا تحفہ دیا کہ جب بندہ نماز پڑھتا ہے تو فرمان نبوی کے مطابق اس حال میں بندہ اپنے رب تعالی سے کلام کرتا ہے۔ وہ اپنے رب اکبر کی کبریائی، حمد و تعریف بیان کرنے کے بعد کہتا ہے ’’اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تیری ہی مدد چاہتے ہیں، ہمیں تو سیدھے راستے پر لے چل ، ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا ہے۔ ہمیں ان کے راستے پر نہ چلانا، جن پر تونے غضب نازل فرمایا ہے‘‘۔ حالت نماز میں بندے کو جب معراج حاصل ہو گئی تو اب احسان مندی اور شکر کا تقاضہ یہی ہے کہ بندہ اپنے اس محسن اعظم کو یاد کرے، جس کے توسط سے اس کو اتنی بڑی نعمت ملی ہے۔ لہذا اپنی معراج (نماز) کے اختتام پر بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں تحیات کی سوغات پیش کرتے ہوئے اپنے رسول کی بارگاہ میں سلام نیاز پیش کرتا ہے اور کہتا ہے ’’التحیات للّٰہ والصلوات والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہٗ‘‘۔ بلاشبہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے رب تعالی کی ایک بے مثال عظیم نعمت تھی اور آپ کے وسیلے سے امت مسلمہ کے لئے بھی عظیم و بے مثال نعمت ثابت ہوئی۔