معصوم طبع، شریف النفس اور وضع دار شخصیت : جسٹس ای اسماعیل پروفیسر مجید بیدار

   

سابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ ۔ حیدرآباد
ہر وقت مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ لوگوں کی دلجوئی کرنا اور دوسروں کے مذاق کا ذریعہ بن کر بھی کسی قسم کی ناراضگی سے پرہیز کرنے والی شخصیت کو والدین نے امین اسماعیل کے نام سے مدرسہ میں داخلہ دلوایا تھا۔ گوکہ ان کی ساخت پرداخت ایک تجارتی گھرانے میں ہوئی۔ ان کا تعلق کچی میمن گھرانے سے تھا‘ چنانچہ انہیں اپنے گھرانے پر بے انتہا فخر تھا۔ چنانچہ وہ کہا کرتے تھے کہ ہم کچی میمن گھرانے میں پیدا ہوئے تھے‘ جس گھرانے میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اُسی طرح کی جاتی تھی جس طرح آپؐ کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بلاشبہ مذہب پرستی اور انسانیت دوستی ان کی طبیعت کا خاصہ رہی۔ ساری عمر اسی جذبہ سے زندہ رہے اور ہر وقت فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی کمیونٹی بلکہ قوم کے دوسرے طبقوں کو بھی فیض پہنچانے کا کارنامہ انجام دیتے رہے۔ اگرچہ انہوں نے ڈسٹرکٹ جج کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور بیشتر معاملات میں مکمل طور پر انصاف کی ڈگر پر چلتے رہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ماں باپ کی تربیت اور مذہب پرستی نے ان کے مزاج کو انصاف پسند بنادیا تھا۔ جس کی وجہ سے زندگی کے ہر مرحلہ میں ہی نہیں‘ بلکہ قوم و ملت کے معاملات میں بھی حق پرستی اور ایمانداری کا ثبوت دینا ان کی فطرت میں داخل تھا۔ اگرچہ وہ تاجر پیشہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور عام طور پر تجارت پیشہ لوگوں میں سرمایہ کو اکٹھا کرنے اور اس پر فخر کرنے کا جذبہ ضرور شامل ہوتا ہے‘ لیکن بلاشبہ امین اسماعیل جو عرف عام میں جسٹس ای اسماعیل کے نام سے شہرت رکھتے تھے‘ انہیں سرمایہ جمع کرنے کی ہوس اور بے جا تعیشات سے وابستہ رہنے سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے بجائے عوام میں جسٹس اسماعیل کی حیثیت سے شہرت کے حامل قرار پائے ۔ مسلم طبقہ میں ہی نہیں‘ بلکہ دیگر طبقات اور مذاہب کے لوگوں میں بھی وہ یکساں طور پر مقبول اور قابل قدر انسانوں میں شمار کئے جاتے تھے۔حیدرآباد کی سرزمین میں وہ 5؍جنوری 1940ء کو پیدا ہوئے اور7 2؍جون 2022ء کو انہوں نے اپنا آخری سفر اختیار کیا۔
یہ ممکن ہے کہ جسٹس ای اسماعیل سے میری حیدرآباد میں ملاقاتیں رہی ہوں۔ لیکن یاد نہیں کہ کب ملاقات ہوئی تھی۔ سب سے پہلے 1997ء میں جامعہ عثمانیہ سے وابستگی کے بعد ڈاکٹر طیب انصاری نے بطور خاص اُن سے ملاقات کروائی۔ وہ عام طور پر طیب انصاری کے جلسوں میں شریک ہوتے اور اپنی فراست کی بنیاد پر اظہار خیال کرکے لوگوں کے دلوں کو موہ لیتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد میرے بچپن اور ہم جماعت ساتھی ڈاکٹر مخدوم محی الدین نے ان کے فلیٹ کے روبرو فلیٹ خریدا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب بھی ڈاکٹر مخدوم محی الدین سے ملاقات کے لئے رام کوٹ کے علاقہ میں ہما اپارٹمنٹ جانا ہوتا تو ضرور ای اسماعیل سے ملاقات ہوجاتی اگرچہ وہ عمر اور تجربہ میں ہم سے سینئر تھے اس کے باوجود ہم جیسے کم عمر اور تجربہ کی ڈگر سے گزرنے والوں سے بھی پوری دلجوئی کے ساتھ ملاقات کرتے اور اپنے تجربات کا اظہار کرکے نہ صرف کامیابیوں کی خصوصیات بیان کرتے‘ بلکہ ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو بھی نمائندگی دیتے رہتے تھے۔ جس سے اندازہ ہوتا کہ حضرت انسان پر قدرتی نعمتوں کے علاوہ دنیاوی ستم ظریفیوں کا وہ شکار رہے‘ لیکن ساری زندگی صبر و استقامت کے ساتھ گزاردی‘ جس کے ساتھ امت مسلمہ کو یہ سبق دیا کہ خدا نے انہیں اہم عہدہ پر فائز کیا تھا اس کے باوجود انہیں صبر و رضا کی زندگی بخشی تھی۔ جس کے ذریعہ انہیں اللہ تعالیٰ کی ہزارہا نعمتیں اور دنیا کی سہولتیں بھی حاصل ہوتی رہیں۔ اس کے باوجود متوازن زندگی گزارنا اور خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے جدوجہد جاری رکھنا ہی ان کی زندگی کا عظیم مقصدرہا۔ چنانچہ اس مقصد کے حاصل کرنے میں بلاشبہ جسٹس ای اسماعیل نے مکمل طور پر خدا اور رسولؐ کی خوشنودی حاصل کرنے میں زندگی گزاردی۔
یہ حقیقت ہے کہ جسٹس ای اسماعیل کے ساتھ ہمہ وقت سفر اور حضر میں شامل ہونے کا موقع ملتا رہا۔ نہ صرف ان کے گھر میں ہمطعامی کا شرف حاصل ہوا‘ بلکہ مختلف علاقوں کے دوروں کے درمیان ان کے ساتھ گفتگو اور معاملت کا موقع بھی فراہم ہوا۔ ان کی فراخ دلی اور لوگوں کے لئے اپنے دل میں محبت کا جذبہ خود یہ ثابت کرتا تھا کہ خدا پرست انسان میں جن نشانیوں کو اللہ تعالیٰ ودیعت کردیتا ہے وہ تمام نشانیاں ان کی فطرت کا خاصہ تھیں۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں ہی نہیں‘ بلکہ بیرونی ممالک کے دوروں کے موقعوں پر بھی وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ شریک سفر رہتے تھے۔ ان کے ناراض ہونے کا انداز بھی حددرجہ جداگانہ ہوتا تھا۔ محفل میں بیٹھے ہوئے اگر ناراض ہوجائیں تو محفل سے اٹھ کر چلے جاتے‘ پھر تھوڑی دیر بعد لوٹ کر آجاتے۔ جس سے احباب سمجھ لیتے تھے کہ کسی مرحلے پران کی ناراضگی بھی برقرار بھی رہ جائے تو لفظوں اور جملوں میں یا پھر عام طور پر مسلم طبقے میں جس انداز سے توتو میں میں ہوتی رہتی ہے‘ اس سے پرہیز کرتے تھے۔ بلاشبہ ان کی عملی زندگی کا رویہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرنے کا بہترین وسیلہ تھا۔ نمازوں کو قضا کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔ عام طور پر جلسوں میں بھی شامل ہوں تو معذرت خواہی کے بعد نماز ادا کرکے جلسہ میں شریک ہوجاتے تھے۔ کسی جلسہ کے انعقاد میں تاخیر ہوجائے اور نماز کا وقت قریب رہے تو پہلے نماز کی ادائیگی کو اہمیت دینا ہی ان کی فطرت کا حصہ تھا۔ اوٹی، پونا، دہلی اور دوسرے مقامات پر سفر کے دوران ان سے قربتیں حاصل ہوئیں۔ اسی طرح ہندوستان سے باہر بطور خاص اٹلی، فرانس، جرمنی اور سوئیزرلینڈ کے دورے کے موقع پر ان کا رویہ ہر وقت استقلال اور سمجھوتے کا ہوتا تھا۔ کیوں کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ کسی انسان کو پرکھنا ہو تو اس کے ساتھ سفر کرکے دیکھو یا پھر معاملات کا دائرہ وسیع کرکے دیکھا جائے۔ وہ امت کے کاموں اور ملت کے مرحلوں کے سلسلہ میں فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے اور باضابطہ ایسی انجمنوں اور اداروں کو امداد دیتے تھے جو قوم و ملت کی بھلائی کے لئے کام کررہے ہوں‘ اور فلاح کے دائرہ کو وسیع کرنے کا سلیقہ رکھتے ہوں۔ ایک دور تھا کہ حیدرآباد کی مختلف مذہبی اور ادبی انجمنوں کے سربراہ اور اپنی ذات سے متاثر کرنے میں ای اسماعیل پیش پیش رہے۔ حتیٰ کہ جب ان کو بیماری نے آگھیرا تو انہوں نے اپنی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیماری کو بھی خدا طرف سے ایک نعمت کی حیثیت سے قبول کیا۔ انہیں بیماری نے زائد تکلیف نہیں دی۔ کسی بھی وقت وہ اپنے تکلیف یا پریشانی کے اظہار سے پرہیز کرتے تھے۔
احباب کا مجمع جمع رکھنے سے پرہیز کرتے تھے۔ البتہ اہل علم اور اہل ہنر ہی نہیں بلکہ اہل مذہب کی خدمت کرنا اور ان کی قدر کرنا جسٹس ای اسماعیل کی فطرت میں شامل تھا۔ بیشتر اوقات میں وہ نہ صرف میرے تایہ زاد بھائی مفتی صادق محی الدین فہیم سے قربت رکھتے تھے بلکہ انتقال سے چند گھنٹے قبل بھی مفتی صاحب نے ان کے گھر پہنچ کر خیر و عافیت دریافت کی تھی۔ اگرچہ انہوں نے ساری زندگی عدالتوں اور فیصلوں میں گزار دی‘ لیکن طبیعت میں ادب دوستی اور مذہب پرستی کا جذبہ اس قدر شدید تھا کہ وہ نہ صرف ادبی محفلوں اور مشاعروں میں شریک ہوتے تھے‘ بلکہ سنگیت کی محفلوں میں غزل اور گیت سننے کو بھی اہمیت دیا کرتے تھے۔ زندگی کا بیشتر وقفہ مطالعہ میں گزرتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ اپنے مسلک کے اعتبار سے قرآن کی تلاوت اور رسول پاک کی اطاعت کو زندگی کا لازمہ بنانے والے انسان تھے۔ ہر مشاعرہ میں اگلی صفوں میں اور ادبی و مذہبی جلسوں کے علاوہ فنون لطیفہ کی محفلوں میں شریک ہوکر اپنی ادب دوستی کا ثبوت دیا کرتے تھے۔ ان کے احباب میں شیعہ اور سنی ہی نہیں‘ بلکہ اہل حدیث کے علاوہ جماعت اسلامی کے افراد بھی شامل رہے۔ انہوں نے پوری زندگی سیاسی قیادت سے دوری اختیار کی۔ اور کبھی کسی سیاسی قائد اور سماجی سرگرمیوں میں ملوث انسان سے مدد لینا یا حمایت حاصل کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ انہوں نے کبھی لاقانونیت یا قانون کی مخالفت کا طریقہ ا ختیار کیا ہو۔ اپنے پیشے سے ان کی محبت کا عالم یہ رہا کہ عہدہ سے سبکدوش ہونے کے کئی سال تک حکومت کی طرف سے پیشہ ورانہ سرگرمیوں کو انجام دینے میں پیش پیش رہے۔ بلکہ وظیفہ پر سبکدوشی کے بعد اقلیتی فینانس کارپوریشن نے مسلمانوں کے شرعی اور مذہبی مسائل کو حل کرنے کیلئے ان کی خدمات حاصل کیں۔ انہیں شعر و ادب اور ورثہ کی حفاظت کا بڑا شوق تھا۔ چنانچہ ادبی محفلوں اور مذہبی جلسوں میں شرکت کے ساتھ ساتھ سالار جنگ میوزیم میں ورثے کی حفاظت کے لئے منعقد کی جانے والی نشستوں میں بھی شریک ہوتے اور اپنے مشوروں سے کام کرنے والوں کو ہمت افزائی کیا کرتے تھے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے علم حاصل کرنے والے اور علم کو فروغ دینے والوں کے لئے ایسا جذبہ پیدا کردیا تھا کہ ان کی مدد کرنے کو اخلاقی فریضہ تصور کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں ہونہار طلباء و طالبات کے علاوہ پیشہ ورانہ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ ان کے تعلقات حد درجہ استوار تھے۔ بلاشبہ انہوں نے کسی وقت بھی اپنی اولادوں کو اپنے پیشہ کی طرف اور دنیاوی معاملات سے وابستہ کی طرف راغب نہیں کیا بلکہ اُسی رویہ کو ضروری سمجھا جو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ سلم کی سنتوں کا طریقہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی اولاد کو سنت نبویؐ کی طرف راغب کرکے تجارت کو اہمیت دی۔ جو بلاشبہ ان کی ذات میں مذہب سے دلچسپی کے جذبہ کی اہم خصوصیت اور عملی روش کی دلیل ہے۔ موسیقی اور ساز کی محفلوں میں بھی شریک ہوتے رہے۔ روزنامہ سیاست کی جانب سے اختیار کئے جانے والے طریقوں پر اپنی خوشنودی کا اظہار کرتے اور سیاست کی سرگرمیوں سے خود کو وابستہ رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ شاعر اور ادیب نہیں تھے لیکن علم دوستی کا حق ادا کرنے کے لئے جب اردو میں کتاب لکھی تو اس کی کتاب کی رسم اجراء جسٹس سبھاشنی ریڈی نے 19؍اگست 2017ء میں انجام دی تھی۔ جس میں پروفیسر مقبول فاروقی نے ان کی زندگی کا احاطہ کیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جو ذوق اور علمی شغف بزرگوں میں تھا‘ اس کی منتقلی آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ لیکن یہ بھی خوبی اہمیت کی حامل ہے کہ انہوں نے اپنی اولادوں کو ڈاکٹرس اور انجینئرس بنانے کے بجائے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کاربند رکھنے کی طرف توجہ دی‘ جو بلاشبہ ان کی مغفرت کا اہم ذریعہ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ جب موت کے فرشتہ نے حکم خداوندی سے آواز دی تو جسٹس ای اسماعیل نے لبیک کہہ کر اس خدائی تحفے کو قبول کیا اور اپنے ملنے جلنے والے، اہل خاندان اور دوست احباب کو سوگوار کرکے اس دنیا سے چلے گئے۔ لیکن ان کا عمل اور رویہ خود یہ ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے خوشگوار زندگی گزاری اور اپنی اولادوں کو دین و دنیا کی نعمتوں سے سرفراز کرنے کے لئے آبائی پیشہ یعنی تجارت کی طرف راغب کیا۔ جس سے خود ان کی خدا پرستی اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی تعمیل کا جذبہ ظاہر ہوتا ہے۔ غرض ایک شریف النفس شخص اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگیا۔ بندے ہونے کے ناطے ہمیں بھی یہی دعا کرنی چاہئے کہ اپنے دوست احباب کے حلقہ میں ایسی ہی شخصیتوں کو جنم دے اور دنیا داری کے بجائے خداپرستی کا طریقہ اختیار کرکے اس دنیا سے گزر جائیں تو احباب کو قلبی سکون حاصل ہو کہ ہمارے درمیان سے ایک اہم شخصیت گزر گئی ہے۔