معمولی آدمی کی شرح نمو سے متعلق معمولی پیش قیاسی

   

پی چدمبرم۔سابق مرکزی وزیر داخلہ
مودی حکومت کی روش اور اس کے دعوؤں سے ہٹ کر چیف اِکنامک اڈوائزر ( مشیر اعلیٰ برائے اقتصادیات ) نے پیش قیاسی کی ہے کہ بقیہ دہائی کے دوران ہندوستانی معیشت سالانہ 6.5 فیصد کی شرح سے نمو پائے گی یا ترقی کرے گی۔ مسٹر وی اننتا ناگیشورن ایک اعتدال پسند شخصیت ہیں جب سے انہیں چیف اِکنامک اڈوائزر (CEA) مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے خود کو شہرت کی چکاچوند سے بہت دور رکھا ہے۔ وہ میڈیا سے بھی دور رہتے ہیں، دوسروں کی طرح وہ بار بار منظرِ عام پر نہیں آتے، بار بار بولتے نہیں بلکہ کبھی کبھار ہی بات کرتے ہیں اور ان کی باتیں کام ہوتی ہیں۔ گذشتہ پیر کو انہوں نے کوچی میں ایک اہم بیان دیا جس میں ان کا کہنا تھا ’’ ہندوستان جاریہ دہائی کے مابقی برسوں میں 6.5 فیصد قومی مجموعی پیداوار کی شرح نمو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ عالمی معیشت میں انحطاط اور ہنگامہ خیزی کے باوجود ڈیجیٹل معیشت میں ترقی اور سرمایہ کاری بھی ملک کو اضافی 0.5 تا 1 فیصد شرح نمو حاصل کرنے کے قابل بنائیں گے۔ ظاہر ہے حکومت کو اب دو ہندسی نمو کی توقع نہیں ہے جو اس کی کووڈ۔19 عالمی وباء سے قبل کی فیصد تھی۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ حکومت نہ ہی 2004 اور 2010 کے درمیان جو بہترین معاشی دور تھا اُس کی تقلید کرے گی۔ 2022-23 کے اواخر میں قومی مجموعی پیداوار کا سائز یا حجم سے متعلق مستقل قیمتوں میں 3.75 ارب ڈالرس کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اگر ہمارے ملک کی معیشت ایک سال میں6.5 فیصد کی شرح نمو سے ترقی کرتی ہے تو 5 ارب امریکی ڈالرس تک پہنچنے کا ہدف جو پہلے ہی 2023-24 سے 2025-26 تک پیچھے ڈھکیل دیا گیا تھا اسے 2027-28 تک مزید پیچھے ڈھکیل دیا جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کیلئے ذمہ دار کون ہے؟۔
ترقی کی معتدل اور معمول کے مطابق شرح ملکی عوامل اور بیرونی ماحول دونوں کے باعث پائی جاتی ہے۔ ایک بات ضروری ہے کہ ہم خارجی عوام کو کنٹرول نہیں کرسکتے، ہاں صرف ان کا صفایا کرسکتے ہیں اور ان کی وجہ سے پیدا شدہ چیلنجز کا سامنا کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف ملکی عوامل حکومت کی ذمہ داری ہے اور ان عوامل کو اچھی طرح سنبھالنے کیلئے حکومت کو چوکس ہونا چاہیئے، لچکدار رویہ اور پالیسی اختیار کرنی چاہیئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ نومبر 2016 میں مودی حکومت نے اچانک نوٹ بندی نافذ کردی جس کے نتیجہ میں ترقی کی رفتار ختم ہی ہوگئی۔ اس طرح سال 2017-18 ، 2018-19 ، اور 2019-20 میں شرح نمو سُست روی کا شکار ہوگئی اور اس کے بعد معیشت کو تباہ و برباد کرنے والا واقعہ رونما ہوا جسے ہم کووڈ۔19 عالمی وباء کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ کووڈ ۔19 کی عالمی وباء نے دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح ہندوستان کو بھی شدید متاثر کیا۔ کثیر تعداد میں غریب و بے بس شہری راستوں میں ہی دَم توڑ گئے۔ اس کے باوجود حکومت نے طلب کو بڑھانے کے اقدامات سے انکار کردیا اور سپلائی سائیڈ اقدامات پر قائم رہی۔ نتیجہ میں کورونا وائرس کی مہلک وباء کے بعد بحالی کا عمل بہت کمزور اور کھوکھلا رہا۔ اس ضمن میں جو اعداد و شمار ہم پیش کررہے ہیں وہ ساری حقیقت بیان کردیں گے۔ نجی حتمی کھپت ( استعمال ) کے مصارف مستقل قیمتوں پر سال 2021-22 میں 87,03,540 کروڑ روپئے رہے جبکہ سال 2022-23 میں یہ 93,58,695 کروڑ روپئے رہے۔ اس طرح نمو 7.5 فیصد درج کیا گیا، ہاں تک سرکاری حتمی کھپت ( استعمال) مصارف کا سوال ہے سال 2021-22 میں مستقل قیمتوں پر 15,75,280 کروڑ روپئے، سال 2022-23 میں 15,75,306 کروڑ روپئے رہا جبکہ شرح نمو صفر درج کیا گیا۔ اسی طرح مجموعی مقررہ سرمایہ مصارف سال 2021-22 میں 48,78,774 کروڑ روپئے اور سال 2022-23 میں 54,34,692 کروڑ روپئے رہے جبکہ قومی مجموعی پیداوار کے مطابق ان کا 32.68 اور 33.95 کروڑ کے حساب سے اندراج عمل میں لایا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حتمی یا جملہ کھپت مصارف میں صرف 6.3 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ GFCE میں جی ڈی پی کی حیثیت سے 1.3 فیصد تک اضافہ درج کیا گیا جبکہ سال بھر کیلئے قومی مجموعی پیداوار کی شرح نمو سال 2021-22 میں 9.1 فیصد سے گر کر سال 2022-23 میں 7.2 فیصد ہوگئی۔ یہ سرمایہ مصارف کی بجائے کھپت تھی جس نے ہندوستان میں نمو کو آگے بڑھایا۔ استعمال یا کھپت کے معاملہ میں سُست نمو لوگوں کے ہاتھوں میں کم پیسہ ہونے یا قیمتوں میں اضافہ یا پھر مستقبل کے بارے میں بہت زیادہ مایوسی یا ان تمام کی جان اشارہ کرتی ہے۔ اقتصادی سرگرمی( جی وی اے ) کے لحاظ سے زرعی، مالیاتی اور پیشہ ورانہ خدمات کے علاوہ 2022-23 میں ہر شعبہ کی شرح ترقی 2021-22 کی شرح نمو سے کم تھی۔ کانکنی اور چٹانوں کو توڑنے و کھدائی کے شعبوں میں 2022-23 میں 4.6 فیصد اضافہ درج کیا گیا جو گذشتہ سال 7.1 فیصد تھا۔ مینو فیکچرنگ میں 11.1 فیصد کے مقابلے میں مایوس کن 1.3 فیصد اضافہ ہوا، اور تعمیری شعبہ میں 14.8 فیصد کی بہ نسبت 10.0 فیصد اضافہ ہوا اور یہ تینوں محنت کشوں کے شعبے ہیں۔ اگرچہ چلر افراطِ زر اپریل 2023 میں 4.3 فیصد تک اعتدال پر آگیا ہے اس کے باوجود ہم اپنا مستحکم موقف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہنوز ہماری معیشت کئی پیچیدگیوں کا شکار ہے۔
ایک وقت تھا جب ہندوستان میں پالیسی ساز پانچ فیصد شرح نمو اور 5 فیصد افراطِ زر رکھنے حکمت عملی طئے کرچکے تھے اس کے نتیجہ میں لاکھوں لوگ غریب رہ گئے اور ہمارا ملک بڑی تیزی سے چین اور دوسرے جنوب مشرقی ایشیائی پڑوسی ملکوں سے پیچھے رہ گیا، مجھے ڈر ہے کہ اب بھی ویسا ہی کچھ ہورہا ہے ۔ موجودہ پالیسی ساز ( مودی حکومت ) امرت کال پر فخر کرتی ہے لیکن 6 فیصد ترقی 5 فیصد افراطِ زر اور 8 فیصد بیروزگاری سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہندوستان کیلئے تباہ کن ہیں۔ اس کا مطلب بڑے پیمانے پر غربت ، وسیع پیمانے پر بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات ہے۔ اس مطلب یہ بھی ہے کہ ہندوستان کئی برسوں تک درمیانی آمدنی والا ملک نہیں بنے گا۔ ایسے میں ہمیں اپنے مقاصد اور اہداف کا ازسرِ نو تعین کرنا ہوگا۔ ہمیں بڑی تیزی کے ساتھ 8.9 فیصد شرح نمو حاصل کرنے کا ہدف مقرر کرنا ہوگا اور دو ہندسی شرح نمو حاصل کرنا ہمارا مقصد ہونا چاہیئے لیکن ان مقاصد کا حصول موجودہ پالیسی سازوں اور حکمرانوں کی صلاحیتوں سے باہر دکھائی دیتا ہے۔