ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کے دریا پار کرو

,

   

رام مندر سے ملک ہندو راشٹر کے راستہ پر
ہر مسجد کے نیچے مندر کی تلاش

رشیدالدین
ہندوستان میں 22 جنوری کو ہندو راشٹر کے سفر کا آغاز ہوگا جس پر سارے ملک کی نظریں ہیں۔ عوامی منتخب حکومت جس نے دستور اور قانون کی پاسداری کا حلف لیا تھا ، وہی آج ہندوتوا ایجنڈہ پر نہ صرف کاربند ہے بلکہ سارے ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکومت کی تمام سرگرمیاں ایودھیا تک محدود ہوچکی ہے۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت نے رام مندر کے افتتاح کو قومی تہوار میں تبدیل کردیا ہے۔ سرکاری مشنری اور گودی میڈیا گزشتہ 10 دن سے مندر کے افتتاح کی تشہیر میں مصروف ہے اور ملک بھر کے عوام کو کسی نہ کسی طریقہ سے تقریب کا حصہ بنانے کی منصوبہ بندی ہے تاکہ لوک سبھا چناؤ میں نریندر مودی کی ہیٹ ٹرک ہوسکے۔ حکومت کی سطح پر ہر طرف سے مندر کے افتتاح کو ملک کے وقار ، تہذیب اور وجود کی علامت کے طورپرپیش کیا جارہا ہے تاکہ نئی نسل میں ہندوتوا اور فرقہ پرستی کا زہر گھول دیا جائے۔ حکومت اور اس کے ادارے صرف رام مندر کی تشہیر میں مصروف ہیں اور ہر شعبہ حیات پر ذہنی دباؤ بنایا جارہا ہے کہ وہ 22 جنوری کو اپنے اپنے مقامات سے مندر کے افتتاح کا حصہ بن جائیں۔ دیگر مذاہب بالخصوص مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ افتتاح کے دن مساجد ، مدارس اور گھروں میں مشرکانہ نعرے لگائیں اور دیپ روشن کرتے ہوئے جشن منائیں۔ مرکز کی تمام سرگرمیوں ایودھیا میں سمٹ چکی ہیں اور سارے کھیل کا مین کردار جسے ہیرو بھی کہا جاتا ہے ، وہ نریندر مودی ہیں۔ مندر کے نام پر سیاسی کھیل کا واحد مقصد مرکز میں اقتدار کی برقراری ہے ۔ ایودھیا میں محض ایک مندر کا افتتاح نہیں بلکہ سارے ملک کو رام مندر میں تبدیل کرنے کی طرح جشن کا ماحول ہے۔ ملک کی تاریخ نے شائد ہی کبھی فرقہ واریت کے اس طرح کے کھیل کو دیکھا ہوگا۔یوں تو ملک میں ہزاروں مندروں کا افتتاح ہوچکا ہے لیکن بابری مسجد کے مقام پر تعمیر کی جارہی مندر کو ہندوستان میں ہندوؤں کے غلبہ اور حکمرانی کی علامت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ 120 کروڑ آبادی میں 80 کروڑ افراد کو اپنی برتری ثابت کرنے کیلئے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ آخر اکثریتی طبقہ میں عدم تحفظ کے احساس کی کیا ضرورت ہے ؟ کس نے سیاسی مفادات کیلئے ہندوؤں کو مسلمانوں سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے ؟ مسلمان ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کے باوجود دستوری اور قانونی حقوق سے محروم ہیں۔ گزشتہ 10 برسوں میں بی جے پی اقتدار میں مسلمانوں کو دوسرے درجہ کے شہری کا احساس دلانے میں کوئی کثر باقی نہیں رہی ۔ دستور نے ہندوستان کو سیکولر اور جمہوری ملک قرار دیا لیکن بی جے پی دستور سے لفظ سیکولر کو حذف کرتے ہوئے ہندو راشٹر کی شمولیت کی تیاری میں ہے۔ رام مندر کا افتتاح ملک میں ہندو راشٹر کے قیام میں اہم پیشرفت ثابت ہوسکتا ہے۔ ملک کے چپہ چپہ میں مندر کے حق میں مہم کا دوسرا مقصد مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو خوفزدہ کرنا ہے۔ نریندر مودی اور آر ایس ایس کو شائد پتہ نہیں کہ بھائی چارہ ، اخوت ، مذہبی رواداری اور قومی یکجہتی ہندوستان کا DNA ہے۔ وقتی طور پر فرقہ پرست طاقتیں عوام کو گمراہ کرسکتی ہیں لیکن فرقہ واریت اور نفرت کا زہر دیرپا ثابت نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان میں ہندوؤں کی اکثریت سیکولرازم پر اٹوٹ ایقان رکھتی ہے اور جس دن یہ باشعور طبقہ اٹھ کھڑا ہوگا ، وہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے زوال کا آغاز ہوگا۔ دنیا جانتی ہے کہ کس طرح عدل اور انصاف کی دھجیاں اڑاکر سپریم کورٹ سے رام مندر کے حق میں فیصلہ حاصل کیا گیا ۔ گواہ ، ثبوت اور دستاویزات بابری مسجد کے حق میں ہونے کے باوجود سپریم کورٹ نے مسلمانوں سے ناانصافی کرتے ہوئے آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ میں مسلمانوں کو مقدمہ میں جیت حاصل ہوئی لیکن فیصلہ مخالفین کے حق میں سنایا گیا۔ عدالت نے یہ تسلیم کرلیا کہ مندر کو توڑ کر بابری مسجد نہیں بنائی گئی تھی۔ اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ نے مسجد میں مورتیاں رکھنے کی مخالفت کی۔ سپریم کورٹ نے مسجد کا تالا کھولنے کے فیصلہ کو بھی غلط تسلیم کیا۔ اس مسئلہ پر مسلمانوں پر الزام تھا کہ انہوں نے مندر توڑ کر مسجد تعمیر کی ، وہ الزام سپریم کورٹ نے غلط ثابت کردیا لیکن افسوس کہ انصاف کی کرسی پر بیٹھے افراد نے اکثریتی طبقہ کے حق میں اپنا اختیاری فیصلہ سنایا ہے ۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلمان بابری مسجد کا مقدمہ جیتنے کے باوجود مسجد کی زمین سے محروم رہے۔
اگر اقتدار اور سلطنت کے دم پر ناانصافی اور من مانی کو شعار بنانا ہوتا تو ہندوستان پر 1000 برس تک حکمرانی کرنے والے مسلم حکمراں کیا کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ مسلم حکمرانوں کی رعایا پروری اور انصاف کا نتیجہ تھا کہ ہندوؤں کی اکثریت کے باوجود مسلم حکمرانوں نے دلوں پر راج کیا۔ محمد بن قاسم نے دلوں پر کچھ ایسے نقش چھوڑے تھے کہ جب وہ ملک سے واپس ہوئے تو رعایا نے ان کی مورتی بناکر پوجا شروع کردی۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں جہاں مسلم حکمرانوں نے مذہبی رواداری کی مثال قائم کی ہے۔ مغلیہ دور حکومت اور سلاطین آصفیہ کی جانب سے مندروں کے لئے جاگیرات اور امداد کے ذریعہ انصاف کی مثال قائم کی گئی۔ شیر میسور ٹیپو سلطان کے خلاف زہر اگلنے والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ٹیپو سلطان نے مندروں کو جاگیرات دیں اور ان کے کئی فوجی کمانڈر ہندو تھے۔ ایک ہزار برس کی حکمرانی کے باوجود مسلمانوں نے عدل و انصاف کو قائم رکھا لیکن بی جے پی محض 10 برسوں میں بے قابو ہوچکی ہے۔ ہندو راشٹر کے قیام کے لئے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کا منصوبہ ہے تاکہ ملک کی سیاست میں حصہ داری تو کیا نمائندگی بھی باقی نہ رہے ۔ قانون فطرت ہے کہ ظلم اور جبر کو مہلت دی جاتی ہے اور جب قدرت گرفت پر آجائے تو کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ صرف قدرت کے فیصلہ کا انتظار کرتے ہوئے ظلم کو سہنا بھی ظالم کی مدد ہے۔ رام مندر کے افتتاح کے سلسلہ میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کی سرگرمیوں سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ رام پر جیسے بی جے پی کا پیٹنٹ رائیٹ ہو۔ ہندو مذہب کے دیگر ماننے والوں سے زیادہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو بھگوان سے عقیدت ہے۔ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے میں مصروف سنگھ پریوار اور آر ایس ایس کو ہر مسجد کے نیچے مندر دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی تمام تاریخی مساجد کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کردی گئی کہ آرکیالوجیکل سروے سے مسجد سے قبل مندر کی بازیافت کی جائے۔ بابری مسجد کے بعد متھرا اور کاشی کی تاریخی مساجد کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ اور مقامی عدالتوں کا سہارا لے کر کاشی کی گیان واپی مسجد کے سروے کا کام شروع کردیا گیا۔ ہائی کورٹ نے متھرا کی شاہی عیدگاہ کے سروے کے احکامات جاری کئے جس پر سپریم کورٹ نے روک لگادی ہے۔ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق قانون کے باوجود جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں مساجد کو نشانہ بنانے کے درپہ ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالتوں کے ذریعہ کاشی اور متھرا کی اراضی کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اترپردیش کے کئی شہروں میں مساجد کے خلاف مہم تیز ہوچکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے لئے دعویٰ کیا گیا کہ ممبر کے پاس رام کا جنم استھان تھا۔ مسجد شہید ہوئی اور درمیانی حصہ میں مورتی نصب کی گئی لیکن موجودہ مقام سے ہٹ کر جو رام مندر تعمیر ہوا ہے ، وہاں یہ مورتی منتقل کی جارہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسجد کی شہادت کے بعد کیا رام کا جنم استھان تبدیل ہوچکا ہے ؟ اگر نہیں تو پھر مسجد کے مقام سے ہٹ کر مندر دوسری جگہ تعمیر کیوں کیا گیا ۔ دراصل یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ جس اراضی پر سینکڑوں برس سجدے کئے گئے ، اس مقام پر پوجا نہیں ہوسکتی۔ اس اعتبار سے آج بھی مسجد کی اراضی محفوظ بتائی جاتی ہے ۔ مندر کی تعمیر میں حصہ لینے والے افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ بابری مسجد کے مقام سے کافی فاصلہ پر نیا مندر تعمیر کیا گیا حالانکہ سپریم کورٹ نے مسجد کی اراضی حوالے کی تھی۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو حوصلہ شکن ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مذہبی اور سیاسی تنظیموں اور قیادتوں پر انحصار کئے بغیر عام مسلمانوں کو اپنے طور پر فرقہ پرست طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ مسلم قیادتوں کی بے حسی کے نتیجہ میں باطل کی شمع روشن ہے اور حق سورہا ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے مسلمانوں کو کچھ یوں مشورہ دیا ؎
طوفانوں سے آنکھ ملاؤ سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کے دریا پار کرو

7 رام مندر سے ملک ہندو راشٹر کے راستہ پر
7 ہر مسجد کے نیچے مندر کی تلاش

رشیدالدین
ہندوستان میں 22 جنوری کو ہندو راشٹر کے سفر کا آغاز ہوگا جس پر سارے ملک کی نظریں ہیں۔ عوامی منتخب حکومت جس نے دستور اور قانون کی پاسداری کا حلف لیا تھا ، وہی آج ہندوتوا ایجنڈہ پر نہ صرف کاربند ہے بلکہ سارے ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکومت کی تمام سرگرمیاں ایودھیا تک محدود ہوچکی ہے۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت نے رام مندر کے افتتاح کو قومی تہوار میں تبدیل کردیا ہے۔ سرکاری مشنری اور گودی میڈیا گزشتہ 10 دن سے مندر کے افتتاح کی تشہیر میں مصروف ہے اور ملک بھر کے عوام کو کسی نہ کسی طریقہ سے تقریب کا حصہ بنانے کی منصوبہ بندی ہے تاکہ لوک سبھا چناؤ میں نریندر مودی کی ہیٹ ٹرک ہوسکے۔ حکومت کی سطح پر ہر طرف سے مندر کے افتتاح کو ملک کے وقار ، تہذیب اور وجود کی علامت کے طورپرپیش کیا جارہا ہے تاکہ نئی نسل میں ہندوتوا اور فرقہ پرستی کا زہر گھول دیا جائے۔ حکومت اور اس کے ادارے صرف رام مندر کی تشہیر میں مصروف ہیں اور ہر شعبہ حیات پر ذہنی دباؤ بنایا جارہا ہے کہ وہ 22 جنوری کو اپنے اپنے مقامات سے مندر کے افتتاح کا حصہ بن جائیں۔ دیگر مذاہب بالخصوص مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ افتتاح کے دن مساجد ، مدارس اور گھروں میں مشرکانہ نعرے لگائیں اور دیپ روشن کرتے ہوئے جشن منائیں۔ مرکز کی تمام سرگرمیوں ایودھیا میں سمٹ چکی ہیں اور سارے کھیل کا مین کردار جسے ہیرو بھی کہا جاتا ہے ، وہ نریندر مودی ہیں۔ مندر کے نام پر سیاسی کھیل کا واحد مقصد مرکز میں اقتدار کی برقراری ہے ۔ ایودھیا میں محض ایک مندر کا افتتاح نہیں بلکہ سارے ملک کو رام مندر میں تبدیل کرنے کی طرح جشن کا ماحول ہے۔ ملک کی تاریخ نے شائد ہی کبھی فرقہ واریت کے اس طرح کے کھیل کو دیکھا ہوگا۔یوں تو ملک میں ہزاروں مندروں کا افتتاح ہوچکا ہے لیکن بابری مسجد کے مقام پر تعمیر کی جارہی مندر کو ہندوستان میں ہندوؤں کے غلبہ اور حکمرانی کی علامت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ 120 کروڑ آبادی میں 80 کروڑ افراد کو اپنی برتری ثابت کرنے کیلئے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ آخر اکثریتی طبقہ میں عدم تحفظ کے احساس کی کیا ضرورت ہے ؟ کس نے سیاسی مفادات کیلئے ہندوؤں کو مسلمانوں سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے ؟ مسلمان ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کے باوجود دستوری اور قانونی حقوق سے محروم ہیں۔ گزشتہ 10 برسوں میں بی جے پی اقتدار میں مسلمانوں کو دوسرے درجہ کے شہری کا احساس دلانے میں کوئی کثر باقی نہیں رہی ۔ دستور نے ہندوستان کو سیکولر اور جمہوری ملک قرار دیا لیکن بی جے پی دستور سے لفظ سیکولر کو حذف کرتے ہوئے ہندو راشٹر کی شمولیت کی تیاری میں ہے۔ رام مندر کا افتتاح ملک میں ہندو راشٹر کے قیام میں اہم پیشرفت ثابت ہوسکتا ہے۔ ملک کے چپہ چپہ میں مندر کے حق میں مہم کا دوسرا مقصد مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو خوفزدہ کرنا ہے۔ نریندر مودی اور آر ایس ایس کو شائد پتہ نہیں کہ بھائی چارہ ، اخوت ، مذہبی رواداری اور قومی یکجہتی ہندوستان کا DNA ہے۔ وقتی طور پر فرقہ پرست طاقتیں عوام کو گمراہ کرسکتی ہیں لیکن فرقہ واریت اور نفرت کا زہر دیرپا ثابت نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان میں ہندوؤں کی اکثریت سیکولرازم پر اٹوٹ ایقان رکھتی ہے اور جس دن یہ باشعور طبقہ اٹھ کھڑا ہوگا ، وہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے زوال کا آغاز ہوگا۔ دنیا جانتی ہے کہ کس طرح عدل اور انصاف کی دھجیاں اڑاکر سپریم کورٹ سے رام مندر کے حق میں فیصلہ حاصل کیا گیا ۔ گواہ ، ثبوت اور دستاویزات بابری مسجد کے حق میں ہونے کے باوجود سپریم کورٹ نے مسلمانوں سے ناانصافی کرتے ہوئے آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ میں مسلمانوں کو مقدمہ میں جیت حاصل ہوئی لیکن فیصلہ مخالفین کے حق میں سنایا گیا۔ عدالت نے یہ تسلیم کرلیا کہ مندر کو توڑ کر بابری مسجد نہیں بنائی گئی تھی۔ اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ نے مسجد میں مورتیاں رکھنے کی مخالفت کی۔ سپریم کورٹ نے مسجد کا تالا کھولنے کے فیصلہ کو بھی غلط تسلیم کیا۔ اس مسئلہ پر مسلمانوں پر الزام تھا کہ انہوں نے مندر توڑ کر مسجد تعمیر کی ، وہ الزام سپریم کورٹ نے غلط ثابت کردیا لیکن افسوس کہ انصاف کی کرسی پر بیٹھے افراد نے اکثریتی طبقہ کے حق میں اپنا اختیاری فیصلہ سنایا ہے ۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلمان بابری مسجد کا مقدمہ جیتنے کے باوجود مسجد کی زمین سے محروم رہے۔
اگر اقتدار اور سلطنت کے دم پر ناانصافی اور من مانی کو شعار بنانا ہوتا تو ہندوستان پر 1000 برس تک حکمرانی کرنے والے مسلم حکمراں کیا کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ مسلم حکمرانوں کی رعایا پروری اور انصاف کا نتیجہ تھا کہ ہندوؤں کی اکثریت کے باوجود مسلم حکمرانوں نے دلوں پر راج کیا۔ محمد بن قاسم نے دلوں پر کچھ ایسے نقش چھوڑے تھے کہ جب وہ ملک سے واپس ہوئے تو رعایا نے ان کی مورتی بناکر پوجا شروع کردی۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں جہاں مسلم حکمرانوں نے مذہبی رواداری کی مثال قائم کی ہے۔ مغلیہ دور حکومت اور سلاطین آصفیہ کی جانب سے مندروں کے لئے جاگیرات اور امداد کے ذریعہ انصاف کی مثال قائم کی گئی۔ شیر میسور ٹیپو سلطان کے خلاف زہر اگلنے والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ٹیپو سلطان نے مندروں کو جاگیرات دیں اور ان کے کئی فوجی کمانڈر ہندو تھے۔ ایک ہزار برس کی حکمرانی کے باوجود مسلمانوں نے عدل و انصاف کو قائم رکھا لیکن بی جے پی محض 10 برسوں میں بے قابو ہوچکی ہے۔ ہندو راشٹر کے قیام کے لئے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کا منصوبہ ہے تاکہ ملک کی سیاست میں حصہ داری تو کیا نمائندگی بھی باقی نہ رہے ۔ قانون فطرت ہے کہ ظلم اور جبر کو مہلت دی جاتی ہے اور جب قدرت گرفت پر آجائے تو کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ صرف قدرت کے فیصلہ کا انتظار کرتے ہوئے ظلم کو سہنا بھی ظالم کی مدد ہے۔ رام مندر کے افتتاح کے سلسلہ میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کی سرگرمیوں سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ رام پر جیسے بی جے پی کا پیٹنٹ رائیٹ ہو۔ ہندو مذہب کے دیگر ماننے والوں سے زیادہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو بھگوان سے عقیدت ہے۔ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے میں مصروف سنگھ پریوار اور آر ایس ایس کو ہر مسجد کے نیچے مندر دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی تمام تاریخی مساجد کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کردی گئی کہ آرکیالوجیکل سروے سے مسجد سے قبل مندر کی بازیافت کی جائے۔ بابری مسجد کے بعد متھرا اور کاشی کی تاریخی مساجد کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ اور مقامی عدالتوں کا سہارا لے کر کاشی کی گیان واپی مسجد کے سروے کا کام شروع کردیا گیا۔ ہائی کورٹ نے متھرا کی شاہی عیدگاہ کے سروے کے احکامات جاری کئے جس پر سپریم کورٹ نے روک لگادی ہے۔ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق قانون کے باوجود جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں مساجد کو نشانہ بنانے کے درپہ ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالتوں کے ذریعہ کاشی اور متھرا کی اراضی کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اترپردیش کے کئی شہروں میں مساجد کے خلاف مہم تیز ہوچکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے لئے دعویٰ کیا گیا کہ ممبر کے پاس رام کا جنم استھان تھا۔ مسجد شہید ہوئی اور درمیانی حصہ میں مورتی نصب کی گئی لیکن موجودہ مقام سے ہٹ کر جو رام مندر تعمیر ہوا ہے ، وہاں یہ مورتی منتقل کی جارہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسجد کی شہادت کے بعد کیا رام کا جنم استھان تبدیل ہوچکا ہے ؟ اگر نہیں تو پھر مسجد کے مقام سے ہٹ کر مندر دوسری جگہ تعمیر کیوں کیا گیا ۔ دراصل یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ جس اراضی پر سینکڑوں برس سجدے کئے گئے ، اس مقام پر پوجا نہیں ہوسکتی۔ اس اعتبار سے آج بھی مسجد کی اراضی محفوظ بتائی جاتی ہے ۔ مندر کی تعمیر میں حصہ لینے والے افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ بابری مسجد کے مقام سے کافی فاصلہ پر نیا مندر تعمیر کیا گیا حالانکہ سپریم کورٹ نے مسجد کی اراضی حوالے کی تھی۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو حوصلہ شکن ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مذہبی اور سیاسی تنظیموں اور قیادتوں پر انحصار کئے بغیر عام مسلمانوں کو اپنے طور پر فرقہ پرست طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ مسلم قیادتوں کی بے حسی کے نتیجہ میں باطل کی شمع روشن ہے اور حق سورہا ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے مسلمانوں کو کچھ یوں مشورہ دیا ؎
طوفانوں سے آنکھ ملاؤ سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کے دریا پار کرو