ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

   

محمد مصطفی علی سروری
سلیم کی عمر 30 سال ہے وہ ایک ٹرک ڈرائیور ہے۔ اتر پردیش کے علاقے شاملی سے تعلق رکھنے والے اس ٹرک ڈرائیور نے مقامی پولیس میں ایک شکایت درج کروائی۔ سلیم نے اپنی شکایت میں پولیس کو بتلایا کہ اس کے پڑوسی اس کو دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر وہ ہندو مت اختیار کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اخبار دی نیو انڈین ایکسپریس نے 28؍ نومبر 2019 کو IANS کے حوالے سے ایک خبر شائع کی۔ خبر کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ سال 2003ء میں سشیل نام کے ایک ہندو نوجوان نے ہندو مذہب ترک کرتے ہوئے مذہب اسلام اختیار کرلیا اور اس کا نام سلیم رکھا گیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سلیم نے ایک مسلم لڑکی سے شادی کرلی اور اس شادی کے بعد اس کو چار بچے بھی ہوئے اب سلیم نے خواہش ظاہر کی کہ وہ مذہب اسلام ترک کرتے ہوئے دوبارہ ہندو بن جانا چاہتا ہے۔ سلیم کی اس بات کو سن کر مقامی مسلمانوں نے اس کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکی دی اور اس دھمکی کے ملنے کے بعد سلیم نے پولیس میں اپنی شکایت درج کروائی۔ سلیم کے ایک دوست نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتلایا کہ سال 2003ء میں سلیم کے والدین اس دنیا سے گذر گئے۔ وہ اس وقت نابالغ تھا اور اس نے تبھی مذہب اسلام اختیار کرلیا تھا۔ اب اس کی عمر 30 برس ہے اور اس کی بیوی مسلمان اور اس بیوی سے اس کو چار بچے بھی ہیں۔ سلیم کے اس دوست کے حوالے سے اخبار نیو انڈین ایکسپریس نے مزید لکھا کہ اس کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر سلیم ہندو مت اختیار کرلیتا ہے تو اس کی بیوی اور بچے بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ اس کے مطابق سلیم اگر واقعی ہندو بننا چاہتا تھا تو اس کو مسلمان لڑکی سے شادی کرنے سے پہلے ہی یہ سوچ لینا ہی تھا۔ اخبار نے شاملی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جتندر کے حوالے سے لکھا کہ پولیس کو شکایت ملنے کے بعد تحقیقات جاری ہیں اور اس معاملے میں قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

قارئین !یہ خبر ہمارے ملک کے دارالحکومت سے تقریباً 120 کلو میٹر دور واقع شہر شاملی کی ہے جہاں پر سال 2003ء میں14 سال کی عمر میں ایک نوجوان سشیل جس کے ماں باپ دونوں مرگئے تھے مذہب اسلام قبول کرلیتا ہے اور اسلام قبول کرلینے کے بعد جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اس کی ایک مسلمان لڑکی کے ساتھ شادی بھی ہوجاتی ہے اور پھر اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چار بچے بھی پیدا ہوئے ہیں۔ 16 برس گذرجانے کے بعد سشیل جس نے قبول اسلام کے بعد سلیم نام اختیار کرلیا تھا اب دوبارہ ہندو دھرم اختیار کرنا چاہتا ہے۔ اس کے پڑوسی اور دوست اس بات کو لے کر پریشان ہیں کہ اگر سلیم ہندو بن جاتا ہے تو اس کے بیوی بچے بھی ہندو بن جائیں گے اور سلیم کے پڑوسی نے اس کو دھمکی بھی دے دی کہ اگر سلیم ہندو مت اختیار کرے گا تو اس کو قتل کردیں گے۔ آئیے ذرا غور کریں وہ کونسے عوامل ہیں جو اس صورتحال کے لیے ذمہ دار ہیں۔ کیا مسلمانوں کے اداروں میں ایسا کوئی نظم ہے کہ اگر کوئی نوجوان یا بوڑھا شخص مذہب اسلام قبول کرتا ہے تو اس کو تربیت فراہم کی جائے۔
جتنا اہم کام کلمہ پڑھاکر کسی کو مسلمان بنانے کا ہے اتنا ہی اہم کام کلمہ پڑھنے والے کی ذمہ داریاں کیا ہے اس کو بھی سکھانے کا ہے۔ سلیم نے 14 برس کی عمر میں کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا تھا۔ 16 برس بعد 30 سال کی عمر میں سلیم اب دوبارہ سشیل بننا چاہتا ہے۔ کیا صرف سلیم کو مارنے کی دھمکی دینا میری ذمہ داری ہے یا بحیثیت مسلمان میں اپنے دامن میں جھانکوں کہ نو مسلم حضرات کو دین اسلام سکھانے کے لیے ہمارے ہاں مضبوط سسٹم کیوں نہیں۔ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو دین سیکھنے کے لیے کسی دینی مدرسہ میں داخلہ نہیں لیتے کیونکہ ان کی اپنی تعلیم، اپنا کاروبار اور اپنی نجی اور تجارتی مصروفیات رہتی ہیں۔ ویسے سلیم دین اسلام کو ترک کر کے دوبارہ ہندو بننا چاہتا ہے کیونکہ وہ ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ اس کو شائد دین سیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا تھا، مگر سلیم کی بیوی تو مسلمان تھی۔ آخر اس کو لے کر پڑوسی کیوں پریشان ہیں کہ سلیم ہندو بنے گا تو اس کی بیوی بھی ہندو مت اختیار کرلے گی۔ کیا سلیم کی بیوی کو اس کے گھر والوں نے دین اسلام نہیں سکھایا ہوگا؟ ذرا سوچئے گا کہ صرف کلمہ پڑھا دینا کافی نہیں، کلمہ پڑھنے کے بعد مسلمانوں پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو کیسے پورا کریں یہ سکھانا اصل اسلام ہے۔
کلمہ پڑھ کر مسلمان بننے والے اور مسلمان گھر میں پیدا ہونے والے دین اسلام سے ناواقف رہنے کے خطرات ہر دو کے لیے مساوی ہیں۔
قارئین ! مسلمان گھر میں پیدا ہوجانا بھی دین اسلام سے واقف ہونے کا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں کیونکہ ایک خبر گذشتہ دنوں پڑوسی ریاست مہاراشٹرا کے علاقے یادگیر سے موصول ہوئی۔ اردو کے ایک اخبارانقلاب دکن کی ایک رپورٹ کے مطابق، عثمان آباد کے عمرگہ ٹائون سے تعلق رکھنے والے ببلو افسر نے اس مرتبہ ایپا سوامی کا بھکت بننے کا فیصلہ کیا۔ خبر کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ 32 سال کا افسر پیشہ سے ڈرائیور ہے اور نوکری کے لیے یادگیر ضلع کے گرمٹکال ٹائون میں مقیم ہے۔ اس کے حوالے سے اخبار نے لکھا ہے کہ وہ شادی شدہ ہے اور پہلی بار ایپا سوامی کا بھکت بننے کے لیے کالے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور 41 دنوں تک اسی طرح کا سیاہ لباس پہننے افسر روزانہ پوجا پاٹ کے کاموں میں مصروف افسر کہتا ہے کہ سوامی کے بھکت بننے کا مقصد انسانیت کی مثال پیش کرنا ہے اور یکجہتی کو پیش کرنا ہے۔ 41 دنوں تک پوجا پاٹ کے بعد افسر دیگر بھکتوں کے ساتھ سبری مالا کی کیرالا میں مندر کو حاضری دینے جانے والا ہے۔

اس خبر کو پڑھ کر مسلمانوں کی بڑی تعداد انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے اور افسر کی اس افسردہ حرکت پر افسوس ظاہر کرنے پر اکتفاء کر رہے ہیں۔ کیا مسلمانوں کی اب یہی ذمہ داری باقی بچ رہی ہے۔ ذرا غور کیجیے گا۔ قارئین کیا ہم نے اپنے گھروں میں اپنے خاندانوں میں اپنے بچوں اور متعلقین کی دینی تعلیم سے واقف کروانے کی ذمہ داری پورا کر رہے ہیں یا نہیں؟
اس بات کو جان لیجیے کہ دین اسلام صرف کلمہ پڑھنے، نماز روزہ رکھ لینے کا ہی نام نہیں ہے۔ عربی زبان میں دین کی لغوی تعریف یوں بیان کی گئی ہے کہ دین کے معنٰی اطاعت اور جزاء کے ہیں اور دین حق وہی ہوسکتا ہے۔ جو خالق کائنات کی طرف سے بھیجا گیا ہو۔
ہم مسلمان دین اسلام کتنا جانتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے کہیں اور مت جایئے۔ ذرا اپنے ہی آس پاس کے نوجوانوں سے اور بچوں سے پوچھ لیجیے کہ یہ جو پانچ وقت ہماری مساجد سے لائوڈ اسپیکر کے ذریعہ اذاں دی جاتی ہے اس کا مطلب کتنے لوگ جانتے ہیں۔ بظاہر تو یہ سوال بے معنٰی لگتا ہے۔ لیکن کتنے نوجوان اذان کے معنٰی بتا سکیں گے۔ یہی تعداد طئے کرے گی کہ مسلمانوں کو اپنے بچوں کو دین کی ضروری عملی تعلیمات دینا کس قدر ضروری ہے۔
شہر حیدرآباد کے ایک انگریزی روزنامے نے پچھلے برس خبر شائع کی تھی کہ رمضان المبارک کے دوران رومن اسکرپٹ میں لکھے قرآن مجید کے نسخوں کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ رجحان کس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ مسلمان نہ صرف اردو زبان سے دور ہو رہا ہے (وہ زبان جس میں عربی کے بعد سب سے زیادہ اسلامی لٹریچر موجود ہے) بلکہ وہ قرآن کے اصل زبان عربی اسکرپٹ سے بھی ناواقف ہوتا جارہا ہے۔
ایسے میں کسی واقعہ پر رونا ضروری نہیں اور نہ افسوس کا اظہار کرنا ضروری ہے، بلکہ اہم بات اور مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے گھر کی ذمہ داری لیں کہ ہم کم سے کم اپنے گھر اور خاندان کے بچوں کے لیے دین اسلام کی عملی تعلیمات کا ان کی عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ انتظام کریں گے اور بچوں کو یہ بات بالکل واضح سمجھا دیں گے کہ بحیثیت مسلمان وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ رب العزت کے احکامات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں گذارنے کے پابند ہیں۔
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور، مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اس ایک فضاء میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com