ملک کا قانون اور بے قصور قیدی

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ہمارے فوجداری نظام ِ انصاف میں جو عمل ہے، وہ سزا ہے، اس نظام میں اَندھا دُھند گرفتاری سے لے کر ضمانت حاصل کرنے میں مشکلات بھی شامل ہیں۔ یہ قانونی عمل اس قدر طوالت اختیار کرجاتا ہے کہ زیردریافت قیدیوں کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہوتا جاتا ہے بلکہ انہیں ایک طویل مدت تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ فوجداری نظام قانون کے اس نقص پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ملک کی جیلوں میں بند 6,10,000 قیدیوں میں سے 80% قیدی زیردریافت قیدی ہیں اور طویل مدت تک ان کا جیلوں میں رہنا یقینا تشویش کی بات ہے۔ یہ خیالات کسی عام ہندوستانی شہری کے نہیں بلکہ خود چیف جسٹس آف انڈیا مسٹر این وی رمنا کے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس قانونی عمل پر سوال اُٹھایا جائے جس کے نتیجہ میں انہیں مقدمہ چلائے بناء ایک طویل مدت تک قید میں رکھا جاتا ہے۔ ویسے تو ہمارے نظام انصاف کے بارے میں بے شمار شخصیتوں نے متعدد مرتبہ تحفظات ِذہنی کا اظہار کرتے ہوئے اس میں بے شمار نقائص کی نشاندہی کی لیکن ایک برسرخدمت چیف جسٹس آف انڈیا کی جانب سے اس طرح کی تشویش قابل غور ہے، کیونکہ ملک کے ایک اعلیٰ ترین جج کی جانب سے حالیہ عرصہ کے دوران اس بارے میں یقینا دانشمندانہ الفاظ ادا نہیں کئے گئے۔ خوشی کی بات ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا مسٹر این وی رمنا نے ہمارے نظام انصاف کے بارے میں حقیقت پسندانہ خیالات کا اظہار کیا۔ مسٹر جسٹس رمنا نے زائد از 17 برسوں تک وکالت کی اور 22 برسوں تک بحیثیت جج خدمات انجام دیں۔ فوجداری انصاف کی فراہمی کے نام پر عدالتوں میں جو کچھ ہوتا ہے۔ جسٹس این وی رمنا اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انہوں نے ملزمین کے خاندانوں، وکلاء، مہذب سماج کے جہدکاروں، صحافیوں اور فکرمند معلنہ شہریوں سے بھی گفت و شنید کی ہوگی۔ ان کے خیالات کی سماعت بھی کی ہوگی اور سینکڑوں دردناک و المناک کہانیاں بھی سنی ہوں گی۔ اس مضمون کا مقصد ایسی ہی کچھ المناک کہانیاں آپ کے ساتھ شیئر کرنا ہے۔
بناء کسی مقدمہ کے قید میں
حالیہ وقتوں میں مَیں سمجھتا ہوں کہ بھیماکورے گاؤں کیس کی کہانی سے زیادہ کوئی اور کہانی صدمہ انگیز و حیرت انگیزنہیں ہے۔ اس کیس میں 16 اہم ترین سماجی جہدکاروں کو ملزمین بنایا گیا۔ یکم جنوری 2018ء کو ہر سال کی طرح بھیماکورے گاؤں جنگ کی 200 سالہ یاد منانے کی خاطر دلت تنظیموں کے ارکان پر مشتمل ایک بہت بڑا اجتماع منعقد کیا گیا۔ دلتوں کے اس اجتماع پر ایک ہجوم نے نہ صرف سنگباری کی بلکہ تشدد برپا کرتے ہوئے انہیں نشانہ بنایا اور یہ سب کچھ مبینہ طور پر دائیں بازو کے گروپوں کی ایماء پر کیا گیا۔ اس تشدد میں ایک شخص کی ہلاکت ہوئی اور پانچ دیگر زخمی ہوئے۔ بی جے پی کی زیرقیادت ریاستی حکومت کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے نتیجہ میں اس معاملے نے عجیب موڑ اختیار کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دلتوں پر سنگباری کرنے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے والوں کو گرفتار کیا جاتا ۔ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی، اس کے بجائے 6 جون 2018ء کو 5 افراد کو جو تمام کے تمام دلتوں اور بائیں بازو کاز کے حامی و ہمدرد تھے، مہاراشٹرا پولیس نے گرفتار کرلیا۔ بعد کے مہینوں میں مزید گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں ایک مشہور وکیل، ایک ممتاز شاعر، ایک عیسائی پادری، کئی ادیب و مصنفین، احتجاجی مظاہرین اور حقوق انسانی کے جہدکار شامل تھے۔ بہرحال 2019ء کے اسمبلی انتخابات کے بعد ریاست مہاراشٹرا میں ایک اتحادی حکومت (غیربی جے پی) تشکیل پائی۔ متعصبانہ و جانبدارانہ تحقیقات کے الزامات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شیوسینا، کانگریس اور این سی پی کی اتحادی حکومت نے اس مقدمہ کا ازسرنو جائزہ لینے یا تحقیقات کرنے کیلئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (SIT) تشکیل دی لیکن اس کے اندرون دو یوم بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت نے اس میں مداخلت کرتے ہوئے بھیما کورے گاؤں کیس کی تحقیقات قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA) کو منتقل کردی حالانکہ کیس این آئی اے کو منتقل کئے جانے کے خلاف متعدد درخواستیں داخل کی گئی تھیں۔ حد تو یہ ہے کہ ملزمین کو ضمانت دینے سے مسلسل انکار کیا گیا۔ 84 سالہ ضعیف عیسائی پادری فادر اسٹین سوامی، ضمانت منظور کئے جانے کے منتظر رہے اور اس انتظار میں 5 جولائی 2021ء کو جیل میں ان کا انتقال ہوگیا۔ آپ حیرت کریں گے کہ اس کیس میں صرف 82 سالہ تلگو کے ممتاز انقلابی شاعر مسٹر ورا ورا راؤ طبی بنیادوں پر 22 ستمبر 2021ء سے عبوری ضمانت پر ہیں جبکہ دوسرے ملزمین قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔
شرجیل امام : شرجیل امام جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔ انہیں مخالف سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون) احتجاج کے دوران ڈسمبر 2019ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں دو تقاریر کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ دہلی میں ایک مقدمہ کے علاوہ شرجیل امام کو آسام، اترپردیش، منی پور اور اروناچل پردیش جیسی ریاستوں میں بھی مقدمات کا سامنا ہے۔ شرجیل امام 28 جنوری 2020ء سے جیل میں بند ہیں اور ضمانت سے محروم ہیں جب بھی وہ درخواست ضمانت داخل کرتیہیں اسے مسترد کردیا جاتا ہے۔
عمر خالد : اب بات کرتے ہیں عمر خالد کی وہ جے این یو کے ایک سابق طالب علم اور جہدکار ہیں۔ انہیں 14 ستمبر 2020ء کو دہلی فسادات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا یہ فسادات فروری 2020ء کو پھوٹ پڑے تھے۔ عمر خالد بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ انہیں بھی ضمانت دینے سے انکار کردیا گیا ہے۔
صدیق کپن : شرجیل امام اور عمر خالد کی طرح ایک اور مظلوم صدیق کپن بھی ہیں جن کا تعلق کیرالا سے ہے اور وہ ایک مشہور صحافی ہیں۔ انہیں اُس وقت گرفتار کیا گیا۔ جب وہ ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی اور بہیمانہ قتل واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ تیار کرنے کیلئے ہاتھرس جارہے تھے۔ صدیق کپن 5 اکتوبر 2020ء سے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا پا رہے ہیں۔ جیل میں بند ہیں۔ اس دوران ان کی ماں کا بھی انتقال ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود صدیق کپن کو ضمانت نہیں ملتی یا ضمانت دینے سے انکار کردیا جاتا ہے۔
آخر قانون کیا ہے؟
اس مضمون کا نکتہ یہ نہیں ہے کہ آیا الزامات جھوٹے ہیں یا صحیح بلکہ اصل نکتہ یہ ہے کہ ملزمین کو ضمانتیں دینے سے آخر کیوں انکار کیا جارہا ہے۔ طویل عرصہ سے وہ جیلوں میں ہیں۔ ضمانتوں کیلئے ان کی درخواستوں پر ہمدردانہ غور کرنے کی زحمت کیوں نہیں کی جارہی ہے؟ تحقیقات کے دوران ملزمین کے خلاف کوئی الزامات نہیں تھے، اس طرح وہ Pre Undertrials تھے اور جب عدالت نے الزامات وضع کئے گئے تب وہ زیردریافت قیدی بنے، الزامات سے پہلے شواہد، الزامات وضع کئے جانے، مقدمہ شروع ہونے اور بحث ہوسکتا ہے کہ یہ عمل برسوں چلتا رہے یا چل سکتا ہے؟ ایسے میں کیا ملزمین کو مقدمہ ختم ہونے تک جیل میں رکھا جانا چاہئے؟ انہیں مقدمہ کے اختتام تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا جانا چاہئے؟ کیا مقدمہ کی سماعت سے قبل قید میں ڈالا جانا مقدمہ ثبوت، خاطی قرار دینا اور سزا کا متبادل ہے؟ اگر یہ حقیقت میں ملک کا قانون ہے تو کیا ان حالات میں اس قانون کا ازسرنو جائزہ نہیں لیا جانا چاہئے؟ کیا اس میں ترمیم نہیں کی جانی چاہئے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو مسٹر جسٹس این وی رمنا کے پریشان کن بیان کے پیچھے کارفرما ہیں۔ اس کے جواب ہمیں سپریم کورٹ کے وضع کردہ قانون میں مل سکتے ہیں۔ آج سے 40 سال قبل گرنجش سنگھ بسیا مقدمہ (1980ء) میں سپریم کورٹ کے ایک دستوری بینچ نے یہ قانون بیان کیا۔ ضابطہ فوجداری کی مختلف شق سے اخذ کیا جانے والا اصول یہ ہے کہ ضمانت کی منظوری قاعدہ اور انکار ایک Exception ہے۔سال 2014ء کے ارنیش کمار کیس میں عدالت نے یہ واضح طور پر نوٹ کیا کہ گرفتاری کے اختیار کو زیادہ تر ہراساں و پریشان کرنے اور جبر کا آلہ سمجھا جاتا تھا اور یقیناً اسے عوام دوست نہیں سمجھا جاتا ہے۔ 29 جنوری 2020ء میں سشیلا اگروال کیس میں ایک اور دستوری بینچ نے گرنجش سنگھ اور آرنیش کمار پر پڑے بدنامی کے داغ کو صاف کیا اور ساتھ ہی حق آزادی کو برقرار رکھنے سے متعلق عدالتوں کے اختیار اور فرض کو دوبارہ تصدیق کی۔ یہ یاد رکھنا ثمرآور ہوگا کہ شہریوں کو جو حقوق حاصل ہیں، وہ بنیادی حقوق ہیں۔
ایک سیاہ دھبہ
اس کے باوجود گرفتاری کا اختیار یا طاقت کا ناجائز استعمال کیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے کئی ایسے فیصلے صادر کئے جس میں گرفتاری کے اختیار کو گھٹایا گیا۔ اس سلسلے میں 11 جولائی 2022ء کو شیندر کمار اسٹیل کیس میں دیا گیا بیان اور 20 جولائی 2022ء کو محمد زبیر کے کیس میں سنایا گیا حکم بطور مثالیں پیش کئے جاسکتے ہیں۔ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ فوجداری نظام انصاف پر ان فیصلوں کے باوجود بھیما کورے گاؤں کیس کے ملزمین، شرجیل امام، عمر خالد، صدیق کپن اور دوسرے ہزاروں لوگ بناء سزا سنائے جیلوں میں زندگیاں گذار رہے ہیں۔ آخر ایسا کیوں؟ مجھے یقین ہے کہ مسٹر جسٹس رمنا نے اس کا جواب دے دیا۔