ملک کی معاشی سست روی پر تشویش

   

حیراں ہوں روؤں دل کو یا پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
ملک کی معاشی سست روی پر تشویش
مرکزی حکومت ملک کی معیشت کو پانچ ٹریلین ڈالرس کی معیشت بنانے کے منصوبوں کا اعلان کر رہی ہے اور یہ دعوی بھی کیا جا رہا ہے کہ اس سمت پیشرفت کیلئے جاریہ سال کے بجٹ میں بنیاد بھی رکھ دی گئی ہے ۔ کئی پروگرامس اور اسکیمات اسی مقصد کو ذہن نشین رکھتے ہوئے تیار کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کے اس اعلان سے قطع نظر اندرون ملک معیشت کی جو صورتحال ہے وہ تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہے ۔ معاشی سست روی کے اندیشے لاحق ہوگئے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو بھی بیجا نہ ہوگا کہ کچھ شعبہ جات پہلے ہی اس سے متاثر ہوچکے ہیں اور اس کے اثرات دوسرے شعبوں پر بھی پڑنے کے اندیشے ہیں۔ علاوہ ازیں روزگار کے مواقع متاثر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں عوام لاکھوں ملازمتوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی شعبہ جات میں ملازمین کی خاموشی سے تخفیف کا سلسلہ سا چل پڑا ہے اور اب یہ سلسلہ سرکاری ملازمتوں میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے ۔ ہندوستان بھر میں جو متعلقہ گوشے ہیں انہیں اس تعلق سے فکر و تشویش لاحق ہوتی جا رہی ہے لیکن حکومت اس جانب توجہ دیتی نظر نہیں آتی ۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس سلسلہ میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ معاشی سست روی کا اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ملک میں معاشی ایمرجنسی جیسی صورتحال نافذ ہوجائے گی ۔ حکومت اس کے باوجود اس پر توجہ نہیں دے رہی ہے ۔ کانگریس نے کل ہی ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں معاشی سست روی تشویشناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے ۔ مختلف شعبہ جات میںملازمتوںمیں تخفیف کا سلسلہ چل پڑا ہے ۔ کئی کمپنیوں کو بند کرنے کی نوبت آگئی ہے ۔ جو کمپنیاں بند نہیںہوئی ہیں انہیں اپنی بقا ء کیلئے ملازمین کی تعداد میں کمی کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے کیونکہ ان کی آمدنی متاثر ہوگئی ہے ۔ مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں مسائل ہیں۔ آٹو موبائیل شعبہ سب سے زیادہ متاثر نظر آ رہا ہے ۔ یہاں کئی لاکھ ملازمین اپنی نوکریوں سے محروم ہوگئے ہیںاور کئی ریٹیل شوروم یا تو بند کردئے گئے ہیں یا پھر ان کو محدود کردیا گیا ہے اور ان کی فروخت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
کانگریس پارٹی ہو یا کمیونسٹ جماعتیں ہوں سبھی اس تعلق سے تشویش کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ معاشی شعبہ میں مہارت رکھنے والے افراد بھی اس صورتحال پر فکرمند ہیں اور وقفہ وقفہ سے اپنی تشویش کا اظہار کرتے جا رہے ہیں۔ اس تشویش میں مزید اضافہ اس وقت محسوس کیا گیا ہے جب ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے بھی معاشی سست روی پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ ہندوستان میں جو معاشی صورتحال پیدا ہوتی جا رہی ہے وہ مناسب نظر نہیں آتی ۔ اس سے معیشت متاثر ہونے کے اندیشے تقویت پاتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں ایک اور بار اصلاحات لائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کو بدلتے وقت کے تقاضوں سے اور اس کی ضروریات سے ہم آہنگ کیا جاسکے ۔ ہندوستانی معیشت آج بلندیوں کو چھونے کے مراحل میں اسی لئے پہونچ پائی ہے کیونکہ ماضی میں معاشی شعبہ میں بڑے پیمانے پر اصلاحات نافذ کی گئی تھیں اور ملک میں فراخدلانہ معاشی پالیسیوں نے بیرونی سرمایہ کاروں کو ہندوستان آنے کا موقع فراہم کیا تھا ۔ ان اصلاحات کے بعد معیشت نے تیز رفتار ترقی کی ہے تاہم ان اصلاحات کو بھی اب تک تین دہوں کا وقت عملا گذر چکا ہے اور ہم اب بھی اس کے ثمرات سے استفادہ کرتے جا رہے ہیں۔ اب ان میں مزید اصلاحات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ۔
مرکزی حکومت کی جانب سے ملک کی معیشت کو پانچ ٹریلین ڈالرس تک پہونچانے کا منصوبہ بہترین ہوسکتا ہے لیکن اس کو عملی طور پر آگے بڑھانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ملک کی معیشت میں سست روی جو پیدا ہو رہی ہے اس کو دور کرنے پر توجہ دی جائے ۔ بنیادی سطح پر استحکام ہی آئندہ کے منصوبوں کو آگے بڑھانے اور اس کے توقعات کے مطابق نتائج برآمد کرنے میں کامیابی ضمانت ہوسکتا ہے ۔ اگر سست روی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور ملازمتوں سے محرومی کی رفتار پر قابو نہیں پایا گیا تو پھر حکومت کے جو معاشی منصوبے اور عزائم ہیں ان میں کامیابی آسان نہیں رہے گی ۔ داخلی طور پر عوام میں خوشحالی ‘ روزگار کی فراہمی اور فی کس آمدنی میں اضافہ کے بغیر مقررہ معاشی ترقی کے نشانوں کا حصول آسان نہیں ہوگا ۔