منشی پریم چند

   

ڈاکٹر ٹی نرہری
ہندی، اُردو ادب میں نہایت مقبولیت اختیار کرنے والے مصنف، ناول نگار منشی پریم چند یہ ان کا قلمی نام ہے۔ انہیں کئی مصنفین شہنشاہ تصانیف کی حیثیت سے مخاطبت ہوتے تھے۔ منشی عجائب لال کماشتہ محکمہ ڈاک کے گھر مورخہ 31 جولائی 1880 ء بمقام وارناسی (اُترپردیش) قریب واقع دیہات لمیوا (Lamiva) یہ نہال تولد ہوا ۔ ان کی والدہ کا نام آنندی تھا۔ والدین نے ان کا نام دھنپت رائے رکھا۔ ان کے ماموں مہا بیرامنین نواب کہہ کر پکارتے تھے۔ انہوں نے اپنا پہلا قلمی نام نواب رائے سے مضامین تحریر کرنا شروع کیا۔ کچھ عرصہ کے بعد مزید چند مضامین بابو نواب رائے بنارسی کے نام سے درج کئے۔ پریم چند کے والدین ان کی کمسن عمر میں ہی اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ ان کی سوتیلی ماں کی نگرانی میں پیدائش ہوئی۔ ان کی پہلی ناول ’’سوزوچن‘‘ پر اس وقت کی برطانوی حکومت نے امتناع عائد کیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی قیام گاہ پر بھی دھاوا کیا گیا۔ تلاش کے دوران تقریباً 500 مضامین کو نذرآتش کیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد انہوں نے اپنا قلمی نام تبدیل کرکے پریم چند رکھا۔ اس طرح یہ ان کا تیسرا قلمی تخلص تھا۔ بچپن میں ہی پریم چند کی شادی ہوئی۔ یہ شادی ان کی مرضی کے خلاف زبردستی کی گئی۔ وہ شادی سے شدید ناراض تھے۔ انہوں نے کبھی بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ ازدواجی زندگی نہیں گذاری۔ اس دوران ایک روزنامہ میں اشتہار شائع ہوا۔ یہ ان کی نظروں سے گذرا۔ کمسن عمر تین بیوہ ہونے والے 11 سالہ لڑکی سے ترقی یافتہ نظریات رکھنے والے نوجوان شادی کیلئے چاہئے، یہ اشتہار تھا۔ اشتہار پڑھنے کے بعد پریم چند نے فوری فیصلہ کیا، وہ یہ شادی کریں گے۔ اس بیوہ لڑکی کا نام شیوانی دیوی تھا۔ شادی کے موقع پر پریم چند نے یہ نہیں بتایا، وہ شادی شدہ ہے۔ کچھ عرصہ بعد شیوانی دیوی کو پتہ چلا کہ پریم چند کی شادی پہلے بھی ہوچکی ہے۔ اس مسئلہ پر دونوں کے درمیان کافی بحث و مباحثہ ہوا۔ پھر بھی ان دونوں کے درمیان پیار و محبت گھریلو زندگی میں کسی قدیم کی تبدیلی نہیں آئی۔ شیورانی دیوی نے ہرگز پریم چند سے دوری اختیار نہیں کی۔ وہ بھی اپنی اہلیہ سے کافی محبت کرتے تھے۔ وہ اپنی بیوی کو بازو میں بٹھا کر نہیں زندگی میں سرزد ہوئے واقعات کی تفصیلات بتاتے تھے۔ اگر اتفاق سے پریم چند کی مزاج ناساز ہوجاتی، وہ کافی پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتی تھی۔ وہ صحتیاب ہونے تک کافی احتیاط برت کر ان کی خدمت کرتی تھی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ ان کی ادبی خدمات میں بھی بہتر انداز میں تعاون کرتی تھی۔ پریم چند پہلی بار ملازمت کتب فروش کی حیثیت سے شروع کی۔ شاید بھاری مقدار میں کتابوں کا مطالعہ کرنے کا موقع حاصل ہوگا۔ یہ تصور کرکے انہوں نے یہ ملازمت کی ہوگی۔ بنارس میں وہ ایک ایڈوکیٹ کے فرزند کو ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ انہیں ماہوار ٹیوشن میں پانچ روپئے ملتے تھے۔ یہ رقم ان کی گذر بسر کے لئے ناکافی تصور کرتے ہوئے 1900 عیسوی میں انہوں نے ضلع سرکاری مدرسہ میں اسٹیٹ ٹیچر کی ملازمت اختیار کی۔ یہاں انہیں ماہوار 20 روپئے تنخواہ ملتی تھی۔ پریم چند ابتداء میں ہندی میں مضمون تحریر کرنا چاہا تو پہلے وہ اس مضمون کو اُردو تحریر میں درج کرتے تھے۔ ان کی ابتدائی تصنیفات ماں، راز،ز میندار سماجی زندگی میں انسانیت، یہ کافی مقبول ہوئی۔ ان کتب کے ذریعہ پیار و الفت عبادت، بھائی چارگی، جذبۂ انسانیت کو ابھارنے کی کافی حد تک کوشش کی۔ انہوں نے ہندی، اردو زبان میں کئی کہانیاں، ناول، مضامین تدوین کی ساتھ ہی بچوں کی نفسیات ان کی طرز تربیت، عادت و اطوار پر بھی قلم اٹھایا۔ ان کی کہانیوں سے ہمیں کئی نامعلوم واقعات کا علم ہوتا ہے۔ پریم چند کی کتابیں ’’عید‘‘ کا مطالعہ کرنے پر ہمیں سماج میں پائی جانے والی خامیاں و کمزوری، غلط فہمی کا پتہ چلتا ہے۔ فرسودہ رسومات، خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں، دیہی زندگی، کمزور بے بس انسان، ذات پات، مذاہب پر بھی قلم اٹھایا، اس طرح کئی مضامین اندراج کرتے ہوئے مختلف عرصہ میں نہ صرف کافی شہرت حاصل کی بلکہ ادب میں اپنا لوہا تسلیم کرایا اور اپنا خاص مقام ادبی دنیا میں قائم کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں تقریباً 250 کہانیاں اور کئی درجن ناول تدوین کئے۔ ان کی ناول، گؤ دان، غبن، سیوا سادھن، کرما بھومی، منوما، نرملا، پرتگیہ وردھان نے کافی مقبولیت حاصل کی۔ پریم چند اپنے زندگی کے آخری مرحلے میں دوستوں سے کہاکہ وہ مزید کچھ عرصہ بقید حیات رہنے کی چاہت رکھتے ہیں۔ میں اپنے لئے زندگی نہیں چاہتا۔ میں اپنی اہلیہ کیلئے چاہتا ہوں، کیونکہ وہ کافی مہا تیاگی، نہایت جذبۂ ایثار رکھنے والی خاتون ہے۔ وہ کبھی بھی اپنے لئے کچھ خواہش نہیں رکھتی۔ قربانی، سماج کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں خدا سے یہی دعا مانگتا ہوں کہ دوسری زندگی میں بھی شیوارانی دیوی کو ہی میری اہلیہ بنائے کیوں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچایا اور نہ تکلیف دی۔ اس لئے میری یہ التجا خدا ضرور قبول کریں گے۔ یہ امیدیں وابستہ رکھتا ہوں۔ آخری سانس کے وقت رانی میری پہلو میں رہو، کہیں نہ جاؤ ، تم رہو تو میری ہمت بڑھتی ہے۔ تمہیں یہ واقعات سے واقف کروانا ہے۔ اس کے دو دن بعد ہی 8 اکتوبر 1936ء کے دن آخری سانس لی۔ تب ان کی عمر 56 برس تھی۔