موجودہ دور میں جائیداد کا تنازعہ خاندانی انتشار کا سبب

   

محمد اسد علی ،ایڈوکیٹ

موجودہ دور میں انتہائی افسوسناک رجحانات معاشرہ میں پروان چڑھ رہے ہیں جس کیلئے ذمہ دار خود ہماری کمیونٹی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض اوقات والدین یا والد اپنے انتقال کے بعد کچھ جائیداد چھوڑ جاتے ہیں اور بھائی بہنوں کو وصیت کرتے ہیں کہ اُنہیں اس جائیداد میں تمام بھائی بہنوں کا حق ادا کرنا چاہئے لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم خود اس کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ کوئی ایک بھائی یا طاقتور شخص نہ صرف کرائے بلکہ ساری جائیداد کو ہڑپ کر جاتا ہے اور کرایوں (Rents) کے علاوہ فروخت کی ہوئی جائیداد سے اپنے بھائی بہنوں کو ان کے حق سے محروم کردیتا ہے یا کردیتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے ضمیر فروش بعض خاندانوں میں ملتے ہیں۔ اگر انہیں شریعت ، اللہ اور رسولؐ کا حوالہ دیا جائے تو وہ اسے نظرانداز کرتے ہوئے دنیاوی زندگی کے چند روزہ عیش کو ترجیح دیتے ہیں جس سے اس کی آخرت تو تباہ ہوتی ہے لیکن حق سے محروم بھائی بہنوں کو شدید نقصان پہونچتا ہے۔ اس معاملے میں انصاف کی ترغیب دینا خاندان کے بڑوں کا کام ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض ضمیر فروش پیسوں کی چمک دمک سے متاثر ہوتے ہیں اور اُن کے ضمیر مردہ ہوجاتے ہیں اور آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی بینائی سے محروم ہوتے ہیں۔ چند ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں کوئی بڑا بھائی یا خاندان کا بااثر شخص اپنی طاقت کے بل بوتے پر بہنوں کی حق تلفی کرتا ہے حالانکہ رشتہ داروں کا کام ہے کہ اس معاملے میں مدد کرتے ہوئے انصاف کی ترغیب دے۔ دیکھا گیا ہے کہ بیٹا، ماں کے خلاف عدالت سے رجوع ہورہا ہے تاکہ ماں کو بے گھر کرتے ہوئے اس کی جائیداد کو ہڑپ لیا جائے اور اس کیلئے چند مفاد پرست قانون دانوں سے مدد حاصل کرتے ہوئے حق کو ناحق ثابت کیا جارہا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ایک ایسے ہی معاملے میں بظاہر ایک متقی پرہیزگار شخص صرف اپنے مفاد کی خاطر نافرمان اولاد کا ساتھ دیتا ہے اور نافرمان اولاد کے حق میں جھوٹی گواہی دیتا ہے حالانکہ مذہبی احکام کے مطابق ہر صورت میں مومن کو حق بات کہنا چاہئے، صرف زاہد پُرفریب سے ’’جنت‘‘ نہیں ملتی۔ اللہ حلیہ کے بجائے اعمال کو دیکھتا ہے اور بالخصوص مذہبی طرز زندگی اختیار کرنے والے ناانصافی کریں تو انہیں یقینی طور پر میدان حشر میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا اور اپنے اعمال کی پاداش میں سزا بھی بھگتنی پڑے گی۔ موجودہ دور میں لوگ اگر آخرت کے بارے میں سنتے ہیں تو یہ کہتے ہیں: ’’وہاں کا کون دیکھتا ہے‘‘، یہ بدترین اور شرمناک رجحان قابل مذمت ہے اور شیطان کی پیروی کے مماثل ہے۔ اس سے دنیاوی تعلقات تو متاثر و تباہ ہوتے ہیں ، ساتھ ہی آخرت بھی برباد ہوجاتی ہے۔ اسلام میں انصاف اور مساوات کی تعلیم دی گئی ہے لیکن ہم اس اہم راستے سے ہٹ گئے ہیں اور ہمارا مقصد ِزندگی شان و شوکت اور عیش کی زندگی گذارنا ہے جبکہ زندگی صرف چند روزہ ہے۔ ہماری عبرت کیلئے ماضی کی شاندار عمارتوں کے کھنڈرات قابل دید ہے جبکہ اس قسم کی بے ایمانی اور شیطانی کردار کی ایک مثال میر جعفر ہے جس نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کو دھوکہ دیتے ہوئے سازش کی اور اس شخص کو دھوکہ دیا جو اس کی ترقی کا ذریعہ تھا لیکن اس بے ایمان کا انجام کیا ہوا، ساری دنیا جانتی ہے جو میر جعفر کا منہ کالا ہوا اور آج بھی اس کی زندہ مثال اس کی ٹوٹی پھوٹی حویلی ہے جس میں وہ شان و شوکت سے رہا کرتا تھا جبکہ اس کی حویلی عام طور پر ’’نمک حرام کی حویلی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مقدمات کی یکسوئی کیلئے برسوں لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات مقدمہ کا کوئی فریق فوت بھی ہوجاتا ہے جس سے فریقین میں دشمنی اور بڑھ جاتی ہے جس سے سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ان حالات میں تنازعات کی یکسوئی ایک بہترین طریقہ کار ہے جس سے وہ دوبارہ تعلقات برقرار رکھ سکتے ہیں اور فریقین کثیر اخراجات سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں اور ان کا قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچ سکتا ہے اور عدالتوں کا بوجھ بھی کم ہوسکتا ہے اور فریقین کو سکون اور اطمینان ہوسکتا ہے اور انہیں اس صورت میں نہ تو وکیلوں کے پیچھے دوڑنا پڑتا ہے اور نہ ہی عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ ان حالات میں ہم سب توبہ کرتے ہوئے اللہ سے رجوع ہوں اور حقداروں کو شریعت کے مطابق ان کا حق دیتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت کو سنواریں، ورنہ نہ صرف دنیا بلکہ یوم حشر کے دن وہ انتہائی شرمناک حالات میں ہوں گے اور اس وقت ان کا کوئی دوست یا مددگار نہیں ہوگا۔ اللہ کے پاس صرف انصاف ہی کام کرے گا۔ مزید تفصیلات کیلئے اس نمبر 9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔