مودی حکومت طالبان سے اَنجان

   

روش کمار
طالبان کے بارے میں ہندوستان کا موقف کیا ہے، اس بارے میں سارا ہندوستان اور ساری دنیا جانتی ہے۔ طالبان سے متعلق ہندوستانی اُمور خارجہ کے ترجمان نے ایک مختصر سا بیان دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندوستان، افغانستان میں تمام شراکت داروں اور وہاں کے اہم دعویداروں سے بات چیت کررہا ہے اور اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ اگر افغانستان کے تناظر میں ہم دعویداروں کے معنٰی و مطلب لیتے ہیں تو صرف اور صرف ان کا مطلب ’’طالبان‘‘ ہوتے ہیں کیونکہ افغانستان میں اب صرف طالبان کی دعویداری ہے جبکہ شمالی اتحاد کی آوازیں بھی وقفہ وقفہ سے آتی رہتی ہیں۔ سردست افغانستان میں جو اہم کردار ہے، وہ طالبان کا ہے اور ان کا نام لئے بناء یا ان کے بغیر افغان مسئلہ پر کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ طالبان کے بغیر کسی ایک دعویدار سے یا تمام دعویداروں سے بات چیت کرتے ہیں تو یہ بات چیت نامکمل رہے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستانی حکومت طالبان کا نام لینے سے کیوں گریز کررہی ہے؟ اس معاملے میں اسے کیا، پریشانی لاحق ہے؟حالانکہ دنیا کے کئی ممالک طالبان کے نام بیانات جاری کررہے ہیں، جیسا کہ کینیڈا نے کہا ہے کہ فی الوقت اس کے پاس طالبان کو تسلیم کرنے کا کوئی آئیڈیا نہیں۔ ہندوستان کو بھی یہ کہہ دینا چاہئے کہ طالبان کے ساتھ ساتھ افغانستان کے دیگر دعویداروں سے وہ بات چیت کرے گا۔
ہندوستان کی خاموشی کی وجہ ہوسکتا ہے کہ سفارتی ہو، لیکن طالبان کا نام نہ لینا ناقابل فہم ہے۔ ایک سال قبل ہندوستانی سپاہی مشرقی لداخ کی سرحد پر چین کے ساتھ ٹکراؤ میں شہید ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد گودی میڈیا کی خاموشی گہرے شکوک و شبہات میں تبدیل ہوئی کہ آخر کیا ہوا تھا تب وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے بیان میں بہت کچھ کہا تھا لیکن چین کا نام لینے سے گریز کیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ صورتحال کچھ بھی ہو، کیسی بھی ہو ہندوستان پوری طاقت کے ساتھ اپنی ایک ایک اِنچ زمین کا تحفظ کرے گا اور ملک کی عزت نفس کی حفاظت کرے گا۔ اس وقت وزیراعظم نریندر مودی کو اس بات کیلئے سخت نکتہ چینی کا نشانہ بنایا گیا کہ آخر انہوں نے اپنے بیان میں چین کا نام لینے سے گریز کیوں کیا۔ چین کے ساتھ ہندوستان کا تنازعہ مسلسل جاری ہے لیکن حکومت نے اس تنازعہ سے بھی انکار کیا جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک سال سے اس تنازعہ نے شدت اختیار کر رکھی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ کتنی مرتبہ اس مسئلہ کے حل کے بارے میں خبروں کی اشاعت عمل میں آئی ہے۔ یہاں تک کہ اُس وقت بھی جب وزیراعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کیا، افغان بحران کا حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھا۔ افغان بحران توسیع پسندی اور دہشت گردی سے متعلق ہے۔ آج جبکہ دنیا بھر کی طاقتیں طالبان پر اپنا موقف واضح کررہی ہیں لیکن یہ نہیں معلوم کہ ہندوستان کیا سوچ رہا ہے۔ 15 اگست کا حوالہ اس لئے دیا گیا کیونکہ 15 اگست 2016ء میں وزیراعظم مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے خطاب میں بلوچستان کا نام لیا تھا، گلگت اور پاکستان مقبوضہ کشمیر کا حوالہ دیا جس پر انہیں مبارکباد دی گئی، ان سے اظہار ممنونیت کیا گیا۔ وزیراعظم مودی نے کہا تھا کہ میں لال قلعہ کی فصیل سے آج چند لوگوں کو خصوصی مبارکباد دینا چاہتا ہوں اور ان سے اظہار تشکر کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ چند دنوں سے بلوچستان، گلگت اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے مجھ سے اظہار ممنونیت کیا اور جس طرح اظہار تشکر کیا، اس سے میرے تئیں ان کی خیرسگالی ظاہر ہوتی ہے۔
وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ اور ان کی سرزمین جسے میں نے دیکھا تھا نہیں، جن سے میں نے ملاقات نہیں کی، وہ مجھے ہندوستانی وزیراعظم کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ ان کا احترام کررہے ہیں۔ چونکہ میں اپنی 125 کروڑ ابنائے وطن کا احترام کرتا ہوں، لہذا میرا احترام 125 کروڑ ہندوستانیوں کا احترام ہے اور عزت و احترام کی یہ مثال دراصل بلوچستان ، گلگت اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کا ہمارے تئیں احترام ہے۔ ایسے میں مَیں بلوچستان، پاکستان مقبوضہ کشمیر کے لوگوں سے اپنے دل کی اَتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اظہار تشکر کرتا ہوں۔ اس وقت یہ بات بھی کہی گئی تھی کہ نہ صرف ہندوستان کے مفادات افغانستان سے جڑے ہیں، بلکہ افغانستان کی سرحد سے متصل بلوچستان سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ گوادر، بلوچستان میں واقع ہے جہاں پاکستان ایک عظیم بندرگاہ تعمیر کررہا ہے اور اس کام میں اسے چین کی مدد حاصل ہے۔ گوادر دراصل چاہ بہار کے قریب ہے جہاں ہندوستان ایک بندرگاہ تعمیر کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کی پرانی تقریر کو یاد کیا گیا جسے میڈیا نے فراموش کردیا تھا۔ 2016ء میں میڈیا نے دیکھا تھا کہ بلوچستان کا وزیراعظم مودی کی جارحانہ پالیسی کے طور پر حوالہ دیا گیا، لیکن اِن دنوں وزیراعظم توسیع پسندی کے خلاف تقاریر کررہے ہیں۔ اُس برس وزیراعظم کی جانب سے بلوچستان کا حوالہ دیا جانا ایک بہت بڑی خبر بن گئی تھی۔ ’’نوبھارت ٹائمز‘‘ نے اس خبر کیلئے ایک بڑی سرخی لگائی تھی اور لکھا تھا کہ پاکستان کے تئیں ہندوستان کی پالیسی میں ایک بہت بڑی تبدیلی ہے اور پھر جب اُس سال کی طرح اِس سال بلوچستان کا حوالہ نہیں دیا گیا تو بلوچستان کی سرخی اخبارات سے غائب ہوگئی۔ جبکہ کئی ایسے اخبارات ہیں جو وزیراعظم کی جانب سے بلوچستان کا حوالہ دیئے جانے کے بعد پورے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے مودی جی کی پالیسیوں کی تعریف کے پُل باندھ رہے تھے۔ ’’پتریکا‘‘ جیسے اخبار نے یہاں تک لکھا کہ بلوچستان علیحدہ ہوجائے گا اور مودی نے جیسے ہی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا، پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں خوف و دہشت کی لہر دوڑ گئی۔ کسی میگزین نے یہ سرخی لگائی ’’پاکستانی مقبوضہ کشمیر ۔ بلوچستان مسئلہ پر ہندوستان اور پاکستان آمنے سامنے‘‘۔ ہندی میڈیا نے یہ بھی لکھا کہ ’’بلوچستان دراصل پاکستان کا زخم ہے اور دُکھتی رگ ہے جس پر ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے ہاتھ رکھ دیا ہے‘‘۔ ہندوستانی اخبارات کی اُن رپورٹس پر پاکستان میں شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا اور پاکستان نے اس وقت کہا کہ ہندوستان اس کے داخلی اُمور میں مداخلت کررہا ہے۔ ہمارے انگریزی میڈیا نے بھی وزیراعظم کی جانب سے بلوچستان کا حوالہ دیئے جانے کو بڑی تبدیلی قرار دیا ۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہمارے اسکالرس کا کام ہے کہ مودی جی نے بلوچستان کے بارے میں جو بیان دیا تھا، وہ توسیعی پسندی ہے یا نہیں۔ اگر وزیراعظم بلوچستان کے بارے میں بات کرسکتے ہیں تو پھر افغانستان کے بارے میں کیوں بات نہیں کرسکتے، ہمارے لئے یہ ایک چھوٹا سا سوال ہے۔ اِن مثالوں سے پتہ چلتا ہے کہ علاقہ میں کیا سرگرمیاں ہورہی ہیں، ہندوستان کی ان پر نظر ہے۔ کیا اسے معلوم ہے کہ علاقہ میں اس کے مفادات متاثر ہوئے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 16 ڈسمبر 2014ء کو پشاور کے ایک فوجی اسکول پر دہشت گردانہ حملہ کیا گیا۔ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں کئے گئے اس حملے میں زائد از 150 افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ مہلوکین میں 135 بچے شامل تھے اور وہ اسکول عام علاقہ میں نہیں بلکہ فوجی علاقہ میں تھا۔ اُس وقت یہ کہا گیا کہ وہ حملہ پاکستان میں سرگرم طالبان یا تحریک طالبان پاکستان نے کیا اور اب تک کا وہ سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔ اس دہشت گردانہ تنظیم نے 2013ء کے دوران پشاور میں ہی ایک گرجاگھر کو نشانہ بنایا، اس حملے میں 80 افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ اب وہی تحریک طالبان پاکستان، افغانستان کے طالبان کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ اُس واقعہ کی وزیراعظم نریندر مودی نے دیگر عالمی قائدین کے ساتھ مذمت کی تھی لیکن 15 اگست 2016ء کو اپنے خطاب میں مودی جی نے واقعہ کا تفصیلی حوالہ دیا تھا، ساتھ ہی بلوچستان کے بارے میں بھی بات کی تھی۔ اپنے بیان میں وزیراعظم نے اُن حکومتوں کے بارے میں اظہار خیال کیا تھا جو دہشت گردی کے زیراثر ہے۔ بہرحال افغانستان کا جہاں تک تعلق ہے، وہاں ہندوستان نے کافی سرمایہ کاری کی ہے، ہندوستان، افغانستان اور ایران کے درمیان چاہ بہار جیسے علاقہ میں بندرگاہ کی تعمیر کا معاہدہ بھی طئے پایا ہے، جس کا مقصد دراصل بلوچستان کے گوادر میں چین کے تعاون سے پاکستان جو بندرگاہ تعمیر کررہا ہے، اس کا جواب دینا ہے۔ ہندوستان اس بندرگاہ کے ذریعہ افغانستان کے چار بڑے شہروں تک رسائی حاصل کرنے والا ہے اور وہ روس اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان ریل راہداری کی تعمیر بھی کرنے والا ہے، تاہم طالبان کے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اِن منصوبوں کا کیا ہوگا، ہماری حکومت بہتر جانتی ہے، لیکن سہاسنی حیدر نے جو ’’دی ہندو‘‘ میں خارجی اُمور پر لکھا کرتی ہیں، جولائی میں ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا چاہ بہار پراجیکٹ میں ریل راہداری کی تعمیر مشکلات میں پھنس گئی ہے۔ ایران نے ہندوستان کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے اپنی حصے کی ریل روٹ پر کام شروع کردیا ہے۔ وہ اس بات کو لے کر ناراض ہے کہ ہندوستان، ایران پر امریکی پابندیوں کے باعث اس پراجیکٹ میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے۔ پہلے ایران نے ہندوستانی کمپنیوں کو گیاس فیلڈ میں اہم رول دیا تھا لیکن سہاسنی لکھتی ہیں کہ ایران نے یہ کام او این جی سی کی بجائے اپنی قومی آئیل کمپنی کو دیا ہے۔