مودی حکومت میں جذبہ انسانیت کا فقدان!

   

زینب سکندر
ہندوستان میں کورونا بحران اور وزیراعظم نریندر مودی کے اعلان کردہ اقتصادی پیاکیج سے ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت میں انسانی رابطے یا جذبہ انسانیت کا فقدان پایاجاتا ہے۔ ویسے بھی کئی ایسے زخم ہوتے ہیں جن کی گہرائی اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ انہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کورونا وائرس کی وباء بھی ایسا ہی ایک زخم ثابت ہوگی جو مودی حکومت کے خلاف غریبوں کا موڈ بدل کر رکھ دیگی۔

ہم اور آپ نے کئی ایسے ویڈیوز دیکھے ہیں جس میں بہار کے ایک ریلوے اسٹیشن پر لوگ کو صرف بسکٹس کے لئے لڑ رہے تھے۔ یا پھر بعض ویڈیوز میں مرد و خواتین اور بچوں کو گرما کی چلچلاتی دھوپ میں ننگے پاوں چلتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور اس طرح کے مناظر پر مبنی ویڈیوز ہر روز منظر عام پر آرہے ہیں۔ چلچلاتی دھوپ میں برہنہ پا چلنے والے یہ لوگ کسی بھی طرح اپنے گھر پہنچنے کی کوشش کررہے تھے اور اس کے لئے وہ موت کا سامنا کرنے کے لئے بھی تیار تھے۔ ان مناظر کو دیکھ کر اس بات میں کوئی حیرت نہیں کہ نریندر مودی حکومت مکمل طور پر جذبہ انسانیت سے محروم ہوگئی ہے۔ اگر ہم بالفرض یہ سمجھ لیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا اعلان کردہ 20 لاکھ کروڑ روپے کا اقتصادی پیاکیج ہندوستانی معیشت پر راست اثر انداز ہوگا اس کے باوجود اس ظالمانہ لاک ڈاون سے پیدا ہونے والی المناک داستانوں اور اس کے اثرات کو ختم کرنا مشکل ہوگا۔ بے شمار ماہرین اقتصادیات نے مودی کے نافذ کردہ لاک ڈاون کو دنیاکا سخت ترین لاک ڈاون قرار دیا ہے۔

مودی حکومت جس طرح غریب شہریوں کی پریشانیوں کو دور کرنے میں ناکام ہوئی ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو جس طرح ریاستی حکومت کے کندھوں پر ڈال دیا ہے اور وہ بھی دو ماہ کی تاخیر کے بعد اس سے مودی حکومت کی سیاسی سوچ و فکر کا بخوبہ اندازہ ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو انتخابات میں کامیابی کے لئے متوسط طبقہ کے تائید کی ضرورت ہوگی ہے۔ حقیقت میں اقتصادی پیاکیج کسی بھی طرح غریبوں کے لئے مدد گار نہیں ہے۔ وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے خود مودی کے اعلان کردہ اقتصادی پیاکیج کی تفصیلات سے قوم کو واقف کروایا۔ اس اقتصادی پیاکیج کو مودی اور ان کی ٹیم نے آتمانربھر بھارت ابھیان کا نام دیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس ابھیان میں ہاکرس سے لے کر سڑکوں پر ٹھیلہ بنڈی کے ذریعہ کاروبار کرنے والے اور ایک تاجر سے لے کر چھوٹی اور متوسط صنعتیں چلانے والے، بڑی دیانتداری کے ساتھ ٹیکس ادا کرنے والے متوسط طبقہ اور مینوفیکچرر سب کے سب شامل ہیں۔ نرملا سیتا رامن نے حال ہی میں ان خیالات کا اظہار ایک ٹوئٹ کے ذریعہ کیا تھا۔ اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے یہ بھی کہا تھاکہ یہ اقتصادی پیاکیج عوام کی بہبود کے لئے مودی حکومت کا تحفہ ہے۔ یہ صرف ایک اقتصادی پیاکیج نہیں ہے بلکہ اصلاحاتی Stimulus ہے۔
12 مئی کو بی جے پی کے حامی اچانک حرکت میں آگئے اور عوام کے سامنے 20 لاکھ کروڑ روپے کے اقتصادی پیاکیج سے متعلق وضاحت کرنے لگے۔ سال 2020 کے ایک دن کے 20 ویں گھنٹے میں 20 منٹ کی تقریر کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے جو کچھ بھی اعلان کیا اس سے ایسا لگتا ہیکہ غریبوں کے ساتھ ساتھ متوسط طبقہ کو بھی اس اقتصادی پیاکیج سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور نہ ہی آگے پہنچنے کا امکان ہے اور جب کوئی اچھا کام کرنے کی کوشش کرتا ہے، نقل مکانی کرنے والے مزدوروں سے ملاقات کرکے ان کے خیالات جانتا ہے، ان سے گفت شنید کرتا ہے، گھر جانے سے متعلق ان مزدوروں کے منصوبوں کے پیچھے کارفرما وجوہات کو سمجھتا ہے تب حکمراں جماعت کی وزیر فینانس بڑی تیزی سے اسے ’’ڈرامہ بازی‘‘ قرار دیتی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کمبھ میلے میں پہلے سے ہی صاف ستھرے اور غسل کئے ہوئے سینٹری ورکرس کے پاوں دھونا مثالی کام تھا لیکن راہول گاندھی کا مائیگرینٹ ورکرس کے ساتھ کسی راستہ میں بیٹھ کر تبادلہ خیال کرنا ڈرامہ بازی ہوگیا اور اگر یہ حقیقت میں ڈرامہ بازی تھی تو پھر ان نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کو گرفتار کرنے والے پولیس عہدہ داروں نے یہ اعتراف کیوں کیا کہ اعلیٰ عہدہ داروں سے انہیں ان مزدوروں کی گرفتاری کے احکامات وصول ہوئے تھے۔ راہول گاندھی نے ان مزدوروں کے لئے گاڑیوں کا انتظام کیا تھا اور وہ ان ہی گاڑیوں میں اپنے آبائی مقامات جارہے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کب بی جے پی کو اس قسم کی ڈرامہ بازی کرتے ہوئے اور غریبوں تک پہنچتے ہوئے دیکھیں گے۔

اگر دیکھا جائے تو مختلف ریاستیں اپنے پھنسے ہوئے طلبہ کو دوسری ریاستوں سے لانے کے لئے بسوں کا استعمال کررہی ہیں۔ یہاں تک کہ مودی حکومت کی ایما پر دنیا کے مختلف ممالک میں پھنسے ہوئے ہندوستانیوں کو واپس لنے کے لئے خصوصی طیاروں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس بارے میں حکومت کا موقف ہے کہ وہ بیرونی ممالک میں پھنسے ہوئے اپنے شہریوں کا کتنا خیال رکھتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کو کیسے ترجیح دے رہی ہے۔ 7 مئی سے 64 پروازوں کا آغاز کیا گیا تاکہ 13 مختلف ممالک میں پھنسے ہوئے 14,800 ہندوستانیوں کو واپس لایا جاسکے۔ اس مقصد کے لئے بحریہ کے 14 جہازوں کو بھی تیار رکھا گیا تاکہ خلیجی اور دیگر ممالک سے ہندوستانیوں کا تخلیہ کروایا جاسکے اور اب مودی حکومت اپنے ترجیحی شہریوں کے لئے اقتصادی پیاکیج کا اعلان کرکے اس کے گُن گا رہی ہے۔ دوسری طرف کانگریس اور مودی کے ناقدین نے اس اقتصادی پیاکیج کو صرف جملہ بازی سے تعبیر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 20 لاکھ کروڑ روپے میں سے ریزرو بینک آف انڈیا نے پہلے ہی 9.75 لاکھ کروڑ روپے لیکویڈیٹی اور ان کی منتقلی کا اعلان کیا ہے اور وزیر فینانس نے بھی ماضی میں اسی قسم کا اعلان کیا۔ مابقی 10.25 لاکھ کروڑ روپے اصل رقم ہے جو ہماری قومی مجموعی پیداوار کا 5 فیصد حصہ بنتی ہے10 فیصد نہیں جیسا کے اشتہارات میں ظاہر کیا جارہا ہے۔ بالفرض یہ جملہ بازی بھی نہ ہو تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم ایک ایسے پیاکیج کی توقع کررہے ہیں جس کا ایک بڑا حصہ سڑکوں اور شاہراہوں پر مرنے والوں کو جائے گا، بھوک و پیاس اور گاڑیوں تلے کچلے جارہے لوگوں کو جائے گا؟ لیکن اس کے امکانات بہت موہوم ہیں۔ اس پیاکیج کا مقصد ہندوستان کے متوسط طبقہ کی مدد کرنا ہے جو مودی کا اہم ووٹر تصور کیا جاتا ہے۔

عام انتخابات 2019 کے مطابق 44 فیصد اپر مڈل کلاس اور امیر لوگوں نے بی جے پی کے حق میں وٹ دیا، جبکہ 36 فیصد کمزور طبقات اور غریبوں نے اس پارٹی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی اچھی طرح جان چکی ہے کہ اقتصادی سست روی سے لوور مڈل کلاس غربت کا شکار ہوسکتا ہے اور مڈل کلاس لوور مڈل کلاس میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ انڈین ہیومن ڈیولپمنٹ سروے (ہندوستانی سروے برائے فروغ انسانی وسائل 2011-12 کے مطابق ہندوستان کی 28 فیصد آبادی متوسط طبقہ پر مشتمل ہے جس میں سے 14 فیصد لوور مڈل کلاس اور 3 فیصد اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کا اس بارے میں کہنا ہیکہ 25.7 فیصد ہندوستانی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گذارتی ہے۔ بہرحال انتخابات آتے اور جاتے ہیں اور بی جے پی ان انتخابات کو آزمائے ہوئے حربوں سے جیتنے کی کوشش بھی کرے گی لیکن بعض زخم اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ انہیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ ہوسکتا ہے کہ کورونا وائرس بحران کے دوران مزدوروں کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے وہ سلوک مزدور کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔