مودی حکومت نے کے سی آر کو نظر انداز کیوں کیا ؟

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
ٹی آر ایس نے سنہرا تلنگانہ بنانے کے بجائے ریاست کو مالیاتی خرابیوں کے جال میں پھنسا دیا ہے ۔ سرکاری خزانہ خالی ہے ۔ کے سی آر حکومت آگے چل کر خراب حالات سے گذرے گی ۔ چیف منسٹر کو ریاضی کی الف ب آتی ہوتی تو وہ رقومات کے استعمال اور ریاستی خزانے کی کیفیت کا اندازہ کرتے ہوئے کام انجام دیتے ۔ ریاستی خزانے کو خالی کردینے والی انتخابی پالیسیوں نے جھوٹ کی قلعی کھول دی ہے ۔ حکومت کی کارکردگی کے تعلق سے کچھ سنی ہوئی باتیں نظر انداز کرنے کے لیے نہیں ہوتیں ۔ اپوزیشن کانگریس نے ٹی آر ایس حکومت کی مالیاتی خرابیوں پر خاموشی اختیار کرلی ہے ۔ صرف بی جے پی نے اپنے قائدین کو کام میں مصروف رکھا ہے ۔ لوک سبھا کی چار نشستوں پر کامیاب ہونے کا جوش اس قدر بڑھ گیا ہے کہ تلنگانہ میں بی جے پی کا ہر لیڈر حکمراں پارٹی کی کارکردگی میں نقص نکالنے لگا ہے ۔ کالیشورم پراجکٹ میں 1000 کروڑ روپئے کی دھاندلیوں کا الزام ناقابل نظر انداز ہے ۔ بی جے پی کی قومی قیادت نے ایک طرف تلنگانہ میں اپنی پارٹی کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لیے دورے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے دوسری طرف بی جے پی کی مرکزی حکومت نے تلنگانہ کو مالیاتی طور پر کنگال بناکر چھوڑ دیا ہے ۔ حال ہی میں پیش کردہ مرکزی بجٹ میں وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے تلنگانہ کے لیے کوئی اسکیم نہیں دی اور نہ ہی کوئی اچھا پروگرام پیش کیا ہے ۔ تلنگانہ کے خاص پراجکٹس کالیشورم اور مشن بھاگیرتا کے بارے میں بھی مرکزی بجٹ خاموش ہے ۔

حکومت تلنگانہ نے ان دو پراجکٹس کے لیے فنڈس مختص کرنے کی بار بار درخواست کی لیکن مودی حکومت نے اس درخواست کو خاطر میں ہی نہیں لایا ۔ حالانکہ نیتی آیوگ نے بھی سفارش کی تھی کہ تلنگانہ کو فنڈس جاری کئے جائیں ۔ ٹی آر ایس کے کارگذار صدر کے ٹی راما راؤ نے مرکزی بجٹ میں ریاست کے لیے کچھ نہ ہونے پر مایوسی ظاہر کر کے اپنی حکومت کی بے بسی کا اظہار کیا ۔ بجٹ میں تلنگانہ کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ۔ بجٹ کی پیشکشی سے ایک دن قبل معاشی سروے رپورٹ میں ہی تلنگانہ کے اختراعی اقدامات کی ستائش کی گئی لیکن ریاست کی ضرورتوں کا خیال نہیں رکھا گیا ۔ کے سی آر کی اسکیمات کے ریاستی و قومی سطح پر چرچے تو بہت ہوتے ہیں لیکن ریاست کو 24000 کروڑ روپئے مختص کرنے کی سفارش کو مرکز نے نظر انداز کردیا ۔ کالیشورم یا آبپاشی پراجکٹس کو قومی پراجکٹ کا موقف دینے کے مطالبہ کو بھی قبول نہیں کیا گیا ۔ تلنگانہ کے قیام کے پانچ سال بعد بھی مرکز نے نئی ریاست کے حق میں جو وعدے کئے تھے اسے پورے نہیں کئے ۔ دراصل تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کی کارکردگی کو صفر بتاتے ہوئے بی جے پی اپنے سیاسی عزائم کو بروئے کار لانا چاہتی ہے ۔ بی جے پی کی اس چالاکی کا جواب دینے سے کے سی آر بالکل قاصر نظر آرہے ہیں ۔ ظاہر بات ہے قومی سطح پر حکمراں پارٹی بی جے پی کو تلنگانہ میں قدم جمانے ہیں تو وہ ٹی آر ایس حکومت کا ساتھ کیوں دے گی ۔ اس لیے بی جے پی کے ریاستی قائدین کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ ٹی آر ایس حکومت کی ناکامیوں کے خلاف محاذ کھول کر عوام کا ذہن تبدیل کردے ۔ تلنگانہ کو 1.80 لاکھ کروڑ کے قرض سے دوچار کرنے والے چیف منسٹر کے سی آر کو بی جے پی ریاستی لیڈر کے لکشمن نے کھلا چیلنج بھی کیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں بی جے پی کی جانب سے حکمراں ٹی آر ایس کی خرابیوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا ۔ نئے سکریٹریٹ کی تعمیر کے لیے عوامی ٹیکس سے حاصل کردہ رقومات کو ضائع کردیا جائے تو بی جے پی تو چپ نہیں رہے گی ۔ سرکاری خزانہ خالی ہونے کے باوجود کے سی آر نیا سکریٹریٹ بنانے کی ضد پر قائم ہیں تو پھر تلنگانہ ریاست دن بہ دن قرض کے بوجھ میں دب جائے گی ۔ گذشتہ 65 سال کے دوران 16 چیف منسٹروں نے حکومت کی اور انہوں نے 69,000 کروڑ کا قرض کھڑا کیا لیکن کے سی آر نے صرف پانچ سال میں ریاست کو 1.20 لاکھ کروڑ کا مقروض بنادیا ۔ اس قرض پر جو سود بنتا ہے اس کی ادائیگی میں ہی تلنگانہ ریاست کے خزانہ کو خالی کردیا جائے گا ۔ عوام کی جیب سے پیسہ نکال کر خزانے بھرنے کی ہمت یہ دکھائی جارہی ہے کہ عام شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ چھوٹے بیوپاریوں اور کم آمدنی والے تاجروں کو ٹیکس کے حوالے سے تنگ کیا جارہا ہے تو راستہ چلنے والے موٹر گاڑیوں کو اندھا دھند غیر ضروری بلاوجہ چالانات کر کے اس کے ذریعہ رقم بٹوری جارہی ہے ۔ ایسی زیادتیاں صرف غریب عوام پر کی جاتی ہیں ۔ ریاست تلنگانہ کے عوام بھی اس مہنگائی کی مار سے محفوظ نہیں ہیں ۔ عوام کا رزق معیشت کے ظالم ٹھیکیداروں کی تجوری میں چھپایا گیا ہے ۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ ریاستی خزانے کو لوٹے کوئی اور ، اور سزائیں عوام کو مہنگائی کی صورت دیدی جائے ۔ المیہ مگر یہ ہے کہ عوام اس بوجھ پر خاموش ہیں ۔ اس نئی ریاست میں ایک طرف معصومانہ سوال زیر گشت ہے کہ ٹی آر ایس حکومت ہر معاملے میں مرکز کی مودی حکومت کا ساتھ دے رہی ہے تو اس کے عوض تلنگانہ کو مرکز نے کیا دیا ہے ۔ مرکز کے ہر غلط فیصلوں کی تائید کرتے وقت کے سی آر کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ریاست تلنگانہ کے حصہ کا فنڈس دینے میں مرکز کوتاہی کرے گا تو اس کا جوابی اقدام کیا کیا جانا چاہئے ۔ ایسی لا علم قیادت ایک نئی ریاست کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہی ہوتی ہے ۔ تلنگانہ کے مقدر کا سکندر کہنے والے کے سی آر کو اس قدر جلد سرکاری خزانہ خالی ہونے کا اندازہ نہیں تھا اس لیے انہوں نے کوئی احتیاطی پہلو اختیار نہیں کیا ۔ یہ تو اچھا ہے کہ ریاست میں ٹی آر ایس حکومت کے سامنے کوئی مضبوط اپوزیشن نہیں ہے ورنہ حکومت کی نیندیں حرام ہوجاتیں ۔ کے سی آر کی یہ خوش قسمتی ہے کہ آئندہ پانچ سال تک ان کی مخالفت کرنے والا مضبوط گروپ نہیں ہے ۔ اس کے باوجود ان کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ مرکز نے انہیں بری طرح نظر انداز کردیا ہے ۔ تلنگانہ کو زرعی شعبہ میں نمایاں مقام حاصل ہونے کے باوجود مودی حکومت نے کے سی آر کو زرعی مسائل کا جائزہ لینے کے لیے ریاستی چیف منسٹروں کے اعلیٰ اختیاری کمیٹی سے دور رکھا گیا ۔ وزیراعظم مودی نے چیف منسٹروں کی اس 9 رکنی کمیٹی میں کے سی آر کو شامل نہیں کیا ۔ اسی طرح مرکز نے کے سی آر کی زرعی ترقیاتی کاموں اور کوششوں کو نظر انداز کردیا ہے ۔۔
kbaig92@gmail.com