مودی حکومت کے دوران قرض میں 50 فیصد اضافہ ، 82 لاکھ کروڑ روپئے ہوگیا

   

گزشتہ مدت کے دوران قرضہ جات کے اضافے کی شرح میں اضافہ ، موقف رپورٹ کے آٹھویں ایڈیشن کا رسم اجراء
نئی دہلی 20 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) حکومت کی جملہ واجبات میں مودی دور حکومت میں 49 فیصد اضافہ ہوا اور وہ گزشتہ 4 سال 6 ماہ کے دوران 82 لاکھ کروڑ روپئے ہوگئیں۔ اسٹیٹس رپورٹ برائے سرکاری قرضہ جات کے آٹھویں ایڈیشن کا جمعہ کو رسم اجراء انجام پایا۔ جس کے بموجب 2018 ء تک دستیاب معلومات کے مطابق جب مرکزی حکومت کے جملہ قرضہ جات کی مالیت کا تخمینہ کیا گیا تو یہ 82,03,253 کروڑ روپئے تھا۔ جون 2014 ء تک اِسی دور میں مرکزی وزارت فینانس کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق حکومت نے 54,90,763 کروڑ روپئے کا قرض حاصل کیا تھا۔ حکومت کے قرض میں یہ زبردست اضافہ 51.7 فیصد اضافہ ہے۔ 48 لاکھ کروڑ روپئے سے یہ ساڑھے چار سال کی مدت میں 73 لاکھ کروڑ روپئے ہوگیا جس کے نتیجہ میں داخلی قرضہ جات کی مالیت میں تقریباً 68 لاکھ کروڑ روپئے کا اضافہ ہوا۔ بازار سے محصلہ قرضوں پر انحصار میں 47.5 فیصد یعنی 52 لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ اِس مدت کے دوران اضافہ ہوا جبکہ طلائی بانڈس کے ذریعہ قرضہ جات حاصل کئے گئے جو جون 2014 ء تک 9089 کروڑ روپئے تھے۔ اِن میں تمام طلائی رقومات اسکیمس بھی شامل ہیں۔ مرکزی حکومت نے موقف رپورٹ میں سرکاری خرچ کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے۔

اِس میں بحیثیت مجموعی حکومت ہند کے قرض کا موقف سالانہ موقف مضمون میں جو سرکاری قرضہ جات کے بارے میں ہے 2010-11 ء سے لے کر اب تک بیان کیا گیا ہے۔ وزارت فینانس نے کہاکہ بحیثیت مجموعی مرکزی حکومت کی واجبات اوسط میعاد میں انحطاط کے رجحان پر تھی۔ حکومت کے قرضہ جات کی وزارت کی خصوصیت یہ ہے کہ اِس کے نتیجے میں خطرات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مضمون مالیاتی خسارے کو حکومت کے مالیہ فراہم کرنے کی کارروائیوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ حکومت بنیادی طور پر بازار سے مربوط قرضہ جات مالیتی خسارے کے پابجائی کے لئے حاصل کرتی ہے۔ روایتی اشاروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے قرضے جات آسانی سے ٹھوس قرضہ جات کے پیمانوں پر ناپے جاسکتے ہیں۔ اِن میں مستقل طور پر اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جبکہ ملک کا قرض بڑھتا جارہا ہے۔ مالیاتی سال کے دوران کسی قسم کی مدد حاصل ہونے کی توقع نہیں ہے۔ نومبر تک پہلے 8 مہینوں میں مالیاتی خسارہ 7.17 لاکھ کروڑ روپئے تھا، یا 114.8 فیصد 6.24 لاکھ روپئے کا تھا حالانکہ یہ ہمارا سالانہ ہدف ہے۔