مودی کی سوچ اور نتائج

   

پی چدمبرم

آسام، کیرالا، تاملناڈو اور مرکزی زیر انتظام علاقہ پڈوچیری میں آج سے دو دن بعد رائے دہی کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ جبکہ مغربی بنگال میں جہاں الیکشن کمیشن 8 مرحلوں میں رائے دہی کروا رہا ہے۔ 3 مرحلوں کی رائے دہی مکمل ہوچکی ہوگی۔ جہاں تک آسام اور مغربی بنگال جیسی کثیر آبادی کی حامل ریاستوں کا سوال ہے ان ریاستوں میں بی جے پی کا سب کچھ داو پر لگا ہوا ہے جبکہ دیگر تین ریاستوں میں وہ اپنا موقف مضبوط کرنے کے لئے جان توڑ کوشش کررہی ہے۔ دوسری جانب آسام اور کیرالا میں کانگریس کا بھی سب کچھ داو پر لگا ہوا ہے۔ ان دو ریاستوں جہاں کبھی کانگریس اقتدار میں تھی وہ پھر سے اقتدار حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔ جہاں تک تاملناڈو کا معاملہ ہے اس ریاست میں کانگریس ڈی ایم کے کی اقتدار پر واپسی میں مدد کررہی ہے۔
کسی بھی انتخابات کے نتائج کے بارے میں کوئی کسی بھی چیز یقینی نہیں ہوسکتی یعنی نتائج کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ ویسے بھی ان انتخابات میں صرف کانگریس یا بی جے پی کی جیت ہار کا سوال نہیں ہے بلکہ انتخابی میدان میں جب کیرالا میں سی پی آئی (ایم) مغربی بنگال میں ٹی ایم سی اور پڈوچیری میں AINRC جیسی کلیدی جماعتیں موجود ہوں تو انتخابی نتائج کے بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔ ان ریاستوں میں عوامی مقبولیت کے حامل لیکن متنازعہ شخصیتیں اپنی جماعتوں کی قیادت کررہی ہیں۔ مثال کے طور پر کیرالا میں پی وجین، مغربی بنگال میں ممتابنرجی اور پڈوچیری میں این رنگا سوامی ۔

ڈی ایم کے، ٹی ایم سی ہوں گی کامیاب
ماقبل رائے دہی جو سروے منظر عام پر آئی ہیں ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہیکہ اس طرح کے سروے صرف انتخابات کے سمت کے بارے میں اشارہ کرسکتے ہیں۔ نتائج کے بارے میں نہیں۔ مختلف سروے کی بنیاد پر مجھے ایسا لگتا ہیکہ تاملناڈو میں ڈی ایم کے اتحاد کو اور مغربی بنگال میں ٹی ایم سی کو کامیابی ملے گی اسی طرح آسام اور کیرالا میں دلچسپ نتائج برآمد ہونے کی امید ہے۔ میرے خیال میں مذکورہ دونوں ریاستوں میں جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے کافی اتحاد سرگرم ہیں حیرت انگیز نتائج آئیں گے لیکن پڈوچیری میں صورتحال الجھن سے بھری ہے۔ وہاں کے امکانی انتخابی نتائج کے بارے میں بہت زیادہ الجھن پائی جاتی ہے۔
جہاں تک ان انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے چھیڑے گئے۔ مسائل و موضوعات کا سوال ہے۔ کانگریس ریاستوں کے حقوق، سیکولرازم، ہندوستان کی متنوع تہذیب اور تباہ کن معاشی حالت جیسے سلگتے موضوعات پر انتخابات لڑرہی ہے۔ بی جے پی کا اپنا ایک مخصوص ایجنڈہ ہے۔ مغربی بنگال میں شہریت ترمیمی قانون کو اس نے انتخابی موضوع بنایا ہے لیکن آسام میں شہریت ترمیمی قانون پر اس نے خاموشی اختیار کی ہے۔ کیرالا، تاملناڈو اور پڈوچیری میں فرقہ وارانہ ایجنڈہ اس کا ہتھیار ہے۔ اس مرتبہ کانگریس وسیع تر اتحاد کرتے ہوئے بی جے پی کے کانگریس سے پاک ہندوستان کے مقصد کو ناکام بنا دیا۔ اس کے برعکس بی جے پی نے اپنے ایجنڈہ کو انتہائی جارحانہ انداز میں آگے بڑھاتے ہوئے ایک طرح سے بہت بڑا جوا کھیلا ہے۔
پانچ میں سے چار ریاستوں کے انتخابی نتائج بہت زیادہ دلچسپی کے حامل ہوں گے۔ فی الوقت جو سب سے بڑا سوال ہے وہ یہ ہیکہ مرکز میں بی جے پی کی زیر قیادت حکومت کے مابقی سال ملک میں کیسی حکمرانی ہوگی؟ مودی حکومت کے جو بنیادی اصول ہیں وہ سب پر عیاں ہیں (اور بنیادی طور پر مودی کیسے شخص ہیں سب جانتے ہیں)

پہلی باتت تو یہ ہیکہ مسٹر نریندر مودی کسی بھی ناراضگی کو قطعی برداشت نہیں کریں گے۔ ناراض حزب اختلاف (اپوزیشن) اور ناراض اپوزیشن قائدین کو سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کانگریس مودی حکومت کا اصل نشانہ ہے۔ دوسری جماعتیں حکومت کی انتقامی کارروائی کا نشانہ بنیں گی۔ ویسے بھی کانگریس کے ساتھ دیگر کئی جماعتوں کو مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ پہلے ہی نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ ایسی جماعتوں میں جموں و کشمیر کی نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس، مہاراشٹرا کی نیشلسٹ کانگریس پارٹی، کیرالا میں سی پی آئی ایم تاملناڈو میں ڈی ایم کے شامل ہیں جو جماعتیں اب تک مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کا نشانہ بننے سے بچی ہوئی ہیں ان میں اڈیشہ کی بیجو جنتادل، آندھرا پردیش کی وائی ایس آر کانگریس پارٹی اور تلنگانہ کی حکمراں جماعت تلنگانہ راشٹریہ سمیتی (ٹی آر ایس) اور ان کے قائدین شامل ہیں۔ دوسری طرف جن سیاسی جماعتوں سے بی جے پی کی حکومت بہت زیادہ لاڈ کرتی ہے ان میں بہار کی جنتادل اور تاملناڈو کی اے آئی ایم اے ڈی ایم کے نمایاں ہیں۔ جہاں تک مرکزی حکومت کی جانب سے اپنی حریفوں سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن قائدین کو مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ نشانہ بنائے جانے کی بات ہے آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کسی بھی مرکزی حکومت نے صرف ایک سیاسی جماعت کی اجارہ داری قائم کرنے اپنے اختیارات کا اس قدر بیجا استعمال نہیں کیا ہوگا جس طرح مودی حکومت اپنے اقتدار و اختیارات کا بیجا استعمال کررہی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہیکہ لوک سبھا میں غیر معمولی واضح اکثریت اور راجیہ سبھا میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کی صلاحیت ایسے قوانین منظور کرنے کے لئے استعمال کی جائے گی جو واضح پر غیر دستوری ہیں، ساتھ ہی غیر منصفانہ بھی ہیں۔ جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی موقف ختم کرتے ہوئے اس کے درجہ کو گھٹانے اور حکومت دہلی کے اختیارات محدود کرنے سے متعلق قوانین یا قانون سازی اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔ حکومت دہلی کے اختیارات کسی بلدیہ کے اختیارات کی طرح کردیئے گئے ہیں ، تمام اختیارات جمہوری طور پر منتخب حکومت کو تفویض کرنے کی بجائے لیفٹننٹ گورنر کے حوالے کردیئے گئے۔ سابق میں مودی حکومت نے لوک سبھا میں اپنی اکثریت اور راجیہ سبھا میں اپنی عیاری کے بل بوتے پر جو قانون سازی کی یا قوانین منظور کروائے ان میں شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور تین زرعی قوانین شامل ہیں۔ مودی حکومت سے اس طرح کے مزید غیر دستوری اور غیر منصفانہ قوانین لانے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

تیسری اہم بات یہ ہے کہ مودی حکومت میں انتظامیہ یا نظم و ضبط میں بہتری لانے نئے تجربات، نئے پہلوؤں کے لئے نئے آئیڈیاز کی جگہ نہیں رہے گی۔ صرف ایک ہی فکر کی جگہ رہے گی اور وہ ہے ’’مودی سوچ یا مودی فکر‘‘ اس ضمن میں ہم کووڈ۔ 19 ٹیکہ اندازی پروگرام کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ ہاں … اس مہم میں صحت اور محاذی کارکنوں کو اولین ترجیح دینا ایک درست قدم تھا لیکن حکومت نے بعد میں جو اقدامات کئے وہ تمام کے تمام بالکل غلط تھے۔ خاص طور پر ٹیکے اندازی کے ناقص مراحل ٹیکہ اندازی کے لئے ناموں کا اندراج کروانے سے متعلق ایپ مابقل اندراج کی شرط کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کے غیر موثر اقدامات یہ سب غلط ہی تھے۔ غرض ہمارے ملک میں ٹیکہ اندازی کی مہم عہدہ داروں کے تساہل یا تاناشاہی کے نتیجہ میں سست رفتاری کا شکار ہوئی۔ اس کے نتیجہ میں لاکھ لوگوں کورونا وائرس سے متاثر ہوں گے اور ہر روز ہزاروں اپنی زندگیوں سے محروم ہو جائیں گے۔ اس طرح حکومت کے تمام پروگرامس و اسکیمات چاہے وہ پی ایم آواز یوجنا ہو یا پھر آواز یوجنا سے لیکر فصل بیمہ اسکیم ہو مودی سوچ و فکر سے ضرور متاثر ہوں گی اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ دونوں اسکیمات بالکل ناکام رہیں۔
چوتھی اہم بات یہ ہے کہ مودی حکومت میں آنے والے دنوں میں صنعتی گھرانوں سے مضبوط معاشی حالت کی بحالی کو خطرہ لاحق ہوگا۔ کیونکہ حالیہ عرصہ کے دوران معیشت متاثر ہوئی نتیجہ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بیروزگار ہوئے یہ اور بات ہیکہ روزگار کے بہت تھوڑے مواقع پیدا کئے گئے۔ آبادی کے ہر طبقہ کی آمدنی کو گھٹا دیا گیا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو غربت اور قرض کے دلدل میں ڈھکیل دیا گیا۔ غریبوں اور متوسط طبقات کے ساتھ حکومت ی ہمدردی کہیں نظر نہیں آتی۔ پٹرول، ڈیزل، پکوان گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کے علاوہ چھوٹی بچتوں پر شرح سود میں کمی اس کی چند مثالیں ہیں حالانکہ افراط 6 فیصد دکھایا جارہا ہے اور اس میں مزید اضافہ کا امکان ہے، ان حالات میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا انتخابی نتائج مودی فکر کے بنیادی اصولوں کو مستحکم کریں گے یا یہ انتخابی نتائج حکومت اور حکمراں جماعت کو دہلا کر رکھ دیں گے؟