موہن بھاگوت … مسلمانوں کو ’’بھائی ‘‘ کہنے پر مجبور !

   

شنکر آرنیویش
آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے پھر ایک بار ہندو مسلم بھائی بھائی کی بات کی اور کہا کہ ہندو اور مسلمان ایک ہی آباء و اجداد کی اولاد ہیں، لیکن ان کی عبادت کا طریقہ الگ الگ ہے۔ مسٹر بھاگوت ، انفارمیشن کمشنر اور سابق صحافی ادئے ماہرکر کی کتاب ’’ویر ساورکر: دی میان ہو کڈ ہیف پریونٹیٹ پارٹیشن‘‘نامی کتاب کی رسم اجراء تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے اس موقع پر اکھنڈ بھارت یا متحدہ ہندوستان سے متعلق آر ایس ایس کے خوابوں کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ وہ ایسے اکھنڈ بھارت کے حق میں ہیں جس میں پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہوں گے۔ موہن بھاگوت کو امید ہے کہ اکھنڈ بھارت کے متعلق آر ایس ایس کا خواب ایک دن ضرور پورا ہوگا۔ آر ایس ایس سرسنچالک یا آر ایس ایس کے سربراہ نے تقریب میں بار بار اس بات پر زور دیا کہ ہندو اور مسلمانوں کے آباء و اجداد ایک ہی ہیں اور یہ دونوں بھائی ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران ملک و بیرون ملک بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت میں بڑھتی فرقہ پرستی کو لے کر تشویش ظاہر کی گئی تھی اور جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ایسے میں موہن بھاگوت ہندو مسلم بھائی بھائی کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں، لیکن اس معاملے میں بھی وہ آر ایس ایس کے نظریہ کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ ہندو اور مسلمانوں کے آباء و اجداد ایک ہی ہیں اور ہم آپس میں بھائی ہیں۔ ایک ہی ملک میں رہتے ہیں۔ ہماری تہذیب ایک ہے، لیکن عبادت کے طریقے جدا جدا ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھاگوت بھی اس حقیقت کو سمجھ گئے ہیں کہ ہندوستانیوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنا ناممکن تو نہیں مشکل بہت ہے۔ موہن بھاگوت کے مطابق عبادت کے طریقہ کار کی بنیاد پر کسی سے بھی امتیاز نہیں برتا جاسکتا۔ جو ہندوستانی ہیں، ان کی سلامتی ہماری ذمہ داری ہے۔ (آر ایس ایس سربراہ کا یہ کہنا کہ تمام ہندوستانیوں کی سلامتی ہماری ذمہ داری ہے، عجیب لگتا ہے اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کس بنیاد پر اس طرح کی باتیں کرسکتے ہیں۔ موہن بھاگوت کا یہ بھی کہنا تھا کہ ساورکر کا ہندوتوا وویکانندا سے مختلف نہیں تھا اور نہ ہی یہ مسلمانوں کے خلاف ہے۔ ہماری تہذیب ایک فراخدلانہ تہذیب ہے اور اس تہذیب کا نام ہندوتوا ہے جس میں کوئی بھی اپنے طریقہ عبادت کے باعث علیحدہ نہیں ہوسکتا۔ ہم تو ایک ہی آباء و اجداد کی اولاد ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اگر یہ سوچ و فکر تحریک آزادی کے وقت ہوتی تب ملک کی تقسیم کو روکنے کا وہ ایک طریقہ ثابت ہوتی۔ اپنے خطاب میں موہن بھاگوت نے 17 ویں صدی کے مرہٹہ حکمراں چھترپتی شیواجی کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ خدا نے ہی ہندوؤں اور مسلمانوں کو پیدا کیا اور اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ بھاگوت کے مطابق اکثریت اور اقلیت کچھ نہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے گورنر کیرالا عارف محمد خاں کی حالیہ تقریر کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک ہی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہ تہذیب ہم سب کی تہذیب ہے۔ بھاگوت کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ سارے عالم کیلئے ضروری ہے کہ کوئی بھی ہندوستان سے الگ رہ کر خوش نہیں رہ سکتا۔ ہمارا خواب ہندوستان میں ایک مثالی اخوت پر مبنی معاشرہ کی تشکیل ہونا چاہئے۔ ایک طرف بھاگوت نے ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے لگائے ، دوسری طرف کتاب کے مصنف ماہورکر کے اس موقف کی تائید کی کہ ہمارے ملک کی سڑکیں ان مسلم بادشاہوں سے موسوم نہیں ہونی چاہئے جنہوں نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا اور جو ہماری تہذیب و تمدن کے خلاف تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ اکبر اچھے ہیں لیکن اورنگ زیب نہیں۔ کئی اچھی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ داراشکوہ سے لے کر مجاہد آزادی اشفاق اللہ خان جیسی شخصیتوں کا احترام کیا جانا چاہئے۔ آر ایس ایس سربراہ نے یہ بھی کہا کہ کسی کی بھی خوشامد کبھی بھی ہمارا منترا نہیں رہا اور ساورکر نے بھی یہی پروپگنڈہ کیا۔ بھاگوت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ گاندھی اور ساورکر کے درمیان کئی مسائل پر اختلاف رائے تھا لیکن دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھا، لیکن چند لوگ تھے جنہوں نے دونوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی۔
کتاب کی رسم اجراء تقریب میں راجناتھ سنگھ نے تو عجیب و غریب باتیں کیں ۔ ان کے خیال میں مارکسسٹ مورخین نے ساورکر کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ کوئی ساورکر کو فاشسٹ اور نازی کہتا ہے لیکن وہ ایک عظیم قوم پرست مجاہد آزادی تھے اور گاندھی کی ہدایت پر ہی ساورکر نے انگریزوں سے رحم کی درخواست کی تھی جو ہر قیدی کا حق ہے لیکن ساورکر کو بدنام کرنے کیلئے رحم کی درخواستوں کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ وہ دراصل اپوزیشن کے ان دعوؤں کا حوالہ دے رہے تھے جس میں الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ساورکر نے انگریزوں سے معافی مانگی تھی اور اس کے لئے مکتوبات لکھے تھے۔ (آر ایس ایس اور بی جے پی قائدین ساورکر کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ تاریخی ریکارڈ میں اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ساورکر نے انگریزوں سے ایک نہیں دو نہیں بلکہ کئی مرتبہ رحم کی بھیک مانگی تھی اور جہاں تک گاندھی جی کے مشورے پر ان کا ایسا کرنے کا سوال ہے، وہ بالکل غلط ہے، اس لئے گاندھی جی 1915ء کے بعد جنوبی آفریقہ سے ہندوستان آئے اور وہ جب آئے تب وہ مہاتما گاندھی نہیں تھے بلکہ موہن داس کرم چند گاندھی تھے)