مہاراشٹرا میں شیوسینا۔ بی جے پی اتحاد

   

مہاراشٹرا میں بی جے پی اور شیوسینا کے درمیان نشستوں کی تقسیم کو قطعیت دینے کے بعد پھر ایک بار یہ واضح ہوگیا ہے کہ اقتدار کے پانچ سال کے دوران ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے والی یہ حلیف پارٹیاں انتخابات کے موقع پر نشستوں کی تقسیم عمل میں لاتے ہوئے خاموشی سے اپنے امیدواروں کا اعلان کردیتی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے 125امیدواروں کی فہرست جاری کرنے کے فوری بعد شیوسینا نے 124 امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا۔ ادھاو ٹھاکرے کی زیرقیادت شیوسینا کو مزید 2 نشستوں کی آرزو ہے ، اگر اس پر بات چیت ہوتی ہے تو حلیف پارٹی بی جے پی بگ بی کا رول ادا کرے گی کیونکہ اس کو مہاراشٹرا میں اپنی دیگر حلیف پارٹیوں کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے اس لئے بی جے پی کو اپنے کوٹہ میں سے اٹاولے گروپ کی پارٹی آر پی آئی کو نشستیں دینی پڑیں گی کیونکہ شیوسینا نے اس مرتبہ انتخابی اتحاد کے لئے ففٹی ففٹی کا فارمولہ پیش کیا تھا۔ 288 رکنی مہاراشٹرا اسمبلی میں اگر دونوں پارٹیاں آدھا آدھا پر ضد کرتی ہیں تو دونوں کے حق میں 144 فی پارٹی آئیں گے لیکن جب کہ بی جے پی اپنے 125 امیدواروں کا اعلان کردیا ہے اور وہ 162 نشستوں پر مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔تو شیوسینا کو 126 نشستیں دی جائیں گی ابھی یہ طئے ہونا باقی ہے۔21 اکٹوبر کو ہونے والے اسمبلی انتخابات دونوں پارٹیوں کیلئے اہم ہیں خاص کر شیوسینا کے لئے اس مرتبہ یہ انتخابات پارٹی کے نئے چہرے آدتیہ ٹھاکرے کی کامیابی کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔

شیوسینا میں رشتے کے بھائیوں کے سیاسی مستقبل کا آغاز کرنے کے لئے یہ انتخابات اہم ہیں۔اس سے پہلے بھی شیوسینا کی جذباتی سیاست پر ٹھاکرے خاندان کے چچازاد بھائیوں کو میدان میں لایا گیا تھا۔ مہاراشٹرا میں شیوسینا کے سیاسی خاندان کا جو موقف ہے اس پر کوئی حرف آنے نہیں دیا گیا تھا اور نہ ہی کوئی اس پارٹی کی قیادت اور قائدین کے بارے میں سوال اٹھاتا ہے۔ عوامی تائید کے حصول میں کامیاب یہ خاندان ہربار انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بناتا ہے۔ شیوسینا کے بانی بال ٹھاکرے کے خاندان یا ورثہ کو آگے بڑھانے والوں کی یہ کوشش ہے کہ پارٹی میں خاندانی نمائندگی کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنایا جائے۔ ماضی میں ادھاوٹھاکرے اور راج ٹھاکرے کے کردار نے شیوسینا کو الگ رنگ دیا تھا ۔ اودھا نے اپنا سیاسی کیریئر دھیمے طور پر شروع کیا تھا جبکہ راج ٹھاکرے نے جارحانہ تیور کے ساتھ مہاراشٹرا کی سیاست میں گرمی پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس میں وہ ایک یا دو مرتبہ کامیاب بھی ہوئے۔ غیر مراٹھا شہریوں کے خلاف ان کی کارروائیوں کو کوئی فراموش نہیں کرسکتا۔ مہاراشٹرا میں شمالی ہند کے افراد کے خلاف آواز اُٹھانے والے راج ٹھاکرے نے شیوسینا کی شبیہ کودوہرا رنگ دے دیا۔ اب آدتیہ ٹھاکرے کی شمولیت نے بھی کئی سوال پیدا کئے ہیں۔ ٹی وی اینکرس نے آدتیہ ٹھاکرے کو کانگریس کے راہول گاندھی سے تعبیر کیا تھا۔ اگرچیکہ انہوں نے اپنی اس زبانی لغزش پر معذرت خواہی کی ہے لیکن اگر واقعی شیوسینا کے لئے آدتیہ ٹھاکرے بھی کانگریس کے راہول گاندھی ثابت ہوں گے تواس خیال کے ذریعہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ شیوسیناکو بھی سیاسی زوال آنے والا ہے۔ مہاراشٹرا کے سیاسی حلقوں میں جو کچھ بحث ہورہی ہے اس سے ہٹ کر یہ انتخابات شیوسینا اور بی جے پی کے درمیان اتحاد کے ساتھ لڑے جارہے ہیں لیکن بی جے پی کو شیوسینا کے خاندانی اختلافات کا بھی فائدہ مل سکتا ہے۔ شیوسینا نے اپنے داخلی اختلافات کو باہر آنے نہیں دیا ہے لیکن یہ چنگاری زیادہ دن دبائی نہیں جاسکے گی۔ 1966 میں شیوسینا کے قیام کے بعد سے اس پارٹی نے بتدریج مہاراشٹرا کے ایک حصہ کے رائے دہندوں کی نمائندگی کی ہے۔

اب 2019 میں اس کا موقف اس کی حلیف بی جے پی کے سامنے کمزور ہوتادکھائی دے رہا ہے۔ 2012 میں بال ٹھاکرے کی موت کے بعد شیوسینا اگرچیکہ اپنے سیاسی وزن کو بڑھانے کی کوشش کی ہے مگر اس کا بی جے پی کے سوا سیاسی وجود ہی نہیں ہے۔ بہرحال یہ انتخابات ہی شیوسینا کے مستقبل کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ بال ٹھاکرے کے خاندان میں داخلی رسہ کشی کا اثر انتخابات پر کس حد تک پڑے گا اور شیوسینا کے امکانات کو کس قدر دھکہ لگے گا یہ تو انتخابی نتائج سے ہی ظاہر ہوگا۔