میر عثمان علی خاں آصف سابع یادوں کی راہ گزرپر

   

مصنفہ : نسیمہ تراب الحسن تبصرہ : محمد ریاض احمد
ایک ہزار سالہ تاریخ میں دنیا کی چھٹویں دولت مند ترین شخصیت جسے 236 ارب ڈالرس کا مالک بتایا گیا اس شخصیت کی زندگی آپ سمجھتے ہوں گے آج کے ارب پتی حکمرانوں صنعتکاروں اور سیاستدانوں کی طرح پرتعیش رہی ہوگی !! نہیں … ایسا نہیں ہے ۔ ایک خوشحال ترقی یافتہ وسیع و عریض سلطنت کے حکمراں ہونے کے باوجود انھوں نے انتہائی سادہ سیدھی زندگی گذاری اور جب وہ اس دارفانی سے رخصت ہوئے تو لاکھوں کی تعداد میں رعایا اپنے انسانیت دوست بادشاہ کے آخری سفر کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے سڑکوں پر نکل آئی ۔

عیش و عشرت کی زندگی سے گریز فضول خرچی سے نفرت ، سادگی سے قربت، بلالحاظ مذہب و ملت تمام انسانوں سے محبت ، رعایاپروری ، غریبوں ، یتیموں و یسیروں ، بیواؤں کی مدد باصلاحیت وفطین ذہنوں کی حوصلہ افزائی ، علماء و سائنسدانوں کی پذیرائی ، مدرسوں ، اسکولوں ، کالجس ، یونیورسٹیز ، منادر ، مساجد ، عاشور خانوں ، گرجا گھروں ، گردواروں ، مٹھوں و آتشکدوں کی فراخدلانہ مالی امداد ،فن اور فنکاروں و دستکاروں کی عزت افزائی اس عظیم ہستی کی چند ایک خوبیوں میں شامل ہیں۔
موسم سرما اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا موسم کی شدت کے پیش نظر اُنھیں بھی کمبل کی ضرورت تھی اسی دولت مند ترین شخصیت نے اپنے خادمین سے صاف صاف طورپر کہدیا کہ پندرہ روپئے سے زیادہ قیمت کا کمبل نہ خریدا جائے ۔ خادمین عرض کرنے لگے کہ 18 روپئے سے کم قیمت میں مناسب کمبل دستیاب نہیں ہے ۔ یہ سننا تھا کہ یہ کہکر کہ اُنھیں نئی کمبل خریدنے سے منع کردیا کہ اس سال پرانی کمبل سے ہی کام چل جائے گا اسی دوران تاریخی جامع مسجد دہلی کے امام صاحب حاضر خدمت ہوئے اور مسجد کے صحن کے چوتھائی حصہ کی تعمیر کیلئے امداد طلب کی اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اس کام کا تخمینہ چار لاکھ روپئے ہے۔ یہ سنکر اس غیرمعمولی شخصیت نے صرف چار لاکھ روپئے بطور عطیہ پیش نہیں کئے بلکہ یہ کہا کہ سارا صحن ہی تبدیل کردیجئے اس لئے کہ اﷲ کے گھر کے صحن کو پیوند اچھا نہیں لگے گا لہٰذا جامع مسجد دہلی کے مکمل صحن کی تعمیر کیلئے 16 لاکھ روپئے کا عطیہ دیا ۔ قارئین سطور بالا کے مطالعہ کے بعد آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ آخر وہ شخصیت کون تھی جس نے اپنی ذات کیلئے 18 روپئے کی کمبل کو مہنگی تصور کرتے ہوئے پرانے کمبل میں ہی کام چلانے پر اکتفاء کیا تاہم بات جب مسجد کے صحن کی تعمیر کی آئی تو اس کیلئے بناء کسی توقف کے 16 لاکھ روپئے کا گرانقدر عطیہ دیا ۔ آپ کو بتادیں کہ یہ شخصیت آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں کی تھی جن سے متعصب و جانبدار مورخین ، ادیبوں ، صحافیوں اور نام نہاد دانشوروں نے غلط باتیں منسوب کی اور ان کی باوقار شخصیت کو بگاڑ کر پیش کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا ۔ لیکن ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کی ممتاز ادیبہ محترمہ نسیمہ تراب الحسن نے نواب میر عثمان علی خاں اور ان کی زندگی کے بعض اہم گوشوں پر غیرمعمولی انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے میرے خیال میں حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں سے بغض رکھنے والوں کو ’’میر عثمان علی خاں آصف سابع ، یادو کی راہ گذار پر ‘‘ جیسی کتاب کے ذریعہ جہاں موثر جواب دیا وہیں نئی نسل کو حیدرآباد دکن کے اس خدا ترس رحمدل بادشاہ کے اوصاف ان کی خدمات سے واقف کروانے کی بہترین کوشش بھی کی ہے ۔ 180 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں جس کے سرورق پر نظریں پڑتے ہی آگے بڑھکر ایک ہی نشست میں مکمل طورپر پڑھ لینے کو جی چاہتا ہے۔ محترمہ نسیمہ تراب الحسن نے حیدرآباد دکن کے آخری آصفجاہی حکمراں کی زندگی کے مختلف گوشوں ، ان کی ملی و قومی خدمات کو میں بڑے ہی دلنشین انداز میں پیش کیا۔ میر عثمان علی خاں آصف سابع کے اوصاف ، میر عثمان علی خاں کی شخصیت ، میر عثمان علی خاں آصف سابع ۔ اخلاقی اقدار ، یکجہتی و اتحاد میر عثمان علی خاں کے دور میں ، عثمان علی خاں نظام سابع کے وزراء ، عہدیدار امراء ، میر عثمان علی خان آصف سابع پسماندہ طبقے کے خیرخواہ ، آصف جاہی دور حکومت کی عیدیں اور تہوار ، میرعثمان علی خاں نظام سابع دور حکومت کی تعمیرات اور رفاہی کارنامے ، جامعہ عثمانیہ کا قیام اور افتتاح پر میر عثمان علی خاں کی لاجواب تقریر ، میر عثمان علی خاں آصف سابع کتابوں کے قدر شناس، ریاست حیدرآباد میں طباعت و صحافت ، میر عثمان علی خاں کی شاعری ، مہاراجہ کرشن پرشاد آصف جاہی شاعر ، نظام سابع عثمان علی خاں کے عہد میں خواتین کی علمی سرگرمیاں ، آصف جاہی دور کی خواتین اور کارنامے ، دکن کی خواتین شعراء ، حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب ، میرعثمان علی خاں آصف سابع کے دور حکومت میں محکمے اور ’’میں اور میرا حیدرآباد ‘‘ جیسے عناوین کے تحت آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں ، اُن کی سادگی و رعایا پروری ، انسانیت نوازی ، وسیع القلبی ، کشادہ ذہنی ، علمی قدردانی ، گنگاجمنی تہذیب ، ان کی حکومت میں مختلف مذاہب ، ذات پات ، رنگ و نسل کے لوگوں کے درمیان محبت و مروت ، صلہ رحمی اور اخلاقی اقدار ، اُن کی حکومت میں نظم و نسق ، لاء اینڈر آرڈر کی صورتحال ، معاشی ترقی ، صنعتی انقلاب ، عصری حمل و نقل کے ذرائع کا استعمال ، غریب و ضرورتمند طلبہ کی مدد ، ترقیاتی پراجکٹس ، مختلف محکمہ جات کی کارکردگی ، تعلیمی و تعمیری کارنامے ، آصفجاہی دور کی تاریخ ، اس دور کی تہذیب ، سیاسی و معاشرتی حالات ، آصف سابع کی دور اندیشی اور مذہبی رواداری کو بہت ہی خوبصورت اور دلچسپ انداز میں بیان کیا ۔

بقول علامہ اعجاز فرخ مورخ کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ نہ صرف ماضی میں سفر کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو بلکہ ہر آبلہ پائی کے باوجود اس سفر میں ماندگی کا خیال رکھے بغیر آئینوں کے عکس کو اپنے وجود میں سمیٹ کر من و عن پیش کرنے کا سلیقہ بھی رکھتا ہو ، چنانچہ محترمہ نسیمہ تراب الحسن نے بھی پنے قلم کے ذریعہ اسی سلیقہ کا ثبوت دیاہے اور اپنی محققانہ تحریر کے ذریعہ حیدرآباد دکن کی نئی نسل کو اس زیرتبصرہ کتاب کی شکل میں تاریخی دستاویز کا تحفہ دیا ہے۔ ویسے بھی محترمہ نسیمہ تراب الحسن کی اب تک بارہ کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں ۔ انتہائی سادہ و سلیس زبان شائستہ و شستہ لب و لہجہ اور قلوب و اذہان کو چھونے والا انداز ان کی پہچان ہے ۔ یہاں میں آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کی 12 میں سے 9کتابوں کو آندھراپردیش اردو اکیڈیمی نے اپنے انعامات سے نوازا ہے۔ مزید 3کتابیں انھوں نے اردو اکیڈیمی کو پیش نہیں کی ورنہ ان کتابوں کو بھی انعامات سے نوازا جانا یقینی تھا ۔ اپنی اس کتاب کے ذریعہ محترمہ نسیمہ تراب الحسن نے ماضی کے حیدرآباد دکن کی سیر بھی کروائی ہے ۔ راجکماری اندرادھن راج گیر سے منسوب اس کتاب میں انھوں نے اپنی دوست ڈاکٹر حمیرا جلیلی مرحومہ کا بطور خاص ذکر کیا ہے جو میر محبوب علی خاں آصف سادس کے اُستاد فصاحت جنگ جلیل کی پوتی تھیں ۔ حمیرا جلیلی مرحومہ جو دبستان جلیل کی بانی تھیں ان ہی کی تحریک پر محترمہ نسیمہ تراب الحسن نے نواب میر عثمان علی خاں کے بارے میں قلم اُٹھایا ہے نتیجہ میں آج ایک معلومات سے بھرپور کتاب ہم تک پہنچی ہے ۔ اس کتاب میں حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں کے تعمیری ، علمی کارناموں و فلاحی خدمات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا گیاہے ۔ ریاست حیدرآباد دکن کے آبی پراجکٹس دیگر ترقیاتی پراجکٹس ، اسپتالوں ، شفاخانوں ، عزا خانوں ، کتب خانوں ، مسافر خانوں ، عید وں تہواروں کے تعلق سے بھی اچھی خاصی معلومات قارئین تک پہنچانے کی اچھی کوشش کی گئی ہے ۔ زیرتبصرہ کتاب میں حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں کی حب الوطنی کے قصے بھی دلچسپ انداز میں پیش کئے گئے ہیںاور بتایاگیا ہے کہ کس طرح نواب میر عثمان علی خاں بہادر اہل علم کی پذیرائی کیا کرتے تھے ۔
راقم الحروف یہی کہہ سکتا ہے کہ نواب میر عثمان علی خاں بہادر اور ان کی حکمرانی کے بارے میں انگریزی میں ڈھیر ساری کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں لیکن ان میں آصفجاہی حکمرانوں کے بارے میں دروغ گوئی سے کام لیا گیا تھا ان کی شبیہ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی تھی یا وہ کتب البم کی شکل میں پیش کی گئیں لیکن نسیمہ تراب الحسن کی اس کتاب میں معتبر مواد کے انتخاب پر زیادہ توجہہ مرکوز کی گئی ۔ کتاب کی تزئین شارپ کمپیوٹرس ملک پیٹ اور طباعت ایس کے پرنٹرس حمایت نگر نے کی ۔ اردو اکیڈیمی تلنگانہ کی جزوی مالی اعانت سے شائع کی گئی یہ کتاب ادارہ ادبیات اردو پنجہ گٹہ ، اردو بک ڈپو ، انجمن ترقی اردو گلشن حبیب اردو ہال حمایت نگر اور مصنفہ کے مکان 119 روڈ نمبر 13 بنجارہ ہلز ، فون نمبر 040-23396324 سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ٭