میڈیا ٹرائیلس پر سپریم کورٹ کی برہمی

   

کسی بھی جمہوری ملک میں میڈیا کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔ خاص طور پر جمہوری ملک میںاس کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور اسے جمہوریت کا چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے ۔ میڈیا کا غیر جانبدار ہونا اورآزاد ہونا بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ تاہم ہندوستان میںحالایہ چند برسوںمیں خاص طور پر یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ میڈیا یہاںغیر جانبدار نہیں رہ گیا ہے ۔ میڈیا ملک کے ہر معاملہ میں ایک فریق بن کر رہ گیا ہے ۔ میڈیا کی کاوشوں سے ہی ملک کے ماحول میں پراگندگی پیدا ہو رہی ہے ۔ عوام کا ذہن متاثر ہو رہا ہے ۔ نوجوانوں کے ذہن زہر آلود ہونے لگے ہیں۔ ہر موقع پر میڈیا کی جانب سے مذہبی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی کو نشانہ بنانا ایک عام روایت بن گئی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے میڈیا چینلس گھنٹے اور آدھے گھنٹے کی بحث میں کسی بھی مسئلہ کا حل چاہتے ہیں اور فوری اپنے طور پر نتیجہ اخذ کرنے لگ جاتے ہیں۔ کسی کو بھی ذمہ دار قرار دے دیا جاتا ہے اور کسی کو بھی بے قصور قرار دینے میں بھی میڈیا باز نہیں آتا ۔ ہر مسئلہ پر اپنی رائے عوام کے ذہنوںپر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سماج میںزہرگھولنے اور ملک کے ماحول کو متاثر کرنے میں بھی میڈیا کا رول اہم رہا ہے ۔ ملک کی مختلف عدالتوں نے ایک سے زائد مواقع پر میڈیا کے اس رول کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس کی سرزنش کی ہے ۔ اب ایک بار پھر سپریم کورٹ نے میڈیا ٹرائیلس پر تنقید کی ہے اور کہا کہ میڈیا ہر معاملہ میں اپنے طور پر مقدمہ بازی جیسی حرکتوںسے باز نہیں آرہا ہے ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر خود میڈیا کو سب سے زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے ۔ میڈیا کو اپنے غیر جانبدار رول کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ میڈیا کو اپنی اہمیت اورغیر جانبداری اور پیشہ ورانہ دیانت کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ کسی بھی مسئلہ پر میڈیا کو اپنی رائے پیش کرنے اور کسی ایک فریق کی تائید و حمایت کرنے اوردوسرے کی مخالفت کی بجائے غیر جانبدار رہتے ہوئے حقائق کو پیش کرنے پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے ۔ یہی میڈیا کی ذمہ داری ہے ۔ یہی میڈیا کا فرض ہے اور ایسا ہی کیا جانا چاہئے ۔
میڈیا اپنے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ہندوستان میں کم از کم ناکام رہا ہے ۔ عوام کے مسائل کو اٹھانے اور حکومتوںکو جھنجھوڑنے کی بجائے حکومت کے تلوے چاٹنے میںہمارا میڈیا سرگرم اور اہم رول ادا کر رہا ہے ۔ ہر مسئلہ کو ایک مخصوص رنگ میںڈھالنے اور ایک مخصوص انداز میں پیش کرنے میں میڈیا سرگرم ہوچلا ہے ۔ عوام کو آج ملک میں کئی مسائل کا سامنا ہے ۔عوام کو کئی چیلنجس کا سامنا ہے ۔ حکومتوں کی ناکامیاں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ حکمرانوں کی بے حسی بھی عام ہوتی چلی گئی ہے ۔ اس سب کے باوجود ہمارا میڈیا ان سے سوال کرنے اور ان کو جھنجھوڑنے کے اپنے فریضہ کو مکمل نظر انداز کرچکا ہے۔ ایک مخصوص سوچ ملک اور ملک کے عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ملک کے دفاع جیسے اہم مسئلہ پر بھی میڈیا حکومت سے سوال کرنے اور اس کی عدم کارکردگی کو عوام کے سامنے لانے میں ناکام ثابت ہوا ہے ۔ صرف تشہیر ی پروپگنڈہ اور ٹی آر پی کے مقصد سے چینلس چلائے جا رہے ہیں۔ ٹی وی چینلس پر مباحث کرنے والے صحافی کم پرجوش اینکرس زیادہ ہوگئے ہیں۔ اپنے آپ کو ماورائے قانون بھی سمجھنے لگے ہیں۔ کچھ اینکرس تو ایسے بھی ہیں جو سمجھنے لگے ہیں کہ ان کے اسٹوڈیو ہی میں قوانین بنتے ہیں۔ وہیں صحیح اور غلط کا فیصلہ ہوتا ہے اور وہیں سے وہ کسی کو بھی رسواء کردینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ کسی کے تعلق سے بھی قطعی رائے اور فیصلہ صادر کرنے بھی لگے ہیں اور یہیں سے صورتحال مشکل ہونے لگ جاتی ہے ۔
ایک سے زائد مواقع ایسے رہے ہیں جب ملک کی مختلف عدالتوں نے میڈیا کے رول کی سرزنش کی ہے ۔ ان سے باز پرس کے انداز میں سوال کئے گئے ہیں۔ حکومتوں کو بھی اس جانب توجہ دلائی گئی ہے ۔ میڈیا کی آزادی کو متاثر کئے بغیر ان کیلئے ایک دائرہ کار کو متعین کرنے کو بھی کہا گیا ہے لیکن ہماری حکومتیں بھی اس معاملہ میں چپ سادھے ہوئے ہیں کیونکہ میڈیا چینلس حکومتوں ہی کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ حکومتوں سے سوال پوچھنے کی بجائے اپوزیشن کو نشانہ بنانے میںزیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ عدالتوں کی پھٹکار کے بعد میڈیا کو خود اپنے رول اور اپنی پیشہ ورانہ دیانت پر غور کرنے اور غیر جانبدار موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔