نتیش ‘آیا رام ۔ گیا رام کے علمبردار

   

پھر وہی سب ہو ہی گیا جس کے اندیشے گذشتہ تقریبا ایک ہفتے سے جاری تھے ۔ کہا جا رہا تھا کہ نتیش کمار اب اپنی سیاسی سہولت اور مصلحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے انڈیا اتحاد سے علیحدگی اختیار کریں گے اور دوبارہ نریندر مودی کی قیادت والے این ڈی اے اتحاد میںشامل ہوجائیں گے ۔ جو اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے آج وہ درست ثابت ہوئے اور نتیش کمار نے آج مہا گٹھ بندھن کے چیف منسٹر کی حیثیت سے استعفی پیش کردیا اور اب وہ دوبارہ بی جے پی و این ڈی اے کی حمایت سے چیف منسٹر کا حلف لیں گے ۔ یہ دس سال میںپانچویں مرتبہ ہے کہ نتیش کمار نے اپنی سیاسی وفادری اور حلیف اتحاد کو تبدیل کیا ہے ۔ یہ سب کچھ نتیش کمار نے محض اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے اور مصلحت پسندی سے کیا ہے بصورت دیگر نظریاتی اختلاف کی اگر بات کی جائے تو جس کسی کا کسی سے نظریاتی اختلاف ہوتا ہے وہ کسی بھی صورت میں اس سے اتفاق یا اتحاد نہیںکرتا ۔ اس کی مثال خود بہار میں موجود ہے جہاں لالو پرساد یادو واحد ایسے لیڈر ہیں بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس کے علاوہ لالو یادو کی پارٹی ہندوستان میں واحد ایسی جماعت ہے جس نے اب تک راست یا بالواسطہ طور پر کبھی بھی بی جے پی یا نریندر مودی سے اتحاد یا اتفاق نہیں کیا ہے ۔ ہمیشہ نظریاتی بنیادوں پر ان کی مخالفت کی گئی ہے اور اتحاد کرنے سے گریز کیا گیا ہے ۔ حالانکہ لالو پرساد یادو کے خلاف سیاسی انتقام کے جذبہ سے جو مقدمات درج کئے گئے اور انہیںجس طرح سے جیل بھیجا گیا تھا اس طرح کی صورتحال میں کئی بڑے قائدین ایسے رہے ہیں جنہوں نے سیاسی وفاداریاں تبدیل کی ہیں اور وہ بی جے پی کی گود میں جا کر بیٹھ گئے یا پھر کم از کم بی جے پی اور مودی کے پرستار اور ہمنوا بنتے ہوئے ان سے اتحاد و اتفاق کرلیا تھا ۔ نتیش کمار کو بہار کی سیاست میں جو مقام حاصل تھا اس کو انہوں نے اپنی آیا رام ۔ گیارام کی سیاست کرتے ہوئے ایک طرح سے داغدار کردیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی عوامی تائید میں مسلسل گراوٹ آتی گئی ہے ۔ اب وہ آیا رام ۔ گیا رام کی سیاست کے علمبردار بن گئے ہیں۔ اتحاد کی تبدیل ان سے زیادہ کسی نے نہیں کی ہے ۔
جس وقت بی جے پی سے ہاتھ چھڑانا تھا نتیش کمار نے آر جے ڈی اور کانگریس کا ساتھ حاصل کرلیا ۔ انہوں نے بی جے پی کو شکست دینے کیلئے انڈیا اتحاد بنانے کی تجویز پیش کی تھی ۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے کانگریس کو اس اتحاد کی قیادت کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ انہوں نے ہی یہ کہا تھا کہ کانگریس ہی وہ واحد جماعت ہے جو ملک بھر میں بی جے پی سے مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔ نتیش کمار نے یہ بھی واضح کردیا تھا کہ وہ وزارت عظمی امیدوار کے دعویدار نہیںہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ سکیولر حکومت قائم ہو تاہم جب انڈیا اتحاد کے ایک آن لائین اجلاس میں جب کنوینر کے عہدہ کیلئے ان کے نام پر اتفاق رائے نہیںہوسکا اور اس پر مزید تبادلہ خیال کی ضرورت ظاہر کی گئی تو نتیش کمار کے تیور بدل گئے اور پھر انہوںنے اپنا اصل رنگ دوبارہ دکھانا شروع کردیا اور وہ اب دوبارہ بی جے پی کی گود میںجا بیٹھے ہیں۔ بی جے پی نے بھی ان کے لئے اپنے دروازے ہمیشہ بند رکھنے کا اعلان کرنے ے باوجود کھلے ہاتھوں سے ان کا استقبال کیا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کے پاس بھی سیاسی اخلاق و اقدار کا کوئی پاس و لحاظ نہیںہے اور وہ صرف سیاسی موقع پرستی میں یقین رکھتی ہے ۔ جو دروازے بی جے پی نے نتیش کمار پر ہمیشہ کیلئے بند رہنے کا اعلان کیا تھا ان کو پوری طرح کھول دیا گیا اور آئندہ پارلیمانی انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد سے تمام تنقیدوں اورا لزامات کو خیرباد کہتے ہوئے نتیش کمار کو اپنے اتحاد میں قبول کرلیا ہے ۔
نتیش کمار ہوں یا بی جے پی ہوں دونوں ہی نے اس اقدام کے ذریعہ اپنی سیاسی موقع پرستی کی بد ترین مثال پیش کردی ہے ۔ اخلاقیات اور اقدار کو دونوں ہی جماعتوں نے بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف سیاسی مفاد پرستی کو ترجیح دی ہے ۔ اب چاہے لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتادل ہو یا پھر کانگریس پارٹی ہو دونوں ہی کو چاہئے کہ کتنی بھی مشکل صورتحال کیوں نہ پیش آجائے نتیش کمار سے اتحاد نہ کیا جائے اور انہیںموقع پرستی کی سیاست کی سزا دی جائے ۔ ان کے مفاد پرستانہ موقف کو بہار کے عوام میںپیش کرتے ہوئے ان کا حقیقی چہرہ عوام میںپیش کیا جائے تاکہ بہار کے عوام اپنے ووٹ سے انہیںسزا دے سکیں۔