نفرتوں نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے ہمیں

   

حیدرآباد بلدی الیکشن… ترقی کو شکست دینے نفرت کا ایجنڈہ
سیلاب میں بی جے پی کہاں تھی… شہرِ محبت حیدرآباد کا تحفظ ضروری

رشید الدین
حیدرآباد جو شہرِ محبت کے نام سے دنیا میں جانا جاتا ہے پچھلے چند دنوں سے نفرت کی بولیوں اور اشتعال انگیز نعروں سے گونج اُٹھا۔ قلی قطب شاہ نے دریا میں مچھلیوں کی طرح شہر میں گنجان آبادی کی دعا اس لئے نہیں کی تھی کہ مٹھی بھر عناصر حیدرآباد کے باشندوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیں۔ شہر کو لوگوں سے معمور کرنے کی دعا تو قبول ہوگئی کاش ! قلی قطب شاہ نے محبت ، امن اور بھائی چارہ کیلئے بھی دعا کی ہوتی تو شاید آج حیدرآبادیوں کو نفرت کی بولیاں سننی نہ پڑتیں۔ حیدرآباد کی نشانی چارمینار کے دامن میں چند نادانوں نے جب نفرت کے نعرے لگائے تو 400 سالہ تاریخ اور شہر کے نشیب و فراز کی گواہ عمارت اُداس ضرور ہوئی ہوگی۔ چارمینار کی فریاد کو وہی لوگ سن اور سمجھ سکتے ہیں جو اہلِ دل ہیں۔ گذشتہ دنوں جس وقت سیاسی مقصد براری کیلئے اس عمارت کے دامن میں دلآزار نعرے لگائے گئے تو چارمینار نے آنکھوں میں آنسو لئے درد بھرے لہجہ میں ضرور آواز دی ہوگی کہ ’’ ارے نادان ذرا سر اُٹھاکر مجھے غور سے دیکھ لے، شہر کے بانی نے ہندو، مسلم ، سکھ اور عیسائی کی علامت کے طور پر 4 مینار تعمیر کئے تھے لیکن تم لوگ اتحاد کی اس علامت کے دامن میں پھوٹ اور تفرقہ کی بولیاں بول رہے ہو۔‘‘ کئی برس بعد تاریخی شہر میں نفرت انگیز تقاریر سنائی دیں اور چارمینار نے اپنے دامن میں نفرت کے سوداگروں کو دندناتے ہوئے گھومتے دیکھا۔ نفرت پھیلانے کیلئے مذہبی اتحاد کی علامت کا انتخاب کرنا اہلِ حیدرآباد کیلئے یقینا صدمہ کا باعث ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چارمینار کو زبان دے تو وہ موجودہ ماحول کے خاتمہ کیلئے بارگاہِ خداوندی میں زبانِ حال سے فریاد ضرور کرے گا۔

بلدیہ عظیم تر حیدرآباد (GHMC) انتخابات ملک کے دیگر بلدیات کی طرح انتخابات ہیں لیکن شہر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک بلدی چناؤ نے قومی اہمیت حاصل کرلی ہے اور بی جے پی نے نفرت اور کشیدگی کا وہ ماحول پیدا کردیا کہ جس کی سابق میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایک بلدی چناؤ کو قومی حیثیت پر سیاسی حلقوں میں مباحث جاری ہیں۔ دیگر شہروں کے بلدی ادارہ کی طرح گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن بھی ہے لیکن اس میں کامیابی کیلئے بی جے پی نے قومی قیادت کو داؤ پر لگاتے ہوئے ساری طاقت جھونک دی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ، مرکزی وزراء، بی جے پی قومی صدر جے پی نڈا، سنگھ پریوار کے مکھوٹا یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی کے چانکیہ امیت شاہ نے انتخابی مہم چلائی حتیٰ کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی بالواسطہ طور پر انتخابی مہم کا حصہ بنایا گیا۔ نریندر مودی جو کورونا وباء کے پیش نظر قومی اور عالمی سطح کے پروگراموں میں ورچول شرکت کررہے ہیں لیکن حیدرآباد کے ایک سائینسی ادارہ کا شخصی طور پر دورہ کیا وہ بھی ایسے وقت جب انتخابی مہم عروج پر تھی۔ یہ پروگرام اچانک طئے ہوا ہے تاکہ حیدرآباد کی انتخابی مہم میں بی جے پی کو فائدہ پہنچ سکے۔آخر بلدیہ عظیم تر حیدرآباد چناؤ کی قومی اہمیت کی وجہ کیا ہے؟ جنوبی ہند میں قدم جمانے بی جے پی کا دیرینہ خواب ہے اور حیدرآباد جنوب کے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ تلنگانہ میں قدم جماکر بی جے پی جنوب کی دیگر ریاستوں میں داخلہ کا راستہ تلاش کررہی ہے۔ ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح تلنگانہ میں کانگریس کے کمزورموقف سے فائدہ اُٹھاکر بی جے پی ریاست میں ٹی آر ایس کے متبادل کے طور پر اُبھرنا چاہتی ہے۔ دوباک اسمبلی حلقہ کے ضمنی چناؤ میں کامیابی نے بی جے پی کے حوصلوں کو بلند کردیا ہے۔ دوباک کی کامیابی علاقہ کی عدم ترقی پر عوام کی ناراضگی اور مسلسل ناکامیوں پر بی جے پی امیدوار کے حق میں ہمدردی کی لہر کا نتیجہ ہے اس کا مذہبی منافرت یا فرقہ وارانہ ایجنڈہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن حیدرآباد بلدیہ پر حکمرانی کے خواب کی تکمیل کیلئے پُرسکون انداز میں ترقی کی راہ پر گامزن شہر کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عوام نفرت پھیلانے والے قائدین اور ان کی تقاریر کو بھول چکے تھے لیکن نفرت کے پرچارکوں کے وارث مزید بھیانک شکل وصورت میں نمودار ہوگئے۔ سنگھ پریوار نے حیدرآباد چناؤ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے فرقہ وارانہ منافرت کا کارڈ کھیلا ہے۔ حیدرآباد میں اصل مقابلہ ٹی آر ایس اور بی جے پی کے درمیان ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایک ریاستی جماعت کا قومی جماعت سے یا سیکولر اور قومی یکجہتی کا مقابلہ نفرت اور فرقہ پرستی سے ہے۔ بی جے پی کے قومی و ریاستی قائدین نے اپنی تقاریر کے ذریعہ حیدرآباد کی فضاؤں میں زہر گھولنے کی کوشش کی۔ انتخابی مہم کے انداز سے گمان ہونے لگا تھا جیسے یہ حیدرآباد شہر نہیں بلکہ گجرات کا احمدآباد یا پھر اُتر پردیش کا لکھنؤ شہر ہے۔ بلدی انتخابات کا ایجنڈہ برقی، بلدی، آبرسانی، صحت و صفائی، سڑک، ڈرینج، ماحولیات، پارکس اور دیگر شہری مسائل ہوتا ہے جسے عام فہم انداز میں ترقی کہا جائے گا لیکن بی جے پی نے ترقی کی بجائے نفرت کا ایجنڈہ اختیار کیا جو عوام کے ساتھ دھوکہ اور بدخدمتی ہے۔ پانچ برسوں میں کیا کارنامہ کیا اور منتخب ہونے کے بعد آئندہ پانچ برسوں کیلئے ترقی کا کیا ایجنڈہ ہے اس سے عوام کو واقف کرانے کے بجائے سماج کو منقسم کرنے، ترقی کے بجائے تباہی لانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ شہر کی ترقی اور بنیادی سہولتوں میں بہتری کے منصوبہ کے بجائے ہندو، مسلمان، پاکستان، بن لادن، جناح اور بابر کو انتخابی موضوع بنایا گیا۔ حیدرآباد الیکشن سے جناح، بابراور بن لادن کا کیا تعلق ؟ وہ کہاں سے حیدرآباد آگئے؟ کیا وہ حیدرآباد کے ووٹر ہیں؟ ظاہر ہے کہ لوکل باڈی الیکشن سے اُن کا دور دور کا واسطہ نہیں۔ حیدرآباد میں پاکستانیوں اور روہنگیائی پناہ گزینوں کی موجودگی کا دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن بی جے پی قائدین یہ بتائیں کہ گذشتہ 6 برسوں سے مرکز میں آپ برسرِاقتدار ہیں وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ 6 برسوں سے اس مسئلہ پر خاموش کیوں ہیں؟ نشاندہی کرکے غیر ملکیوں کو واپس کیوں نہیں کیا گیا؟ نفرت کے پرچار سے پہلے عوام کو بتائیں کہ شہر کی ترقی کیلئے مرکز نے کتنا فنڈ جاری کیا ہے۔ حیدرآباد کے عوام سے ووٹ مانگنے والے بی جے پی قائدین اُسوقت کہاں تھے جب سیلاب کے متاثرین امداد کو ترس رہے تھے۔ متاثرہ لاکھوں خاندانوں کو مرکز سے کتنی امداد بہم پہنچائی گئی؟ مرکزی وزراء، امیت شاہ اور مودی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورہ کے ذریعہ متاثرین کا حال دیکھنے تو نہیں پہنچے لیکن الیکشن میں ووٹ مانگنے آگئے۔ حیدرآباد کیلئے غیر مقامی بی جے پی ریاستی صدر و دیگر قائدین نے بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورہ کی زحمت نہیں کی۔ مرکز نے سیلاب کی امداد کیلئے ایک روپیہ بھی تلنگانہ کو نہیں دیا جبکہ گجرات اور کرناٹک کو کئی سو کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ تلنگانہ اور اس کی ترقی سے بی جے پی کی عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ گذشتہ 6 برسوں میں تلنگانہ عوام نے ٹیکسوں کی شکل میں مرکز کو 2 لاکھ 72 ہزار کروڑ روپئے ادا کئے اس کے جواب میں مرکز نے محض ایک لاکھ 40 ہزار کروڑ لوٹائے ہیں۔ باقی ایک لاکھ 30 ہزار کروڑ آخر کہاں خرچ کئے گئے۔ ٹی آر ایس نے تلنگانہ تحریک کی قیادت کی اور علحدہ ریاست حاصل کی۔ گذشتہ 6 برسوں میں کے ٹی راما راؤ نے وزیر بلدی نظم و نسق اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی حیثیت سے شہر کی ترقی میں کئی پراجکٹس کا اضافہ کیا۔ ترقی کے بارے میں اُن کی سنجیدگی ایک مسلمہ حقیقت ہے جسے ہر شہری تسلیم کرتا ہے۔

شہریان حیدرآباد قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے بی جے پی کے نفرت کے ایجنڈہ کے اثر کو قبول نہیں کیا۔ حیدرآباد کے خمیر میں امن و رواداری ہے جس کے نتیجہ میں زہریلی تقاریر اور اشتعال انگیز نعروں کے باوجود عوام نے شہر میں امن اور سلامتی کے ماحول کو برقرار رکھتے ہوئے فرقہ پرست طاقتوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔ نریندر مودی نے ’’ سب کا ساتھ سب کا وِکاس اور سب کا وِشواس‘‘ کا نعرہ لگایا تھا لیکن حیدرآباد میں بی جے پی اُس کے برعکس کام کررہی ہے ۔ مسلم علاقوں میں سرجیکل اسٹرائیک کا اعلان کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پرانے شہر میں ہندو نہیں بستے؟ کیا مساجد کے علاوہ منادر، گرجا گھر اور گردوارے نہیں ہیں؟ کیا بی جے پی ان تمام کو ختم کرنا چاہتی ہے؟ پرانا شہر وہ علاقہ ہے جہاں فسادات کے موقع پر ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی ڈھال بن جاتے ہیں۔ مودی اور امیت شاہ کی ایسے بیانات پر خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ وقت آچکا ہے کہ شہر محبت اور شہر امن کا نفرت کی بولیوں سے تحفظ کیا جائے۔ اَب جبکہ رائے دہی کو صرف دو دن باقی ہیں عوام کو شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترقی اور امن کے حق میں ووٹ دینا ہوگا۔ شہر کی روایات کا تحفظ رائے دہندوں کی ذمہ داری ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ باشعور عوام شہر کی روایات کی پاسداری، ترقی، امن، بھائی چارہ اور مذہبی رواداری کے حق میں فیصلہ دیں گے۔ علی احمد جلیلی کا یہ شعر موجودہ حالات پر صادق آتا ہے ؎
نفرتوں نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے ہمیں
جب یہ دیواریں گریں گی راستہ ہوجائے گا