نکاح میں عجلت کرناسرپرست اور نوجوانوں کیاہم ذمہ داری

   

معاشرہ کی تشکیل کا انحصار خاندانی نظام پر ہے ، اور خاندانی نظام کی بنیاد میاں بیوی کے درمیان باہمی رضامندی سے طے پائے جانے والے عقد نکاح پر ہے ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے نکاح کی پرزور ترغیب دی اور ارشاد فرمایا : ’’النکاح من سنتی فمن لم یعمل بسنتی فلیس منی ‘‘ ترجمہ : نکاح میری سنت ہے ، جو میری سنت پر عمل نہیں کریگا وہ مجھ سے نہیںہے ۔ ( ابن ماجہ ) بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے : وأتزوج النساء ، من رغب عن سنتی فلیس منی ‘‘ ۔ ترجمہ : میں شادی کرتا ہوں ، پس جو کوئی میری سنت سے منھ موڑ لے وہ مجھ سے نہیں ہے ۔( متفق علیہ )
نوجوانوں کو نکاح پر ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : اے نوجوانو ! تم میں سے جو کوئی نکاح کی ذمہ داریوں کو نبھانے کی قدرت رکھتا ہو ، اس کو چاہئے کہ وہ نکاح کرے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچے کرنے والی اور عصمت و عفت کی حفاظت کرنے والی ہے ۔ پس جو اس پر قادر نہ ہو وہ روزہ رکھے کیونکہ وہ اس کے لئے قوت مدافعت ہے ۔
عفت و عصمت ، حیا و پاکیزگی اسلام کا شیوہ ہے اور یہی حقیقت میں مطلوب ہے ، دنیا کی ساری قومیں بے حیائی ، فحش و منکرات کے ساتھ دنیا کی ترقی کے منازل طے کرسکتی ہیں ، دنیوی عروج و کمال کو پاسکتی ہیں ، لیکن مسلم قوم بے حیائی کے ساتھ نہ اس دنیا میں ترقی کرسکتی ہے اور نہ آخرت میں ۔ تقویٰ و پاکیزگی ، نفس ، روح ، قلب اور اخلاق کی پاکی و صفائی ہی مسلمان قوم کے عروج و کمال کے مؤثر اسباب و عوامل ہیں۔ جوانی ، جسمانی طاقت و قوت کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔ عنفوان شباب میں جنسی خواہشات کو قابو میں رکھنا ، قلب و نگاہ ، فکر و دماغ کو فحش افکار و خیالات اور نامناسب مناظر سے محفوظ رکھنا نفس پر سب سے زیادہ گراں ہوتا ہے ، یہی حقیقت میں ایک نوجوان کے ایمان ، اسلام ، محبت دین کا کٹھن آزمائشی مرحلہ ہوتا ہے ۔ زمانۂ ماضی میں صالحین کی صحبت ، قرآن مجید کی تلاوت ، نماز پنجگانہ کا اہتمام ، دینی مجالس و محافل میں شرکت ، دینی کتب میں اشغال و انہماک نوجوانوں کے لئے مفید ہوتا تھا لیکن آج کے ٹکنالوجی کے دور میں جبکہ بے حیائی اور بے راہ روی عام ہوگئی ہے ، اسمارٹ فون کی کثرت اور انٹرنیٹ کی وسعت نے مسلم نوجوان قوم کی بنیادیں دہلادی ہیں اور مسلمان قوم مسلسل اخلاقی زوال کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اُمت کا نسل در نسل تجربہ ثابت ہے کہ بے حیائی اور عزت جمع نہیں ہوسکتے ۔ بے حیائی اور سکون قلب جمع نہیں ہوسکتے ۔ یہی منشا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی جلد از جلد شادی کی تلقین فرمائی تاکہ تقویٰ کے حصول کیلئے جو پاکی اور ستھرائی مطلوب ہے اس کو برقرار رکھنے میں سہولت ہو ۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج نوجوان طبقہ جلد از جلد تعلیم سے فارغ ہوکر ملازمت حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے ۔ نہ تعلیم کا شوق ہے اور نہ معیشت کی پرواہ ہے ۔پچیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی مسلم نوجوان خودمکتفی نہیں ہے ۔ وہ اس قابل نہیں ہے کہ اپنی ذات کے علاوہ ایک شریک حیات کا نان نفقہ ادا کرسکے ۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ والدین اور سرپرستوں کو اپنی اولاد کی جس طریقہ پر منصوبہ بندی اور پلاننگ کرنی چاہئے وہ قطعی طورپر نہیں کررہے ہیں ، وہ اولاد کے ذہنوں میں بچپن سے ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ جس کے نتیجے میں اولاد خودمکتفی اور Settle ہونے کے لئے ایک طویل عرصہ تک مشکلات کاشکار ہورہی ہے اور یہی چیزیں شادی بیاہ کے ٹوٹنے اور میاں بیوی میں اختلافات اور مشکلات کا سبب بن رہی ہیں۔
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے : چاہئے کہ وہ لوگ جو نکاح کی گنجائش نہیں رکھتے وہ خود کو عفت کے ساتھ باعصمت رکھیں یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو مالدار کردے۔( سورۃ النور : ۲۳)
اس آیت شریف کے مطابق ہر وہ نوجوان جو نکاح کرنے پر قادر نہ ہو ، بیوی کے نان نفقہ کو ادا کرنے کامتحمل نہ ہو اس پر لازم ہے کہ وہ خود کو خواہشات نفسانی کے غلبہ سے محفوظ رکھے ۔ فحش و منکرات سے روکے رکھے ۔ زنا اور زنا کے قریب لے جانی والی چیزوں سے بچتا رہے اور اپنے قلب و نگاہ کی پاکی و صفائی کے لئے ہرممکنہ کوشش کرے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے ان لوگوں کے لئے روزہ کا اہتمام کرنے کی تلقین کی۔ واضح رہے کہ ایک یا دو دن روزہ رکھنے سے خواہشات کمزور نہیں ہوتے بلکہ مزید بھڑکتے ہیں اس کے لئے مسلسل روزوں کا اہتمام ناگزیر ہوتا ہے ۔ تب جاکر نفس کمزور ہوتاہے اور جسمانی کمزوری کے ساتھ خواہشات نفسانی کا غلبہ کمزور ہوجاتا ہے ، یہ سخت ترین مجاہدہ ہے ۔ نوجوانوں کے لئے دو راستے ہیں یا تو وہ اپنی تعلیم پر تمام توجہات مرکوز کرتے ہوئے جلد از جلد تعلیم سے فارغ ہوجائیں اور ملازمت کو حاصل کرکے نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں یا وہ اگر تعلیم میں سستی اور کوتاہی کرتے ہیں نیز صنعت و حرفت کے سیکھنے میں لاپرواہی کرتے ہیں اور نان نفقہ کو تک ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں تو ان کو مسلسل روزہ رکھنا ہوگا لیکن کسی صورت میں بے حیائی ، فحش و منکرات کی اسلام میں اجازت نہیں ہوسکتی حتی المقدور نفسانی خواہشات کو ردکرنا لازم ہے اور جو شخص اپنے نفس پر قابو نہ پاسکے اور جنسی خواہش کی تسکین کے لئے غیرشرعی و بے حیائی کے راستے کو اختیار کرلے تو وہ نہ صرف اس دنیا میں ناکام و نامراد ہوگا بلکہ آخرت میں بھی پچھتائیگا۔ یاد رکھ لیجئے کہ دنیا کا سب سے کٹھن امتحان اور نفس کا سب سے بڑا مجاہدہ نفس کی مخالفت کرنا ہے اور جو قلب و نگاہ کی حفاظت کرلے اور فرائض و واجبات کو ادا کرلے وہی حقیقت میں متقی ، پارسا ، پاکباز ، اﷲ تعالیٰ کا دوست و محبوب ہے ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد گرامی ہے : جب بندہ شادی کرلیتا ہے تو اس کا نصف دین کامل ہوجاتا ہے پس چاہئے کہ وہ مابقی میں تقویٰ اختیار کرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد گرامی ہے : جب تمہارے پاس لڑکی کے لئے ایسا رشتہ آئے جس کی دینداری اور امانت داری سے تم مطمئن ہو تو اس سے شادی کرادو ، اگر تم ایسا نہ کروگے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد ہوگا ۔