نیا سال مگر ہندوستان بدحال، معیشت دِگرگوں!

   

پی چدمبرم
کرسمس، سالِ نو، پونگل؍ سنکرانتی کے تعطیلات اور ہنسی خوشی کے ماحول نے یقینا ہندوستان کے جفاکش لوگوں میں نئی توانائی پیدا کردی ہوگی (ماسوائے ارکان پارلیمان جن کو ان میں سے کئی دنوں کے دوران کام پر طلب کیا گیا)۔ نیا سال عملاً 15 جنوری کو شروع ہوا۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ سال اس ملک کے نظامِ حکومت اور ملکی معیشت کیلئے فیصلہ کن موڑ کا نقیب رہے گا۔ آج سے لگ بھگ چار ماہ بعد نئی حکومت اقتدار سنبھالے گی (عوام کے فیصلہ کے مطابق)۔ موجودہ حکومت ابھی اور 30 اپریل کے درمیان ایسا کچھ نہیں کرپائے گی جو معیشت کی حالت میں کوئی اہم تبدیلی لائے۔ لہٰذا، سال 2019ء کی شروعات میں جو موقف ہے وہی موقف رہے گا جب اگلی حکومت اقتدار سنبھالے گی۔ اس لئے، آئیے! معیشت کا جائزہ لیتے ہیں۔
مالیاتی استحکام
سب سے زیادہ استعمال ہونے والے دو عمومی علامتیں پریشان کن ہیں۔ حکومت نے گزشتہ سال نشانے کے مطابق مالیاتی خسارہ کی تکمیل نہیں کی اور امکان نہیں کہ مالی سال 2018-19ء میں 3.3 فی صد کا نشانہ حاصل کرپائے گی۔ یہ ظاہر طور پر خالص راست محصول کی وصولی اور جی ایس ٹی میں مرکز کے حصہ کے معاملوں میں پچھڑ رہی ہے۔ اسے امید ہے کہ جی ایس ٹی معاوضہ کے ذخیرہ میں سے، جھوٹی نج کاری کے ذریعے اور گورنر آر بی آئی کو عبوری نفع کے 23,000 کروڑ روپئے سے دستبردار ہوجانے کی ’ترغیب‘ دینے کے ذریعے کچھ رقم جٹائے جاسکیں گے۔ کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ (سی اے ڈی) یا عام فہم میں تجارتی خسارہ ناکام معاملہ ہے۔ 2017-18ء میں جی ڈی پی کے 1.9 فی صد سی اے ڈی کے برخلاف یہ یقینی طور پر 2018-19ء میں 2.5 اور 3.0 فی صد کے درمیان رہے گا۔ ڈسمبر میں مالِ تجارت کی برآمدات صرف 0.34 فی صد بڑھی، درآمدات میں 2.44 فی صد کی کمی ہوگئی، پھر بھی تجارتی خسارہ 13.08 بلین امریکی ڈالر رہا۔ آئندہ مالی سال کی شروعات زیادہ قرض اور کم ذخائر ِ بیرونی زرمبادلہ کے ساتھ ہوگی۔

کمتر شرح ترقی
نوٹ بندی 2016-17ء کے تیسرے سہ ماہی میں 8 نومبر 2016ء کو لاگو کی گئی۔ ڈسمبر 2016ء کو ختم ہونے والے گیارہ سہ ماہی مدتوں میں جی ڈی پی کی شرح ترقی 7.7 فی صد رہی تھی۔ اس کے بعد سپٹمبر 2018ء تک ختم ہونے والے سات سہ ماہی مدتوں میں شرح ترقی گھٹ کر 6.8 فی صد ہوگئی۔ 2018-19ء کے پہلے نصف میں یہ شرح 7.6 فی صد رہی لیکن سی ایس او (سنٹرل اسٹاٹسٹکس آفس) کا تخمینہ ہے کہ دوسرے نصف میں یہ شرح گھٹ کر 7.0 فی صد ہوجائے گی۔ کمتر شرح ترقی کمتر شرح سرمایہ کاری کی وجہ سے ہے، بالخصوص خانگی شعبہ کی طرف سے۔ گزشتہ تین برسوں میں ’گراس فکسڈ کیپیٹل فارمیشن‘ کی شرح جمود کی طرح 28.5 فی صد رہی، اور یہ 2018-19ء میں لگ بھگ یونہی رہے گی۔ کمتر شرح ترقی بنیادی طور پر نئی نوکریوں کے فقدان کے سبب ہے۔ اگر ہم سی ایم آئی ای (سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی) کے اعداد و شمار کو مانیں تو نہ صرف بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے، بلکہ 2018ء میں 11 ملین جابس کھوئے گئے۔ موجودہ شرح بے روزگاری 7.3 فی صد ہے۔

زرعی شعبہ کی پریشانی
زراعتی شعبہ کی ہر علامت کسانوں کو درپیش پریشانی کا اظہار کررہی ہے۔ این ڈی اے حکومت کے چار برسوں میں اس شعبہ کی شرح ترقی -0.2، 0.6، 6.3 اور 3.4 فی صد رہے ہیں۔ معاشی سروے برائے 2017-18ء میں اعتراف کیا گیا کہ چار سال بعد ’حقیقی زرعی جی ڈی پی کی سطح اور حقیقی زرعی آمدنی بدستور غیرمتبدل رہے ہیں‘۔ کسانوں کی برہمی میں چیخنا چلانا حقیقت کی عکاسی کرتا ہے: زرعی پیداوار کی ہول سیل قیمتیں کم ہیں (تازہ ترین مثال پیاز ہے)؛ ایم ایس پی (اقل ترین امدادی قیمت) وہم ہے اور اکثر کسانوں کو دستیاب نہیں؛ فصل بیمہ اسکیم نے کسانوں کو محروم کیا اور انشورنس کمپنیوں کو مالا مال کردیا؛ زراعت میں مجموعی تشکیل سرمایہ 2015-16ء میں -14.6 فی صد تھا اور 2016-17ء میں 14.0 فی صد بڑھا، اس کا مطلب ہے کہ یہ 2014-15ء کی سطح پر ہی برقرار رہا؛ مسلسل بڑھتے قرض نے کسانوں کو عملاً مفلوج کردیا جس پر قرض معافی لازمی اقدام بن گیا ہے؛ اور کسی کسان گھرانہ کی اوسط ماہانہ آمدنی (8,931 روپئے) اُن کی غربت کو آشکار کرتی ہے۔
صنعت اور برآمدات
اوسط آمدنی والا ترقی یافتہ ملک بننے کی راہ صنعتیانے سے گزرتی ہے۔ زراعت افرادی قوت کا 45 فی صد برداشت نہیں کرسکتی؛ نا ہی آبادی کے 60 فی صد حصہ کیلئے گزربسر کا اصل ذریعہ ہوسکتی ہے۔ انڈسٹری (صنعت) اور اکسپورٹس (برآمدات) سے نوکریاں پیدا ہوں گے۔ دونوں شعبے آج بدحال ہیں۔ صنعتی پیداوار کا اشاریہ اپریل 2018ء میں 122.6 اور نومبر 2018ء میں 126.4 کے درمیان برقرار رہا ہے۔ تقریباً 927 پروجکٹس رکے ہوئے ہیں، جن میں سے 674 خانگی شعبے میں ہیں۔ سی ایم آئی ای کے مطابق سرمایہ مشغول کرنے کے امکانات کی قدر2010-11ء میں 25,32,177 کروڑ روپئے سے گھٹ کر 2017-18ء میں 10,80,974 کروڑ روپئے ہوگئی۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں تک صنعتی شعبہ کا معاملہ ہے، بینکس قرض دینے پر عدم آمادہ ہیں اور پروموٹرز قرض لینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اپریل۔ جون 2016ء سے انڈسٹری کیلئے قرض میں اضافے کی شرح تشویشناک حد تک کم ہے۔ یہ متواتر چار سہ ماہی مدتوں میں منفی رہی اور 2 فی صد کو دس سہ ماہی مدتوں کے منجملہ صرف دو میں عبور کیا۔
برآمدات کا پرفارمنس ابتر ہے۔ مالِ تجارت کی برآمدات این ڈی اے حکومت کے چار سال میں کبھی بھی 311 بلین امریکی ڈالر کو عبور نہیں کی ہیں۔ 2013-14ء میں 315 بلین ڈالر کی اونچی قدر کی بہ نسبت شرح بڑھوتری منفی رہی ہے۔ اس مدت کے دوران سب سے زیادہ متاثرہ دو شعبے ’پارچہ جات اور متعلقہ اشیائ‘ اور ’ہیرے جواہرات و زیورات‘ ہیں جو نوکریاں پیدا کرنے والے شعبے ہیں۔
انڈیا، دنیا کی نظر میں
دنیا نے ہندوستان کی پوشیدہ طاقت کو تسلیم کیا ہے لیکن معیشت کی موجودہ حالت نے ہمت توڑ رکھی ہے۔ 2018-19ء میں جنوری تک ایف پی آئی (فارن پورٹفولیو انوسٹمنٹ) اور ایف آئی آئی (فارن انوسٹی ٹیوشنل انوسٹر) 94,259 کروڑ روپئے نکال چکے ہیں جو ایکویٹی اور قرض کے درمیان لگ بھگ مساوی طور پر منقسم تھے۔ 31 ڈسمبر 2018ء کو ’ساورن بانڈ‘ کی شرح 7.3 فی صد تھی۔ صاف ظاہر ہے کہ ’تیزترین بڑھتی معیشت‘ کی شیخی کو بقیہ دنیا میں شاید ہی کسی نے قبول کیا ہے۔ ہم اس حکومت پر ہماری امید اور بھروسہ رکھتے ہیں جو عوام مئی 2019ء میں منتخب کریں گے۔