وزیراعظم کی ’بازاری زبان‘ اور سفید جھوٹ

   

رویش کمار
’’ اَرے ، تُرے‘‘ جیسے الفاظ کے ساتھ گزشتہ اتوار کی ریلی میں اپنی بات شروع کرنے والے جملوں پر وزیراعظم کی زبان کا نیا پہلو اُجاگر ہوا ہے۔ تہذیب کی کتاب میں ایسے الفاظ کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ ایسے الفاظ چیلنج کو ظاہر کرتے ہیں اور غصہ کو بھی۔ کہیں کہیں یہ الفاظ اُنسیت کے معنی و مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں لیکن وزیراعظم کا ایسا مطلب ہرگز نہیں رہا۔ اُن کے لہجہ میں سختی رہی۔ اُن کا سرزنش کا انداز افسوس کہ بازاری زبان کی عکاسی کررہا تھا! وزیراعظم ہند کو عوام نے کتنا چاہا ہے، لیکن انھوں نے اس کے عوض کیسی زبان استعمال کی۔ رام لیلا میدان میں اُن کی باتوں کا لب و لہجہ نفرت اور جھوٹ سے پُر رہا۔ اُن کی تقریر عوام کی نہ صرف زبان کے معاملے میں توہین کرتی ہے، بلکہ حقائق کے اعتبار سے بھی قابل گرفت ہے۔ بعض وقت یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کیوں وزیراعظم ایسے فیصلوں کا دفاع کررہے ہیں؟ وہ سمجھ رہے ہیں یا ان کو باور کرایا گیا ہے کہ اس طریقے سے چار سو نشستیں حاصل ہوسکتی ہیں اور وسیع تر ہندو اتحاد کی مضبوطی ہوگی۔ کیا اس کیلئے بازاری زبان استعمال کرنا چاہئے؟ کیا ’وسیع ہندو اتحاد‘ کے بچے گھروں میں ’’ہے اور رے‘‘ کی زبان بولیں گے؟
وزیراعظم کی نرم گفتاری ہو تو احترام خودبخود ہوتا ہے اور مقبول عام لیڈر کو ایسا ہی کرنا چاہئے۔ لیکن جو زبان اُن کے حامیوں نے سیاست میں اختراع کی ہے اور جب اُس کی جھلکیاں وزیراعظم کی زبان میں پائی جائیں، تو ہرگز اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ اچھا لیڈر اپنے حامیوں میں شائستگی کا معیار قائم کرتا ہے۔ وزیراعظم اسے چکناچور کررہے ہیں۔
کیا میں نے کبھی مذہب اور ذات کی اساس پر ووٹ مانگے ہیں؟ یہ کئی بار پوچھا اور اس کا جواب دیا جاچکا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی جھارکھنڈ میں وزیراعظم شرپسندوں کو اُن کے کپڑوں سے ہی پہچان لئے جانے کی بات کررہے تھے۔ اسی انتخابی جلسہ عام میں امیت شاہ نے خود کو بیوپاری قرار دیا۔ اگر آپ ماضی کا جائزہ لیں تو وزیراعظم کو خود اپنی ذات کے ووٹروں سے اپیل کرتے ہوئے پائیں گے۔ رام لیلا کی تقریر میں بھی انھوں نے شہریت (ترمیمی) قانون یا سی اے اے کی بابت شہریوں کو چالاکی سے سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی سرپرستی والی دہشت گردی اور کسی بھی نوعیت کی دہشت گردی کی مخالفت کرنا چاہئے۔ اب عوام نئے قانون شہریت کی مخالفت کررہے ہیں اور وزیراعظم اُن کو دہشت گردی کے حامی باور کرتے ہوئے اُن کا ناطقہ بند کرنا چاہتے ہیں۔
جہاں تک مسلمانوں کی حب الوطنی کا معاملہ ہے، اس میں کیا شائبہ ہے؟ 2008ء میں نہ صرف چھ ہزار افراد نے دہشت گردی کے خلاف تجویز پر دستخط کئے بلکہ دو سو مقامات پر جلسے منعقد کئے گئے۔ 2015ء میں جب دہشت گرد تنظیم آئی ایس آئی ایس ہندوستان تک پہنچی، اس کے خلاف زائد از 70 شہروں میں جلسے ہوئے، جن کی سرپرستی دارالعلوم دیوبند اور دیگر مسلم مذہبی تنظیموں نے کی۔
رام لیلا میدان کے جلسہ عام میں وزیراعظم نے ایک دفعہ تک نہیں کہا کہ ملک کے دشمنوں کو نشانہ بنائیں چاہے وہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھیں۔ ان کے قائدین اور ورکرس ترنگا لہراتے ہوئے نعرے بازی کررہے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو دہشت گردی کا اڈہ باور کرایا جارہا ہے۔ وزیراعظم ایسی باتوں پر بدستور خاموش ہیں اور پولیس کی جانب سے تشدد اور غنڈہ گردی پر بھی وہ لب کشائی نہیں کرتے ہیں۔
یہ سمجھنا پڑے گا کہ ’ویراٹ ہندو یونیٹی‘ کے نام پر نفسیاتی دباؤ پیدا کیا جارہا ہے کہ بہرصورت 400 نشستیں حاصل کی جائیں۔ کیا اُن کے بزرگ قائدین اُس ’ویراٹ ہندو یونیٹی‘ کو اسی طرح کی زبان کا کلچر دینا چاہتے ہیں؟ رام لیلا میدان میں وزیراعظم نے عوام سے اپیل کی کہ ملک کے (پارلیمنٹ کے) دونوں ایوان کا احترام کریں۔ کھڑے ہو کر احترام کا اظہار کیجئے۔ ماحول یکایک جذباتی ہوگیا۔ عوام مودی کی نقل میں کھڑے ہوئے۔ کوئی یہی کہے گا کہ واہ! کیا ماہرانہ کام کیا؟ لیکن جب اس بل (سی اے بی) کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں لایا گیا، کیا وزیراعظم نے مباحث میں حصہ لیا؟ جواب ہے ’نہیں‘۔ کیا وزیراعظم مباحث کے دوران ایوان میں تھے؟ جواب ہے ’نہیں‘۔ کیا وزیراعظم نے بل پر ووٹنگ میں حصہ لیا؟ جواب ہے ’نہیں‘۔ کیا آپ کو یہ معلوم تھا یا میڈیا نے آپ کو بتایا تھا؟ جواب شاید یہی ہوگا کہ ’نہیں‘۔ کیا میڈیا کبھی آپ کو بتائے گا؟ اس کا جواب بھی شاید ’نہیں‘ ہوگا۔ خود اُن کی پارٹی نے بارہا پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کی مخالفت کی ہے۔ پارلیمان کے بنائے گئے قوانین کا عدلیہ جائزہ لیتا ہے۔ تب بھی احتجاج ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کی عرضیاں قبول کرتا ہے۔
وزیراعظم کی تقریر میں متعدد جھوٹ پکڑے گئے۔ انھوں نے کہا کہ سٹیزن شپ رجسٹر کے تعلق سے حکومت میں کوئی غور و خوض نہیں کیا گیا۔ یہ جھوٹ ہے کیونکہ کئی مرتبہ اندرون و بیرون ایوان وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا ہے کہ سٹیزن شپ رجسٹرز لائے جارہے ہیں۔ خود پارٹی کے انتخابی منشور میں اس موضوع کا تذکرہ ہے۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ منشور کے تعلق سے میڈیا عوام کو کس حد تک واقف کراتا ہے؟ امیت شاہ نے تادم تحریر نہیں کہا ہے کہ انھوں نے پارلیمنٹ کو بتایا ہے کہ این آر سی غوروخوض کے بغیر لایا جارہا ہے۔
وزیراعظم نے ایک اور جھوٹ بولا کہ کوئی ڈیٹنشن سنٹر قائم نہیں کیا گیا ہے۔ رواں سال جولائی اور نومبر میں اُن کی حکومت نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ آسام میں چھ حراستی مراکز تعمیر کئے جاچکے ہیں اور یہ کہ وہاں کتنے افراد کو رکھا گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں اُس جواب کی نقل سوشل میڈیا میں زیرگشت ہے۔ آپ جانچ کرلیں کہ آیا آپ کے ہندی اخبارات اور چیانلوں نے یہ سب کچھ کہنے کی جرأت کا مظاہرہ کیا ہے؟
سارا قصہ یہ ہے کہ عوام کو اندھیرے اور جھوٹ میں اُلجھا کر رکھا جائے۔ وزیراعظم نے رام لیلا میدان میں جھوٹ بولا ہے۔ یہ جھوٹ عظیم ہندو اتحاد کے موقف کی توہین کرتے ہیں۔ وہ جو جھوٹ اور نفرت کی سیاست کی بنیاد پر ہندو افتخار پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ فراموش کرچکے ہیں کہ اس طریقے سے ہندو عظمت رفتہ بحال نہیں ہوگی۔ طمطراق اور چمک دمک خوب سیرتی، اختراعیت اور سخاوت سے آتی ہے۔ اگر آپ فخر اور طمطراق کے درمیان فرق سمجھیں تو آپ کو میرا نکتہ سمجھ آئے گا، ورنہ اس آرٹیکل پر ردعمل میں T-cell کی جانب سے ٹرولنگ پڑھیں اور ہندو فخر کی اپنے گھروں تک رسائی کیلئے تیار رہیں۔
ravish@ndtv.com